کیا معاہدے پر عمل درآمد کے بغیر کوئی متبادل ہے؟

آج کی بات سیگار کا کہنا ہے کہ امریکہ نے گذشتہ سال کابل حکومت کے فوجیوں کے لئے 82 ملین ڈالر مالیت کا اسلحہ خریدا تھا اور اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ دوسری جانب عالمی بینک نے رپورٹ شائع کی ہے کہ 2014 سے اب تک افغانستان میں غربت کی شرح […]

آج کی بات

سیگار کا کہنا ہے کہ امریکہ نے گذشتہ سال کابل حکومت کے فوجیوں کے لئے 82 ملین ڈالر مالیت کا اسلحہ خریدا تھا اور اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔
دوسری جانب عالمی بینک نے رپورٹ شائع کی ہے کہ 2014 سے اب تک افغانستان میں غربت کی شرح 35٪ سے بڑھ کر 72٪ ہوگئی ہے۔
ایک طرف سے افغان عوام کے ساتھ انسانی امداد اور امن قائم کرنے کے دعوے اور دوسری طرف سے امن معاہدہ اور مذاکرات کے دوران اپنے کٹھ پتلی فوجیوں کو کروڑوں ڈالر مالیت کا اسلحہ فراہم کرنا، جو بذات خود انہیں جنگ لڑنے پر اکسانے کے مترادف ہے، اگر یہ امن مخالف اقدامات نہیں اور بڑھتی غربت کا سبب نہیں ہے تو پھر اس کو کیا کہا جاسکتا ہے؟
اس کے باوجود نیٹو کے کچھ گمنام حکام اپنے افغان کٹھ پتلیوں کی فرمائش اور لابنگ پر امارت اسلامیہ پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ امن کے لئے دوحہ معاہدے کے وعدوں کی پاسداری نہیں کرتی ہے اور شاید ان کے بیشتر فوجی دستوں کو برقرار رکھا جائے گا۔
کابل انتظامیہ نہیں چاہتی ہے کہ افغانستان میں جنگ ختم ہو اور امریکہ اور نیٹو اپنے فوجیوں کو ناکام جنگ سے مکمل طور پر واپس بلائیں، وہ چاہتے ہیں کہ غیر ملکی قابض افواج ہمیشہ کے لئے افغانستان میں ان کے شانہ بشانہ رہیں اور افغانوں کا قتل عام جاری رکھیں۔
کابل حکام دوحہ معاہدے کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں، بین الافغان مذاکرات میں تاخیری حربے استعمال کرنے سے امن عمل کو روکنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے نام نہاد اقتدار اور امریکی ڈالر کا سلسلہ ختم نہ ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے داعش اور دیگر منصوبوں کے تحت وطن عزیز میں علماء کرام، مذہبی رہنماوں، سول سوسائٹی کے کارکنوں، یونیورسٹی کے طلباء، صحافیوں اور دیگر عام شہریوں کی پراسرار ٹارگٹ کلنگ کا منظم سلسلہ شروع کیا ہے۔
اب انہیں اس کی پرواہ نہیں ہے کہ یہ قوم کتنی تکلیف دہ حالت سے دوچار ہے، اب وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ جنگ نہ صرف امریکہ کے لئے باعث نقصان ہے بلکہ افغانستان کی تباہی کی بڑی وجہ بھی ہے۔
یہ حکام آپس میں کیڑوں کی طرح لڑتے ہیں، کیا سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کی زبوں حالی سے کتنی دکھی ہوں گے؟ اور امن کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہوں گے؟
سرعام کرپشن، چوری، ٹارگٹ کلنگ، پرائیوٹ ملیشیا کی تشکیل، امن کے خلاف اعلی حکام کے پروپیگنڈے، نسلی اور قومی تعصبات اور دیگر مسائل پیدا کرنا کابل حکام کا مشغلہ بن گیا ہے۔
کیا امریکہ اور نیٹو کابل میں ان کٹھ پتلیوں کے فریب کو قبول کرتے ہیں یا وہ افغان عوام کے حقیقت پسندانہ موقف کا احترام کرتے ہیں؟ یہ ان کا اپنا کام ہے، لیکن جارحیت کے خاتمے کے حوالے سے افغان عوام کا حوصلہ ختم ہوا ہے، پڑوسی اور علاقائی ممالک اور عالمی برادری مظلوم افغان عوام کی رائے سے متفق ہیں، افغانستان پر قبضہ جلد از جلد ختم ہونا چاہئے، اسی قبضہ کی وجہ سے افغانستان تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، جنگوں اور ہر طرح کی بدامنی کا باعث بنا ہے اور خطے کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہے۔
افغان عوام اب اس بات کے لئے کسی قیمت پر تیار نہیں ہیں کہ قابض ممالک جھوٹے بہانے تلاش کرکے اپنا قبضہ جاری رکھیں، دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کے علاوہ کوئی متبادل آپشن نہیں ہے، یہ تاریخی معاہدہ سب سے بہترین موقع ہے جس کی پاسداری کرنا دونوں فریقوں کی ذمہ داری ہے، جس سے افغانستان کا 20 سالہ بلکہ 40 سالہ بحران کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا، اور اس کی جگہ دیرپا امن قائم ہو سکتا ہے۔