بہترین اسلامی اخلاق مجاہدین کی مقدس عزم کی نشانی ہے

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہترین اخلاق کی برکت سے قلیل عرصے میں دنیا کے وسیع علاقوں پر توحید اور کلمہ طیبہ (لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ) کا حکم نافذ ہوا۔ خلفاء الراشدین رضی اللہ عنہم کے تیس سالہ دورے میں مجاہدین نے روم اور فارس کی سلطنتوں کو فتح کیا۔ اسلام […]

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہترین اخلاق کی برکت سے قلیل عرصے میں دنیا کے وسیع علاقوں پر توحید اور کلمہ طیبہ (لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ) کا حکم نافذ ہوا۔ خلفاء الراشدین رضی اللہ عنہم کے تیس سالہ دورے میں مجاہدین نے روم اور فارس کی سلطنتوں کو فتح کیا۔ اسلام مشرق میں ہند اور چین، مغرب میں افریقہ کے الجزائر کے حدود تک پہنچا۔ مفتوحہ علاقوں کے باشندوں کیساتھ مجاہدین کی عفوہ، درگزر، نرم مؤقف اور بہترین اخلاق کے نتیجے میں بیشتر افراد اسلام میں داخل ہوئيں اور اپنے ہی مرضی سے اسے قبول کیا۔

مجاہدین کی سربلندی اس میں ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی سے راز و نیاز میں رہے،ان کا ہر حرکت اللہ تعالی کی رضا کے لیے ہو، ہر عمل میں اپنے رب کی رضا کو تلاش کریں، اپنے جان و مال کی قربانی سے اللہ تعالی کی دین کی سربلندی چاہتا ہے، انہیں اللہ عزوجل پر توکل اور اعتماد ہوتا ہے، اسی ذات سے ڈرتا ہے، اللہ تعالی کی اوامر اور نواہی کو مدنظر رکھتا ہے، نصرت اور فتح کی نسبت صرف اللہ تعالی کو کرتا ہے، اللہ تعالی کی عبادت زیادہ کرتا ہے، دعائیں مانگتا ہے اور اپنی تمام حاجتیں اللہ تعالی سے طلب کرتا ہے۔

اپنے شرعی قائد کیساتھ مجاہدین کا محبت امیر کے صدق، امانت اور اطاعت کے اصول پر استوار ہوتا ہے، شریعت کے دائرے میں امیر کا اطاعت کرتا ہے، انہیں سونپ دیے جانے والے امور میں مخلص ہوتا ہے، امیر کے اوامر کا مخالفت نہیں کرتا، امیر کو دھوکہ نہیں دیتا، صاف بات اور سچ ان کے سامنے بیان کرتا ہے۔

ساتھیوں اور عام مسلمانوں کیساتھ مجاہدین کا سلوک نرم، عفوہ، ایثار اور تواضع کے محور میں گردش کرتا ہے۔،{أذلة على المؤمنين} {رحماء بينهم} {ويؤثرون على أنفسهم}  قرانی نصوص ہیں اور مجاہدین کی زرین اخلاق سکھاتا ہے۔تواضع، شفقت اور ایثار کی صفات سے ان کا مدح کرتا ہے۔تکبر، بڑائی اور نازیبا اخلاق مجاہدین کی صفات میں سے نہیں ہیں۔

مجاہدین کی اہم صفات میں سے ایک انصاف ہے۔ مجاہد کو ہر حالت میں عادل ہونا چاہیے، کیونکہ ظلم کا انجام تباہی ہے،ظلم جہاد کے ہیبت اور دبدبے کو ختم کرتا ہے، ظلم مجاہدین کے رعب کو محوہ کرتا ہے۔

کبھی کھبی مخالف جہت جان بوجھ کر ایسا حرکت کرتا ہے، جس سے مجاہدین کے غصے کو بھڑکا دے، تاکہ مجاہدین اسی نوعیت کا ردعمل ظاہر کریں اور دشمن کو خدانخواستہ شریعت کے خلاف ایک سند ہاتھ آجائےاور پھر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کریں ،تاکہ مجاہدین کو بدنام کریں۔

کابل دوہری انتظامیہ کے بعض عہدیداروں نے کئی مرتبہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے خلاف غیر انسانی بیانات دیے ہیں، اپنے  بے لگام درندوں کو مجاہدین کی قتل عام کا حکم دیا ہے، قیدیوں کو مارنے کی احکام صادر کیے ہیں، یہ اس لیے کہ دشمن گھبراہٹ میں مبتلا ہے، حواس باختہ ہوچکا ہے، تو اس طرح مجاہدین کی جذبات کو بھڑکانا چاہتا ہے۔

جس طرح مقدس جہاد کا عظیم مقصد ملک میں استقلال اور مکمل خودمختار فضا میں اسلامی عادلانہ نظام کا قیام ہے،  اسلامی شریعت کا نفاذ اور اسلامی عدالت کو عملی کرنا  مجاہدین اور افغان عوام کا آرزو ہے، تو وہ مجاہد جو اللہ تعالی کی رضا اور مقدس مقصد کے لیے جہاد کررہا ہے، اللہ تعالی کے اس حکم  (اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ) کو کسی صورت میں فراموش نہ کریں۔ وہ اللہ تعالی کے اس حکم کو …( وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُو)..غور سے سنے اور ظالموں کی اعمال کے ردعمل میں صرف عدالت کو عملی کریں اور بس۔ واللہ الموفق