کرپشن کا خاتمہ صرف ایک نعرہ ہے

آج کی بات کچھ دن بعد افغانستان کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقد ہوگی ، جس میں کابل انتظامیہ کو دی جانے والی امداد اور بدعنوانی اور امدادی اخراجات میں شفافیت کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد ایوان صدر کے کرپٹ حکام […]

آج کی بات

کچھ دن بعد افغانستان کے بارے میں ایک بین الاقوامی کانفرنس سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں منعقد ہوگی ، جس میں کابل انتظامیہ کو دی جانے والی امداد اور بدعنوانی اور امدادی اخراجات میں شفافیت کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
اس اعلان کے بعد ایوان صدر کے کرپٹ حکام ایک بار پھر عجلت میں اقدامات اٹھا رہے ہیں اور شفافیت کے عزم ظاہر کرنے اور بدعنوانی کے خلاف لڑنے کے نمائشی اقدامات اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اشرف غنی نے ہنگامی فرمان کے ذریعہ انسداد بدعنوانی کے لئے خصوصی کمیشن مقرر کیا ہے۔ ان کے نائب امراللہ صالح نے کہا کہ کابل کی سیکیورٹی ذمہ داریوں کے علاوہ انہیں بدعنوانی سے لڑنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے، کابینہ کے نئے نامزد کردہ امیدواروں نے بھی بدعنوانی کے خلاف جنگ کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
لیکن یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب عوام اور دنیا سب دیکھ رہے ہیں کہ حکمران اور نظام بدعنوانی میں ڈوب رہے ہیں۔ پچھلے 19 سالوں میں نہ صرف یہ کہ افغان عوام کے نام پر بین الاقوامی امداد کو حکام نے لوٹ لیا اور ہر ایک نے اپنا بینک بیلنس بڑھایا بلکہ ملکی ٹیکس اور معدنیات سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم سے بھی بڑے پیمانے پر چوری اور لوٹ مار ہوتی ہے۔
اشرف غنی جس نے بڑے بڑے معاہدوں اور محصول کے اہم وسائل کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں ، ان کے ارد گرد دہری شہریت رکھنے والے مغرب سے آئے ہوئے لوٹ ماروں کو جمع کیا ہے، مغرب سے آئے ہوئے ان حکام جنہیں اب افغان عوام ٹامیان کہتے ہیں، کو اشرف غنی نے ہر ایک کے لئے دسیوں ہزار ڈالر کی تنخواہ مقرر کی ہے اور اس طرح افغانستان کے قومی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ، جو ماضی میں غیر ملکی ٹھیکیداروں اور مشیروں پر خرچ ہوتا تھا، اب اشرف غنی کے ٹامیان بیرون ملک مقیم اپنے اہل خانہ کو بھیج رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ اشرف غنی کی اہلیہ رولا غنی اور ان کے بھائی بھی اعلی سطح کی بدعنوانی میں ملوث ہیں۔ اس کے علاوہ اشرف غنی اور ان کی کرپٹ ٹیم کبھی کورونا کے نام پر ، کبھی قومی دسترخوان منصوبے کے نام پر اور کبھی دوسرے ناموں پر چوری کرتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک بار یہ افواہیں آ رہی تھیں کہ نیشنل بینک کو بجلی کی فراہمی کئی گھنٹوں کے لئے بند ہو چکی ہے اور اس کے ذخائر سے بڑی رقم نقدی چوری ہوگئی ہے۔
اشرف غنی جانتے ہیں کہ ان کی انتظامیہ میں بدعنوانی اور غبن اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ پوری دنیا اس کے بارے میں بات کر رہی ہے اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جنیوا کانفرنس سے پہلے کسی حد تک خود کو صاف ظاہر کرنے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے ہیں۔
لیکن پچھلے 19 سالوں کے تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ حکمرانوں کے یہ اقدامات صرف وعدوں کی حد تک محدود ہیں اور وہ وطن عزیز اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں۔ بدعنوانی موجودہ انتظامیہ کے خمیر میں پیوست ہوئی ہے اور جب تک کہ یہ ادارہ بنیادی طور پر تبدیل اور اصلاح نہیں کیا جاتا، ان کرپٹ حکمرانوں کے ذریعے افغانستان کو اس بدنامی سے نجات دلانا ممکن نہیں ہوگا۔