کابل

اَحیائے اسلام براستہ منہجِ نبوت ﷺ

اَحیائے اسلام براستہ منہجِ نبوت ﷺ

 

محمد افغان

مسلم معاشروں میں اَحیائے اسلام کے لیے منہجِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر موجود سلسلوں نے عوام کو جس قدر روحانی، مالی اور معاشی نقصان پہنچا دیا ہے، اس کا ذکر و داستان ہی الگ کتاب کا تقاضا کرتا ہے۔ البتہ اِس نظام نے مسلم معاشرے کے اہلِ فہم طبقے کو سب سے افسوس ناک طریقے سے زَک پہنچائی ہے۔ اہلِ فہم حلقے کی طرف سے غیرنبوی راہوں کے لیے جس احتیاط کی توقع تھی، یہ معاملہ متوقع احتیاط کی حد سے نکل کر جس انتہا تک پہنچ گیا ہے، وہ اِنتہا دِل و روح اور ایمان و ایقان کو دہلا دینے والی ہے۔
چوں کہ یہ راستہ مسلمانوں کے ظہور و عُروج کی طرف جاتا ہی نہیں ہے تو اِس پر ہونے والی تمام تَر محنت کا بالفرض کوئی ثمر و اجر حاصل بھی ہو جائے، تب بھی وہ وقتی ہی رہے گا۔ اس راستے کا عروج کے حصول و استحکام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اِس دعوے کے معروضی شواہد اور اِس اجمال کی حقیقی تفصیل جاننے کے لیے انگریزوں کے نوآبادیاتی نظام کا شکار ہونے والے مسلم ممالک میں سرگرم اَحیائی تحریکوں کا تاریخی مطالعہ مفید رہے گا۔ فی الوقت اِس حوالے سے ترکی کو دیکھتے ہیں:
سقوطِ خلافتِ عثمانیہ کے بعد ترکی کو سیکولر ریاست قرار دے کر مذہبی تعلیم ممنوع کر دی گئی۔ صوفیائے کرام کی خانقاہوں کو تالے لگا دیے گئے۔ سرکاری حکم کے ذریعے عربی رسم الخط قابلِ مواخذہ جرم بنا دیا گیا۔ اذان اور نماز وغیرہ جیسی عبادات کی اَدائی کے لیے عربی زبان پر پابندی عائد کر دی گئی۔ الغرض! مصطفیٰ کمال نے یہود و نصاری کی خواہشات کی تکمیل کے لیے ترکی کی ہر اُس علامت کو ختم کر دیا، جو اسلامی تہذیب و تمدن کی نمائندگی کرتی ہو۔ البتہ! اس سب کے دوران ترک مسلمانوں کے دِلوں میں موجود روحِ ایمان کو فنا نہیں کیا جا سکا تھا۔ تُرک خاکستر میں پوشیدہ اِسی چنگاری نے کفریہ نظریات کی جمائی گئی برف کو پگھلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اہلِ حق علمائے کرام نے ہمیشہ کی طرح وہاں بھی مسلمانوں کے ایمان و عقیدے اور اسلامی تعلیمات و احکامات کی بقا کے لیے خوب جدوجہد کی۔ اُنہوں نے پوشیدہ طور پر قرآن کی تفہیم اور اصلاح و تزکیے کے حلقے قائم کیے، جن کے ذریعے مسلمانوں میں بچے کھچے ایمان کی آب یاری کر کے اُسے تناوَر درخت بنانے کی کوشش کی جانے لگی۔
اُنہی علمائے کرام میں ایک شیخ بدیع الزمان سعیدنورسی رحمہ اللہ ہیں، جنہوں نے ترک مسلمانوں میں اصلاحی اور دعوتی تحریک قائم کر کے اُن کے عقیدے و ایمان اور عمل و اسلام کی حفاظت کی کوشش کی تھی۔ دوسری طرف مصطفی کمال نے ترک فوج کو ترکی کے سیکولر نظریات کا محافظ قرار دے دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ترک فوج نے اپنی عسکری طاقت کو اسلامی شعائر کی بیخ کنی میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔ چناں چہ جہاں بھی اسلامی افکار و اعمال کی ترویج کی کوئی بھی کوشش سامنے آتی، ترک فوج مکمل سختی کے ساتھ اُس کوشش کو ختم کر کے ہی چین لیتی۔ لہذا کسی بھی سیاسی جماعت کی طرف سے ترکی میں اَحیائے اسلام کی کسی بھی کوشش کی بنیاد پر فوج اُس جماعت کو آئین کی غدار قرار دے کر اُس پر پابندی لگا دیتی۔ طُرفہ تماشا یہ کہ وہ اپنے پنجے اقتدار پر بھی گاڑ لیتی۔ چناں چہ اہلِ فہم اسلام پسندوں کی جانب سے باربار کی کوششوں اور قربانیوں کے بعد فوج کی جانب سے 1941ء میں چند ایسی ترمیم شدہ اسلامی سرگرمیوں کی اجازت دے دی گئی، جن کی عملی صورت سے ترکی کے سیکولر تشخص پر کوئی زَد نہ پڑتی ہو۔
پارلیمنٹ کے اسٹیج پر اَحیائے اسلام کے لیے دھیرے دھیرے ہونے والی جدوجہد میں کچھ پیش رفت تب ہوئی، جب اسلامی نظر و فکر کے حامل پروفیسر نجم الدین اربکان نے 1969ء کے عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے تاریخی کامیابی حاصل کی۔ اُنہوں نے پارلیمنٹ میں ہم خیال سیاست دانوں کا ایک بلاک قائم کر کے 26 جنوری 1970 کو “ملی نظام پارٹی” کے نام سے ایک جماعت تشکیل دی، جس کے منشور کا بنیادی نعرہ “اسلامی فکر و نظریات کی بالادستی” تھا۔ جب کہ یہ صورتِ حال سیکولر ترکی کے مقتدر حلقوں کے لیے ہرگز قابلِ برداشت نہیں تھی۔ نتیجۃً مئی 1971ء میں “ملی نظام پارٹی” کو آئین مخالف قرار دے کر اُس پر بھی پابندی لگا دی گئی۔
چناں چہ مخلص رہنماؤں نے اپنی کوشش جاری رکھتے ہوئے 11 اکتوبر 1972ء کو “ملی سلامت پارٹی” نام سے نئی جماعت قائم کی، جس نے 1973ء کے انتخابات میں حصہ لیا اور 11 فیصد ووٹ لیے، جب کہ اس پارٹی میں سے کُل 74 نمائندے منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ لہذا “ملی سلامت پارٹی” نے “پیپلز ری پبلکن پارٹی” کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت میں شرکت کی، جس کے ڈپٹی وزیراعظم پروفیسر نجم الدین اربکان کو بنایا گیا۔ چناں چہ پروفیسر نجم الدین اربکان نے اپنی سیاسی حیثیت بہ رُوئے کار لاتے ہوئے تُرک معاشرے میں اسلامی تہذیب و فکر اور شعائر و جہاد کو نمایاں کرنے کی خوب جدوجہد کی۔ بالآخر سیکولر نظریات کی حامل تُرک فوج نے احیائے اسلام کی اس کوشش کو اپنے مفادات کی کھلی مخالفت سمجھتے ہوئے 14 ستمبر 1980ء کو پارلیمنٹ ہی تحلیل کر دی، جب کہ “ملّی سلامت پارٹی” سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو ‘خلافِ قانون’ قرار دے دیا۔
احیائے اسلام کی اس جدوجہد کی ناکامی کے بعد تُرک اسلام پسندوں نے “ملی رفاہ پارٹی” تشکیل دی، جس کے منشور کی سب سے واضح شق ‘اسلامی نظریۂ حکومت کا قیام’ تھی۔ملی رفاہ پارٹی نے 1987ء، 1991ء اور 1994ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا۔ جب کہ 1996ء کے عام انتخابات میں 21 فیصد حمایت حاصل کر کے اِس پوزیشن میں پہنچی کہ وہ قومی اسمبلی کی 153 نشستوں کی بنیاد پر اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو سکی۔اس کے وزیرِاعظم اسلام پسند پروفیسر نجم الدین اربکان قرار پائے۔ یہاں بھی تُرک فوج کا روایتی سیکولرازم آڑے آیا اور 11 ماہ بعد یہ حکومت بھی ختم کر دی گئی۔ جب کہ دسمبر 1997ء میں “ملی رفاہ پارٹی” کو بھی خلافِ قانون قرار دے کر سیاست میں دخل سے روک دیا گیا۔ بعدازاں اِنہی اسلام پسندوں نے “جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ” نام سے نومبر 2002ء کے عام انتخابات جیت لیے، جب کہ مصطفی کمال کی وفادار فوج نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے مذہبی اور احیائی نظریات کی وجہ سے طیب اردگان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بہرحال سیاست دانوں اور فوج کے درمیان ملکی سالمیت اور ترقی و استحکام کے مشترکہ تناظر میں مفاہمت ہو جانے کی وجہ سے طیب اردگان نئے وزیرِاعظم منتخب ہو گئے۔
بالآخر اسلام پسندوں کی سال ہا سال کی قربانیوں کا بہترین فائدہ تب ظاہر ہوا، جب امریکا نے افغانستان کی طرح مارچ 2003ء میں عراق پر بھی حملے کی خاطر ترکی کے ہوئی اڈے استعمال کرنے کی بات کہی، مگر ترک اسلام پسندوں نے مکمل شدّ و مد سے امریکی مطالبے کا بِل مسترد کر دیا، جس پر وقتی طور پر امریکا اور ترکی کے تعلقات خاصے کشیدہ ہو گئے تھے۔ البتہ اس سب کے باوجود امریکا کو ترکی کو تباہ کر دینے کی دھمکیوں اور حملے کی جرات نہیں ہو سکی۔ بعدازاں ہوائی اڈوں کے مطالبے کے حوالے سے ایک سروے سے بھی یہ واضح ہو گیا کہ 90 فیصد تُرک عوام امریکا کو اڈے دینے کے خلاف تھے۔بلاشبہ ترک حکومت اور عوام کی اکثریت کی طرف سے امریکی مطالبے کا انکار کر کے ڈٹ جانے کے پسِ پردہ علمائے حق کی بیش بہا قربانیوں کی ایک طویل تاریخ تھی۔ چناں چہ اہلِ فہم حلقوں کی طرف سے عوام کی اسلامی تربیت ہی تھی کہ 2007ء کے انتخابات میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کو کامیابی حاصل ہونے پر پارٹی کے رُکن عبداللہ گُل سیکولر حلقوں کی شدید مخالفت کے باوجود 90 فیصد اسلام پسند عوام کی حمایت کے ساتھ صدر منتخب ہو گئے۔
یہ تُرکی میں اسلام پسندوں کی پون صدی سے زائد عرصے کی قربانیاں ہیں، وہ جس میں اُٹھتے گِرتے یہاں تک پہنچے ہیں۔ البتہ عالمِ اسلام کو ترکی کی طرف سے خلافتِ عثمانیہ کی نیابت کے تناظر میں اسلامی نظام کے اَحیاء اور قیام و استحکام کی خاطر جیسے مظاہرے کا انتظار اور اُمید تھی، اُس حوالے سے آج بھی عالمِ اسلام کی آنکھیں تُرکی کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ خصوصاً تُرکی کی طرف سے اسلامی اخوت و دینی حمیت کے مظاہرے کی ضرورت اِس لیے بھی زیادہ ہے کہ اِس وقت تُرکی جس عالمی سیاسی پوزیشن پر موجود ہے، وہ قابلِ تعریف ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ اُسی ترکی کے پڑوس میں عالمِ اسلام کا دِل غزہ یہود کی جلائی ہوئی آگ میں جل رہا ہے۔ جب کہ خلافتِ عثمانیہ کے مرکز اِسی ترکی کے سلطان عبدالحمید مرحوم نے یہودیوں کو بیت المقدس کی مٹی کا ایک ذرّہ تک دینے سے انکار کر دیا تھا۔
اِس میں شک نہیں کہ انگریزوں کے نوآبادیاتی دور میں مسلم ممالک کے درمیان قائم کی گئی سرحدوں نے بہت سے صاحبِ کردار مسلم رہنماؤں کے ہاتھ پاؤں باندھ رکھے ہیں۔ جب کہ یہود کو جیسا سبق سکھانے کی ضرورت ہے، وہ خالص اسلامی، جہادی اور نبوی منہج کی فطری جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لارَیب کہ قربانیاں جہادی منہج کا لازمی حصہ ہیں۔ البتہ مصنوعی امن کی خاطر اگر مگر کر کے جہادی راستہ اس لیے اختیار نہ کیا جائے کہ وہ تیر و تلوار اور توپ و تفنگ کا راستہ ہے تو کفار تب بھی ہم سے راضی نہیں ہوں گے؟ وہ غزہ پر بمباری بند نہیں کریں گے۔ وہ افغانستان کو پُرامن طریقے سے اپنا اسلامی نظام چلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
اسی لیے امارت اسلامیہ نے قرآن میں بیان کردہ کفار کی اِس ذہنیت کو اچھی طرح سمجھ کر امریکا کو سبق سکھانے کے لیے وہی راستہ اختیار کیا تھا، جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرما گئے تھے۔ اُسی نبوی منہج کی برکت تھی کہ طالبان نے 20 سے 25 سال کے عرصے میں ہی افغانستان کو مثالی اسلامی رفاہی ریاست بنا کر ثابت کر دیا ہے کہ منہجِ نبوت ﷺ کے راستے سے ہی اَحیائے اسلام کی محنت کا ثمر حاصل ہو سکتا ہے۔
امارت اسلامیہ کو جہادی جدوجہد کے نتیجے میں ملنے والی سیاسی کامیابی کا یہ 20 سے 25 سالہ دورانیہ لگ بھگ وہی عرصہ ہے، جس میں حضرت نبیِ کریم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو دنیا پر غالب کر دیا تھا۔ اَحیائی تحریکوں سے وابستہ دوستوں کے لیے نبوی منہج اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت کے 23 سالہ عرصے میں نصیحت و عبرت کے بے شمار اسباق پوشیدہ ہیں۔