کاسہ لیس مفکر۔۔!!

اتل یہ بات سنی تو تھی لیکن   مشاہدہ نہیں کیا تھا کہ امریکا کی   دوستی دشمنی سے زیادہ   نقصان دہ ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی کانگریس میں اشرف غنی کے خطاب پر کانگریس کے ارکان کی تالیاں دیکھ کر مجھے امریکا کے سابق کاسہ لیس کرزئی خوب یاد آئے جو کبھی ہرامریکی کی آنکھوں کا […]

اتل

یہ بات سنی تو تھی لیکن   مشاہدہ نہیں کیا تھا کہ امریکا کی   دوستی دشمنی سے زیادہ   نقصان دہ ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی کانگریس میں اشرف غنی کے خطاب پر کانگریس کے ارکان کی تالیاں دیکھ کر مجھے امریکا کے سابق کاسہ لیس کرزئی خوب یاد آئے جو کبھی ہرامریکی کی آنکھوں کا تارا اور دلوں کی دھڑکن ہوا کرتا تھا، ان کی دلجوئی کیلئے بھی کانگریس میں یہ تماشہ بر پا رہتا تھا۔۔۔لیکن وقت کے ساتھ وہ ساری پروٹوکول عنقاہوگئی اور اب ایک کرزئی کی جگہ دو “کرزئی” براجماں ہیں ۔

امریکی ایجنٹس اور ان کے غلاموں کیلئے کرزئی کا انجام پریشان کن   ضرور ہے کہ امریکا کی دوستی کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ ایران کے سابق صدر رضا شاہ پہلوی سے لیکر عراق کے صدام حسین   اور افغانستان کے صدرکرزئی تک سب امریکی دوستی کے عبرتناک انجام کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔

یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ امریکا کی دوستی سے اس کی دشمنی ہزار درجے بہتر ہے۔ کیونکہ آخر میں امریکا اپنے دوستوں کو قتل کرنے اور   زیر حراست رکھنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ جب دوستی کا دورانیہ ختم ہوجاتا ہے تو ان کی حیثیت مشین کے استعمال شدہ اس پرزے کی طرح ہوجاتی ہےجس مستعمل ہونے کے بعد کباڑیے کی دکان کی زینت بن جاتاہے ۔حامد کرزئی   کو امریکی وفاداری کی وجہ سے پورے یورپ میں اسے بھاری بھر کم القابات سے نوازا جاتا۔ امریکی اور یورپی پارلیمنٹ میں ان کو خطاب کی دعوت دی جاتی۔ اپنے ملک کے عوام سے خیانت اور جفا کے   بدلے انہیں بہادر اور نڈر جیسے القابات دیئے جاتے رہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں انہیں کامیاب، ہوشیار اور مدبر سیاست دان کے طور پر پیش کیا جاتاتھا۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا جب کرزئی کے جرائم اور ظلم و ستم عوام کی آنکھوں میں آگئے اوران کےمکروہ اور غلام چہرے سے نقاب اٹھ گیا۔ امریکا نے محسوس کیا کہ اب کرزئی ان کے مفاد میں کوئی قدم اٹھا نہیں سکتاتو امریکا   کرزئی کا جانشین تلاش کرنے لگا اورتلاش کرتے تے ان کی نظر اپنے پرانے کٹھ پتلی اشرف غنی پر ٹھہری۔اور پھر اپنے منظور نظر غلام کی بے جا تعریفوں   کے پل باندھنے لگے۔ انہیں دنیا کے نامور مفکرین میں شمار کیا جانے لگا۔ حالانکہ اشرف غنی کوبات کرنے کا   سلیقہ بھی نہیں آتا، دین اسلام کے بارے میں ان کی معلوما ت ہیچ ہیں ۔اسی لئے   مغربی میڈیا ان کی تعریفوں میں دن رات ایک کرتا دکھائی دیا۔ اور افغانستان کے سادہ لوح عوام   اس جال میں پھنس گئے کہ اصل شخص تو یہی ہے جس کا شمار دنیا کے نامور مفکرین میں ہوتا ہے کرزئی تو محض ایک دھوکہ تھا۔

الغرض امریکا نے اشرف غنی کو کرزئی کی جگہ اقتدار پر بٹھایا اور غنی واقعی امریکی غلامی میں کرزئی سے دس گنا بہتر ثابت ہوئے۔ امریکا کے ساتھ سیکورٹی معاہدے کے نام پر افغانستان کی سرزمین اونے پونے داموں بیچ ڈالی۔ جہاں بھی جاتے ہیں امریکی آقاؤں کے رٹے رٹائے جملے مِنْ وعَنْ دہراتے ہیں، جس ملک کا سفر کرتے ہیں وہاں بھی حسب عادت وہی جملے وہی باتیں۔ دنیا والے   ان کی گفتگو سن کر حیران رہ جاتے ہیں کہ کیا یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کے مشہور مفکرین میں سے ہیں۔ انہیں اس بات پر شدید تشویش لاحق ہوتی کہ اگر دنیا کے تمام نامور مفکرین اس طرح ہوں تو پھر اس دنیا کا اللہ ہی حافظ ہے۔ لیکن وہ بیچارے کیا جانیں کہ دنیا کے جن مفکرین میں اشرف غنی کا شمار ہوتا ہے وہ اصل میں وہ مفکر نہیں ہوتے جو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر وہاں تک پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ بلکہ اشرف غنی کا شمار جن مفکرین میں ہوتا ہے یہ وہ مفکرین ہیں جنہیں امریکا کی غلامی میں مفکر کی ڈگری دی گئی ہو اور واقعی اشرف غنی ان جیسے مفکرین کے   سرخیل اور رہنما ہیں مفکرین کے اس خاص مجموعے میں وہ ایک عام مفکر نہیں بلکہ ایک رہنما ہیں ۔ کیونکہ غلامی کے جراثیم ان کے خون یہاں تک کہ ان کی عادات اور اخلاق تک میں سرایت کرچکے ہیں۔ کسی بھی فورم پر امریکا کے مفاد کو بالائے طاق نہیں رکھتا۔ اگر کسی کو اعتراض ہو تو ،تو امریکی کانگریس سے ان کے خطاب کے مندرجہ ذیل نکتوں پر غور کریں۔

افغانستان میں امریکی فوجیوں نے بڑی خدمات اور بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔

امریکا اور افغانستان کے مشترکہ قربانیوں کے نتیجے میں آج امریکا محفوظ ہے۔

دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اسلامی دنیا کی خاموشی برداشت سے باہر ہے۔

طالبان فیصلہ کریں کہ وہ القاعدہ ہیں یا افغان۔ طالبان ملکی قوانین کا احترام اور مذاکرات کے ذریعے افغان معاشرے میں شامل ہوجائیں۔

جولوگ میڈیا سے منسلک ہیں یا روزانہ خبریں وغیرہ سنتے ہیں کیا اس تیرہ سالہ امریکی جارحیت کے دوران مذکورہ بالا جملے امریکی فوجی ترجمانوں سے میڈیا میں نہیں سنے۔ اور پھر جس شخص کو بات کرنے کی حد تک آزادی نہ ہو جن کا اٹھنا بیٹھنا سب امریکی مفاد میں ہو، کیا ایسے شخص کو کسی ملک کا خود مختار رہنما کہنا اس ملک اور قوم کی توہین نہیں؟

افغانوں کو اب کچھ ہوش سے کام لینا ہوگا ہمیں آنکھیں بند کرکے کسی کے پیچھے نہیں جانا چاہئے۔تاکہ کوئی دوسرا ” میڈ اِن امریکا” مفکر ہمارے سر پر مسلط نہ ہو۔ہر شخص کے گفتار اور کردار کا موازنہ کریں، کہ اپنے قول و فعل میں کس حد تک اسلام اور ملک سے محبت میں سچا ہے۔ میڈیا کے پروپیگنڈے سے متاثر نہ ہوں۔ ہر شخص کے بارے اپنے ضمیر سے بھی سوال کریں کہ کس طرح کفار کی غلامی کا طوق پہننے والا شخص مجاہد افغان عوام کی فلاح کا ضامن ہوگا؟ آج اشرف غنی امریکا کی جانب دیا گیا جو سکرپٹ پڑھتے ہیں [کہ امریکی فوجیوں نے افغانستان کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں] کیا یہ حقیقت ہے کوئی   ایمان اور افغانیت سے محروم شخص ہی امریکا کے مظالم کو خدمات قرار دے سکتا ہے۔

کیونکہ امریکا نے افغانوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ ڈھائے ہیں جن کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ سارے افغانستان کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا گیا۔ اپنے سب سے زیادہ وزنی بم یہاں گرائے گئے، کیمیائی ہتھیاروں کا بے   دریغ استعمال کیا گیا، سینکڑوں مدارس، مساجد،ہسپتال اور ہزاروں گھر تباہ کردئے گئے۔ ہزاروں ایکڑ پر پھیلے باغات مسلسل بمباری کی وجہ سے خشک ہو گئے، جیلوں میں افغان قیدیوں کو جسمانی اور روحانی طور پر اذیتیں دی گئیں، ان کے جسم کے اعضاء کاٹ دئے گئے، قرآن عظیم الشان کی متعدد بار بے حرمتی کی گئی، شہداء کی لاشوں پر پیشاب کیا گیا،نیک اور پاکدامن عورتوں کے حیا کی چادر یں تار تار کر دی گئیں،راتوں کو سرچ آپریشن کے بہانے بے شمار افغانوں کو شہید اور قیدی بنا لیا گیا،آپریشن کے دوران بہت سے بچوں کو کھوجی کتوں نے کاٹ ڈالا، ایک لاکھ سے زیادہ افغانوں کو شہید اور اتنی ہی تعدا د میں زخمی بھی ہوئے ۔ اشرف غنی کے مطابق یہ سب خدمات ہیں؟ افسوس   افغانوں کے اس مردہ ضمیر پر جو پھر بھی اشرف غنی کو ایک سچا او ر محب وطن افغان سمجھتے ہیں۔

ان کا یہ کہنا کہ” امریکا اور افغانستان اور امریکا کی مشترکہ قربانیوں کی بدولت امریکا محفوظ ہے” اصل میں امریکا نے   اپنے کٹھ پتلی کے ذریعے امریکی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ،ورنہ حقیقت یہی ہے کہ امریکہ موجودہ وقت میں سب سے زیادہ مشکلات اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ افغانستان میں چودہ سالہ جنگ و جدل کے بعد کچھ بھی امریکا کے ہاتھ نہیں آیا۔ افغانستان میں آج بھی امارت اسلامی کے مجاہدین وسیع علاقوں میں موجود اور متحرک ہیں۔جو   امریکی اور ان کے کاسہ لیس اہلکاروں پر عرصہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں۔ دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی امریکی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ امریکی عوام کو پوری دنیا   قابلِ نفرت قوم ٹھہری ہے، کسی ملک کا سفر آزاد فضاؤں میں نہیں کر سکتے۔ جنگوں پر سینکڑوں ٹریلین ڈالر اخراجات کے بعد امریکی معیشت زوال پذیر ہوگئی ہے۔ افغانستان میں اپنے پچاس ہزار فوجیوں کی ہلاکت کی خود ہی   تصدیق وہ حقائق ہیں جن سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ خاص طور پر اسلامی دنیا میں تو امریکا مکمل طور اپنا اعتماد کھو چکا ہے۔ اکثر اسلامی ممالک جو امریکا کے اتحادی ہیں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اسلامی ممالک کی نوجوان نسل میں امریکا سے شدید نفرت پائی جاتی ہے ۔

اشرف غنی کا طالبان کو افغانی معاشرے میں شامل ہونے کی دعوت ہو بہو امریکی بیان ہےجو وہ گذشتہ چودہ سالو ں سے طالبان کے سامنے مختلف طریقوں سے کر رہے ہیں [طالبان افغان معاشرے میں شامل ہوجائیں] میرے خیال میں یہ بیان افغانیت پر ایک بد نما داغ ہوگا کہ ہم امریکا   کو یہ حق دیں کہ وہ جسے افغان کہہ دے وہ افغان ہے جسے وہ افغان نہ کہے وہ افغان نہیں۔ البتہ اگر روئے زمین پر واقعی کوئی افغان ہے تو وہ طالبان ہیں کیونکہ طالبان اپنے لباس قول و فعل عادات و اخلاق سے افغانی ثقافت کی مکمل اور جامع نمائندگی   کرتے ہیں۔ جبکہ اشرف غنی شکل و صورت لباس اور رہن سہن سے بالکل افغانوں کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔ دوسری بات طالبان کی یہ ہے کہ ان کا ذہن اور فکر بھی ان کے لباس کی طرح افغانی ہے جبکہ اشرف غنی نہ شکل وصورت سے افغانی معلوم ہوتے ہیں نہ اپنے فکر اور آئیڈیا سے ان پر افغان ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ   انہیں اپنے آقاؤں نے غلط درس دیا ہے۔ افغانی معاشرے میں اشرف غنی کا اٹھنا بیٹھنا، بات چیت افغانی معاشرے کی مزاج سے مترادف نہیں ہے اور طالبان کی زندگی اور اجتماعی طور و طریقے افغانی معاشرے کے عین مطابق ہیں۔

اسی طرح طالبان کی صفوں میں کوئی شخص دہری شہریت کا حامل نظر نہیں   آئے گا، دوسری طرف اشرف غنی جن کی حکومت،کابینہ، پارلیمنٹ، گورنرز، وزراء، یہاں تک کہ چپڑاسی اور چوکیدار تک سب دہری شہریت کے حامل ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اشرف غنی سب سے پہلے خود افغان بن جائیں،پھر اپنی کابینہ، پارلیمنٹ،وزراء اور گورنرز وغیرہ کو افغانی معاشرے میں شامل ہونے کی دعوت دیں۔ بعد میں طالبان کے بارے میں سوچیں۔