ہوش سنبھال کے

  خالد افغان زوی   مجاہدین نے  کابل انتظامیہ کے حساس ترین مرکز پر حملہ کیا۔ انٹیلی جنس کے دفتر پر ایک ہلاکت خیز حملے نے سب کچھ تباہ کر دیا ۔ ہلاک ہونے والے خاد کے کارندوں کی تعداد اب تک مکمل نہیں ہوئی۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت اعلی عہدے داروں کے محافظوں […]

 

خالد افغان زوی

 

مجاہدین نے  کابل انتظامیہ کے حساس ترین مرکز پر حملہ کیا۔ انٹیلی جنس کے دفتر پر ایک ہلاکت خیز حملے نے سب کچھ تباہ کر دیا ۔ ہلاک ہونے والے خاد کے کارندوں کی تعداد اب تک مکمل نہیں ہوئی۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت اعلی عہدے داروں کے محافظوں کی تھی۔ اسی لیے انتظامیہ کو پاگل پن کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ ریڈیو آن کرو یا ٹی وی یا فیس بک پر جھانک کر دیکھ لیں، مغرب کے حکومتی غلام غصے سے پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے باقی ماندہ مجاہد قیدیوں کو پھانسی دی جائے ۔ کوئی کہتا ہے مجاہدین کے خاندانوں کو ملک بدر کیا جائے اور ان کے املاک پر قبضہ کیا جائے۔

گھر سے بھاگے ہوئے ایک اربکی نے کہا کہ ’’مجاہدین پر ایک بار پھر دشت لیلی کی تاریخ زندہ کی جائے۔ سب کو گروپ در گروپ زندہ مٹی میں دبا دیا جائے۔‘‘ کوئی ان بے خبروں کو بتائے کہ اب وہ دور نہیں رہا، جب تم مجاہدین کے خاتمے کا خواب دیکھتے تھے۔ امارت اسلامیہ اب وہ چھوٹی سی جماعت نہیں رہی،  جو کبھی سیاسی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ یہ بے خبر لوگ جان لیں کہ امارت اسلامیہ کی ’حکومت‘ وہی بیس سال پرانی ’تحریک‘ نہیں ہے، جو ملک کے جنوبی علاقوں میں بھی اجنبی سمجھی جاتی تھی۔ یہ تحریک گزشتہ 14 سالوں میں مغربی کفر کے مقابلے کے لیے اکیلی نکلی تھی تو انہیں عوام کی ایسی حمایت ملی کہ ماضی میں افغانستان کی کسی سیاسی جماعت یا گروپ کو نہیں ملی۔ جنرل دوستم کے آبائی گاؤں خواجہ دوکو میں مجاہدین کا کانوائے گشت کرتا ہے۔ احمد شاہ مسعود کے جائے مدفن پنج شیر کا ’عبداللہ خیلو‘درہ فتح ہونے کو ہے۔ مجاہدین بدخشان کے مرکز فیض آباد کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ صلاح الدین ربانی اپنی زاد گاہ تک نہیں جا سکے۔ جنرل داؤد اور مطلب بیگ کے تخار میں امارت کے کمانڈر مولوی محسن کا راج چلتا ہے ۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آج کا مجاہد وہ جنوب تک محدود رہنے والا ’طالب‘ نہیں رہا ۔

بے خبروں کا یہ کارواں جان لے کہ افغانستان کے شمال میں جوزجان، سرپل، فاریاب اور مزار میں ابھی حال ہی میں ازبک قوم امارت اسلامیہ کی حمایت کے لیے پر تول رہی ہے۔ ترکمن امارت اسلامیہ کے جھنڈے تلے ایسے دینی و قومی جذبے سے اٹھے ہیں کہ کاغذی شیر دوستم کو باربار اپنے علاقے سے بھاگنا پڑ رہا ہے۔  بے خبروں کو جان لینا چاہیے کہ افغانستان کے شمال مشرق میں بدخشان، پنجشیر اور تخار میں تاجک عوام نے امارت اسلامیہ کے لیے اپنی بانہیں کھول دی ہیں۔ اللہ تعالی نے مغربی غلاموں کی ساری کوششیں خاک میں ملا دی ہیں ۔  افغانستان کے شمال میں امارت اسلامیہ کے ’عمری آپریشن‘ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس بار مجاہدین جنوب سے شمال پر حملہ کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے، بلکہ ہر صوبے میں مقامی عوام کی مدد سے جارحیت پسندوں کا مقابلہ کریں گے۔  اس لیے اس بار اگر دشت لیلی کا واقعہ دہرایا گیا تو وہ مغرب کے غلاموں پر دہرایا جائے گا۔ اس بار اگر حیرتان میں کوئی زندہ دبایا گیا تو وہ جمہوریے ہوں گے، جو فرار کا راستہ نہ پانے کی وجہ سے کولاب کی جانب بھاگ رہے ہوں گے۔

ہم کہہ سکتے ہیں اس بار عوام اتحاد اور یکجہتی کا راز جان چکے ہیں  اور پوری قوم ایک پرچم تلے متحد ہوگئی ہے۔ جو مل کر دین اور وطن کے غداروں سے انتقام لیں گے ۔