یونیورسٹی پر حملہ اور ایک اہم سوال

آج کی بات کچھ دن پہلے نامعلوم افراد کی جانب سے کابل یونیورسٹی پر ایک خونریز حملہ ہوا جس میں درجنوں طلباء اور اساتذہ جاں بحق اور زخمی ہوئے اور یونیورسٹی کے کئی کلاس روم تباہ ہوگئے۔ کابل یونیورسٹی جو افغانستان میں اعلی عصری تعلیم کے سب سے قدیم اور مشہور تعلیمی ادارہ ہے، پر […]

آج کی بات

کچھ دن پہلے نامعلوم افراد کی جانب سے کابل یونیورسٹی پر ایک خونریز حملہ ہوا جس میں درجنوں طلباء اور اساتذہ جاں بحق اور زخمی ہوئے اور یونیورسٹی کے کئی کلاس روم تباہ ہوگئے۔
کابل یونیورسٹی جو افغانستان میں اعلی عصری تعلیم کے سب سے قدیم اور مشہور تعلیمی ادارہ ہے، پر اس طرح حملہ اور طلباء کے قتل عام سے ہر آنکھ اشکبار اور ہر شخص آفسردہ ہوا، اور اس واقعے کی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی۔ تاہم یونیورسٹی پر حملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ حکمران طبقہ خاص طور پر اشرف غنی کے پہلے نائب امراللہ صالح نے اس پراسرار حملے کا الزام امارت اسلامیہ پر لگاتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے۔
امراللہ صالح نے حملے کے پہلے دن اپنے اس الزام کی وجہ بتائی کہ حملہ آوروں نے طالبان کا جھنڈا یونیورسٹی لایا تھا اور دیواروں پر “زندہ باد امارت” کے نعرے لکھے تھے۔ اس دن میڈیا نے بھی اس مصنوعی اور جعلی ثبوت کو وسیع کوریج دی اور دیواروں پر لکھے ہوئے نعروں اور جھنڈے کی تصاویر بار بار شائع کیں۔
چونکہ جھوٹے کا حافظہ ہمیشہ کمزور ہوتا ہے، امر اللہ صالح نے کابل یونیورسٹی پر حملے کے بارے میں اپنے تازہ ترین ریمارکس میں کہا ہے کہ حملہ آوروں نے اپنی شناخت اور کسی گروپ سے وابستگی کو چھپانے کے لئے آخری لمحے میں اپنے ہاتھوں میں دستی بم استعمال کئے جس کی وجہ سے ان کی انگلیوں کے نشانات اور چہرے مکمل طور پر مسخ ہو گئے ہیں جو اب شناخت کے قابل نہیں ہیں۔
نائب صدر کے ان دو متضاد بیانات کے بارے میں افغانستان کے عوام پوچھ رہے ہیں کہ کیا واقعی حملہ آوروں نے اپنی شناخت اور وابستگی چھپانے کی کوشش میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا اور اپنی شناخت چھپانے کی کوشش کی؟ پھر انہوں نے اپنے ساتھ جھنڈا کیوں لایا تھا اور دیواروں پر ایسے نعرے کیوں لکھے تھے جو کسی خاص سمت سے ان کا تعلق ثابت کرتے ہیں؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ایوان صدر کو دینا ہوگا اور ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے اور کابل یونیورسٹی پر حملے کے بارے میں شکوک و شبہات ضرور ہیں۔ اس المناک سانحہ کے حوالے سے ایوان صدر کی موجودہ متضاد منطق کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہے اور یہ تضاد اس بات کی علامت ہے کہ ایوان صدر قوم کو جھوٹ بول رہا ہے اور وہی جھوٹ اور متضاد بیانات امارت اسلامیہ کے اس دعوے کو ثابت کرتے ہیں کہ یونیورسٹی پر حملہ کی منصوبہ بندی ایوان صدر اور داعش نے مشترکہ طور پر کی ہے۔
یہ صرف یونیورسٹی کا المیہ نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ کابل اور دیگر بڑے شہروں میں مساجد ، تعلیمی اداروں ، شادیوں اور دیگر عوامی مقامات پر ہونے والے تمام پراسرار حملوں کی چھان بین کی جائے تو اس کی ذمہ داری کابل انتظامیہ کی خفیہ ایجنسیوں پر عائد ہوگی۔
جو لوگ کابل یونیورسٹی پر ہونے والے حملے جیسے اندوہناک سانحے سے آگاہ ہیں انہیں ایوان صدارت کے حکام سے پوچھنا چاہئے اور امر اللہ صالح کے متضادات بیانات کے ثبوت کی بنا پر انہیں گریبان سے پکڑنا چاہئے جو تمام سانحات میں ایوان صدر کے حکام کو ملوث ۔ ثابت کرتے ہیں۔