کون سا فریق امن کی مخالفت کرتا ہے

آج کی بات 15 نومبر کو امارت اسلامیہ اور مخالف فریق کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے طریقہ کار کے 21 نکات پر اتفاق قائم ہوا، طریقہ کار کو مکمل کرنے کے دو دن بعد قطر حکام کے سامنے جو سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں، پڑھ کر سنایا گیا، اور دونوں ٹیموں کی […]

آج کی بات

15 نومبر کو امارت اسلامیہ اور مخالف فریق کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے طریقہ کار کے 21 نکات پر اتفاق قائم ہوا، طریقہ کار کو مکمل کرنے کے دو دن بعد قطر حکام کے سامنے جو سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں، پڑھ کر سنایا گیا، اور دونوں ٹیموں کی منظوری کے بعد طریقہ کار کی ایک کاپی میزبان ملک کے حوالے کردی گئی۔
فیصلہ کیا گیا تھا کہ مذاکرات کرنے والی دونوں ٹیمیں طریقہ کار پر اتفاق کے بارے میں مشترکہ یا ہر ایک علیحدہ بیان جاری کریں گی، لیکن فریق مخالف نہ صرف اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ گیا، بلکہ ساتھ ہی امارت اسلامیہ کے خلاف پروپیگنڈہ بھی تیز کر دیا۔
ایسا لگتا ہے کہ اشرف غنی اپنے اس وعدے پر عمل پیرا ہیں جو کہتے تھے کہ ” وہ اگلے پانچ سالوں میں امن قائم کریں گے”۔ امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے میں لکھا تھا کہ 10 مارچ سے بین الافغان مذاکرات شروع ہوں گے۔ امارت اسلامیہ اسی تاریخ کو بین الافغان مذاکرات شروع کرنے کے لئے تیار تھی لیکن اشرف غنی نے مختلف ذرائع اور بہانوں سے مذاکراتی عمل کو معطل کر دیا۔
12 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کے افتتاح کے بعد فریق مخالف نے ایک بار پھر بہانے شروع کردیئے، کبھی ایک بات اور کبھی دوسری بات کرتے ، حتی کہ وہ خود کسی ایک موقف پر متفق تھے اور نہ ہی ان کا کوئی متفقہ مشن تھا، آخر کار 15 نومبر کو دونوں مذاکراتی ٹیموں نے مذاکرات کے طریق کار پر اتفاق کیا لیکن فریق مخالف ایک بار پھر اپنے وعدے کی پاسداری کرنے میں ناکام رہا اور غیر معقول اور امن مخالف بیان بازی شروع کر دی ہے۔
ایوان صدر کی یہ کوشش ہے کہ وہ امن عمل میں تاخیر اور رکاوٹوں کی ذمہ داری سے خود کو بری الذمہ قرار دے اور اس کے کچھ ترجمانوں نے بین الافغان مذاکرات میں رکاوٹوں کی ذمہ داری بھی امارت اسلامیہ پر عائد کر دی، لیکن افسوس کہ کچھ ذرائع ابلاغ جو غیرجانبداری کا دعوی بھی کرتے ہیں، امارت اسلامیہ کے خلاف ایوان صدر کے متضاد بیانات اور الزامات شائع کرتے رہتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ امارت اسلامیہ نے بین الافغان مذاکرات کے لئے ایک مضبوط اور اعلی سطحی ٹیم مقرر کی ہے جو امارت اسلامیہ کی جانب سے امن و مذاکرات کے لئے پرعزم ہونے کا غماز ہے، دوسرا یہ کہ امارت اسلامیہ کو بخوبی علم ہے کہ فریق مخالف ٹیم مکمل طور بااختیار نہیں ہے لیکن اس لئے کہ امن عمل میں خلل نہ آئے اور اس راستہ سے ہم ایک مثبت نتیجے تک پہنچ سکیں اس لئے مخالف ٹیم کے ساتھ مذاکرات کرنے کے لئے آمادہ ہے۔
ایوان صدر (غنی اور اس کی ٹیم) اپنی کرسی کی بقا کے لئے بین الافغان مذاکرات میں رکاوٹیں پیدا کر رہے ہیں اور اس متزلزل حکمرانی کو برقرار رکھنے کے لئے افغانستان اور مظلوم افغان عوام کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ افغان عوام اور دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ کابل حکومت امن کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے، مذاکرات اور امن کے اس اہم موقع کو ضائع کررہی ہے اور افغانستان اور افغان عوام کے مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔
ایوان صدر کے حکام کو ماضی سے سبق سیکھنا چاہئے، جنگ پر اصرار نہیں کرنا چاہئے، مظلوم عوام پر ترس کھائیں اور قومی مفادات کو ذاتی مفادات پر فوقیت دیں، ورنہ افغان عوام ان جنگ پسند جنگجوؤں عناصر کو معاف نہیں کریں گے، وہ دنیا اور آخرت میں انہیں گریبان سے پکڑیں گے، ان کا احتساب کریں گے اور انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کریں گے۔