کابل

افغان حکومت کی شرکت کے بغیر دوحہ کانفرنس بے نتیجہ ختم

افغان حکومت کی شرکت کے بغیر دوحہ کانفرنس بے نتیجہ ختم

تحریر: رحمت اللہ فیضان
18 اور 19 فروری 2024 کو اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان پر دو روزہ کانفرنس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوئی۔ اس کانفرنس میں یورپی ممالک، امریکہ، عرب ممالک اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک ایران، پاکستان اور چین کے خصوصی نمائندوں کے علاوہ متعدد ان افغان شخصیات کو بھی مدعو کیا گیا تھا جن کی نہ افغان عوام کے ساتھ کوئی تعلق ہے اور نہ ہی افغان معاشرے میں کوئی جڑیں ہیں، اور نہ ہی وہ افغان حکومت کے با اثر سیاسی مخالفین میں شمار ہوتے ہیں۔ کانفرنس سے قبل اقوام متحدہ نے افغان حکومت کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت دینے کی کوشش کی، امارت اسلامیہ نے بھی کانفرنس کو مسئلہ افغانستان کے متنازعہ نکات پر بات کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھا۔ وہ اس کانفرنس میں افغانستان سے متعلق نتیجہ خیز بات کرنا چاہتے تھے۔ لیکن کانفرنس میں شرکت کو چند شرائط سے مشروط کیا۔ افغان حکومت کی جانب سے پیش کی جانے والی شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ تھی کہ امارت اسلامیہ افغانستان واحد ذمہ دار فریق کے طور پر کانفرنس میں شرکت کرے گی اور یہ کانفرنس افغان وفد اور اقوام متحدہ کے درمیان تمام مسائل پر اعلیٰ سطحی بات چیت کی بنیاد فراہم کرے گا۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری ہمیشہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ بات چیت کو وسعت دینے پر زور دیتی ہے، لیکن انہوں نے ابھی تک بات چیت کی نوعیت کا تعین نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے دوحہ میں امارت اسلامیہ کی شرکت کی جائز اور معقول شرائط کو قبول کیا۔ اقوام متحدہ کے اس رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے قول و عمل میں سچے نہیں ہیں، افغانستان کے ٹھوس زمینی حقائق کو مد نظر رکھے بغیر کانفرنس کے بنیادی ایجنڈے کے خلاف بنیادی مسائل کی بجائے نہایت معمولی اور ہلکے مسائل پر بحث کرکے عالمی ذہنیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ تاکہ وہ افغانستان اور خطے میں مغربی مفادات کو برقرار رکھنے اور ان کے تحفظ کے لیے افغانستان کی موجودہ پرسکون صورت حال کو تشویش ناک متعارف کراکر افغانستان میں ایک نیا کھیل شروع کردیں۔ افغانستان پر مغربی ممالک کی جارحیت نے ثابت کر دیا کہ اقوام متحدہ اور مغرب افغانستان کے پچھلے دو عشروں کے انسانی المیے اور بحران کے اصل کھلاڑی ہیں۔ اس بحران کے سبب بننے والی قوتیں افغانستان کے مسائل کا حل کس طرح اور کیوں کر پیش کرسکیں گی؟
دوحہ کانفرنس سے قبل تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ اگر افغان حکومت کے نمائندے اس کانفرنس میں شریک نہ ہوئے تو یہ کانفرنس اپنی اہمیت کھو دے گی اور اگر افغان حکومت نے غیر مشروط طور پر شرکت تو اس سے بھی افغان حکومت کے سیاسی موقف کو نقصان پہنچے گا۔
دوحہ کانفرنس کا ایک اہم مقصد فریدون سینیور اولو کی تجاویز پر بحث بھی تھا۔ دو روزہ بحث و مشاورت کے بعد یہ کانفرنس اس طور پر اختتام پذیر ہوئی کہ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی کے تقرر کے معاملے پر بحث بے نتیجہ ختم ہوئی۔ اس معاملے پر شرکا کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔ امارت اسلامیہ کی کانفرنس میں عدم شرکت کو اقوام متحدہ نے اپنے گال پر تھپڑ سمجھا اور بجا طور پر سمجھا ہے۔ امارت اسلامیہ نے اپنی سیاسی بصیرت سے دوحہ کانفرنس میں عدم شرکت سے ثابت کردیا کہ افغانستان کا موجودہ نظام ماضی کی طرح کسی دوسری قوت کے زیر اثر نہیں ہے۔ افغان حکومت نے ڈھائی سال کی مدت میں یہ ثابت کر دیا کہ افغانستان اب گزشتہ 20 سالوں کے ناکام تجربات دہرانے کے لیے بہ طور گراونڈ استعمال نہیں ہوگا۔ امارت اسلامیہ نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ اپنی سیاسی پوزیشن پر پہلے کی طرح مضبوط کھڑی ہے۔ نہ اسے خریدی جاسکتی ہے اور نہ دبائی جاسکتی ہے۔