کابل

بیرونی قوتوں کی بے وفائی اور مقام عبرت

بیرونی قوتوں کی بے وفائی اور مقام عبرت

 

کابل: رپورٹ سیف العادل احرار
افغانستان میں بیس برس کے دوران امریکی اور نیٹو افواج نے امارت اسلامیہ کی قیادت میں افغان عوام کی مزاحمت کو کچلنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تین لاکھ سے زائد اجرتی افغان نوجوانوں کو اپنا ہمنوا بنایا، انہیں فوجی تربیت دی اور جدید ہتھیاروں سے لیس کرکے افغان عوام سے لڑایا لیکن ان تمام حربوں کے باوجود جب امریکہ اور نیٹو فورسز کو افغانستان میں شکست ہوئی تو انہوں نے دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان سے باعزت واپسی کا راستہ اختیار کیا۔

ان کے انخلاء کے بعد امیرالمومنین حفظہ اللہ نے سابقہ انتظامیہ میں کام کرنے والے تمام مجرموں کو عام معافی کا اعلان کیا جس پر سابقہ فورسز کے اہل کار منشتر ہوگئے جن کی اکثریت اپنے ملک میں پرامن زندگی گزار رہی ہے تاہم ہزاروں کی تعداد میں امریکہ اور دیگر یورپی ممالک چلے گئے اور چند ہزار پڑوسی ملک پاکستان میں امریکہ اور برطانیہ جانے کے لئے انتظار کررہے ہیں، ان میں دو سو اسپیشل فورسز کے نوجوان بھی شامل ہیں جو دو سال سے اسلام آباد میں مایوس پڑے ہیں جن کے بارے میں گزشتہ روز ایک عالمی نشریاتی ادارے نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں 444 کے نام سے اسپیشل فورسز کے سابقہ اہل کاروں نے امریکہ اور برطانیہ پر بے وفائی کا الزام لگایا ہے اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

علی کے نام سے سابقہ ایک اہل کار نے کہا کہ ہم نے ہلمند میں برطانوی فورسز کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف شانہ بشانہ جنگ لڑی، ہم نے ابتدائی ادوار میں منشیات کے خلاف کام کیا لیکن جب 2007 میں طالبان کی کارروائیوں میں شدت آئی تو ہم نے ہلمند میں برطانوی فورسز کے ساتھ مل کر طالبان کی مزاحمت کے خلاف گمھسان جنگیں لڑیں۔ لیکن برطانیہ نے فوجی انخلا کے بعد ہمیں تنہا چھوڑ دیا، اب ہم دو سال سے اسلام آباد میں برطانیہ جانے کے لئے منت سماجت کررہے ہیں لیکن کہیں پر بھی ہماری شنوائی نہیں ہورہی، اب ہم سب مایوس ہوگئے ہیں اور ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ ہمیں تنہا چھوڑیں گے۔

عادل کے نام سے ہلمند میں ایک سابق ضلعی گورنر نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ہم نے ہلمند میں طالبان کی کمر توڑنے کے لئے نہایت خطرناک جنگوں میں شرکت کی اور برطانوی فورسز کے شانہ بشانہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، اس جنگ میں میرا ایک بھائی اور دو کزن مارے گئے، میں خود 2018 میں شدید زخمی ہوا اور ایک ماہ ہسپتال میں زیرعلاج رہا۔ ہم نے بہت قربانیاں دیں لیکن برطانیہ نے ہمیں استعمال کرکے تنہا چھوڑ دیا۔

عادل نے کہا کہ جب طالبان نے کابل پر کنٹرول حاصل کیا تو ہم نے افغانستان سے برطانیہ جانے کے لئے بگرام ہوائی اڈے کا رخ اختیار کیا، وہ ہماری زندگی کے بھیانک دن تھے، ہم خوفزدہ تھے کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے، میرا بھائی مارا گیا اس پر میں اتنا اداس نہیں ہوا جتنا بگرام ہوائی اڈے میں انتظار کے وقت پریشان تھا اور رو رہا تھا۔ وہ ہماری زندگی کا سب سے خطرناک وقت تھا۔ ہم نے برطانیہ جانے کے لئے بہت کوشش کی لیکن ہمیں کامیابی نہیں ملی اور مجبورا ہم نے اسلام آباد کا رخ کیا اور سوچا کہ برطانیہ وہاں سے ہمیں نکالیں گے لیکن ہمارا اندازہ غلط ثابت ہوا۔

علی نے بتایا کہ ہم دو سال سے مایوس کن حالت میں ہیں، ہم نے مختلف ذرائع سے برطانوی حکام کے ساتھ رابطے کئے ہیں لیکن انہوں نے ہمیں قبول کرنے سے انکار کیا اور جواب دیا کہ آپ نے ہمارے ساتھ کام نہیں کیا ہے، اس پر ہم نہایت دلبرداشتہ اور مایوس ہیں، ہمیں برطانوی فورسز نے عسکری تربیت دی بلکہ ہماری تنخواہیں بھی ان کی جانب سے دی جاتی تھیں۔

ان کے مطابق ہم پڑوسی ملک میں چھپ کر رہتے ہیں، ہمارے ویزے ایکسپائر ہوگئے ہیں اور ہمارے ساتھ کوئی تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک نے ہمارے ساتھ بہت وعدے کئے تھے، ہم سادہ لوح لوگوں نے ان پر آندھا اعتماد کیا، لیکن انہوں نے ہمارے ساتھ بڑی بے وفائی کی، ان پر اعتماد کرنا ہماری سب سے بڑی غلطی تھی۔
کابل میں برطانوی فورسز کے سابق کمانڈر جنرل ریچارڈ بارنس نے کہا کہ افغان اسپیشل فورسز کے اہل کاروں نے نہایت خطرناک جنگوں میں برطانوی فورسز کے شانہ بشانہ کام کیا، انہوں نے ہم سے زیادہ قربانیاں دیں، ہم نے اپنے افغان ہمنوا اہل کاروں کے ساتھ بے وفائی کی، آئندہ ہم پر کون اعتماد کا اظہار کریں گے۔
ان تمام تر صورتحال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہود و نصاری کبھی مسلمان کے دوست نہیں بن سکتے، تاریخ میں جب بھی کسی نے اپنے ملک کے ساتھ خیانت کی ہے وہ شرمندہ ہوگئے ہیں، ملک کے ساتھ غداری کرنے والوں کی ایک لمبی تاریخ ہمارے سامنے ہے، ایسے لوگوں کے نام تاریخ میں غدار اور خائن کے ساتھ پکارے جاتے ہیں، دشمن نے بھی ہر دور میں ایسے خائنوں اور غداروں کو استعمال کرکے پھینک دیا ہے، ایسی صورتحال سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور دھرتی ماں کے ساتھ غداری اور خیانت کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

چند سال قبل صوبہ بلخ کے گورنر عطا محمد نور نے بھی کہا تھا کہ امریکہ نے ہمیں ٹیشو کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا، جنرل دوستم نے بھی اس طرح شکوہ کیا تھا، افغانستان پر ایک صدی میں تین بیرونی قوتوں نے جارحیت کا ارتکاب کیا تھا جنہیں کچھ افغان غداروں نے ساتھ دیا تھا تاہم ان سب کے حالات ہمارے سامنے ہیں اور قابض قوتوں نے ان کے ساتھ بڑی بے وفائی کی اور افغانستان سے انخلا کے بعد انہیں تنہا چھوڑ دیا جس سے عبرت حاصل کرنا اور سبق سیکھنا لازمی ہے۔ یہ تو دنیا میں ان کی ذلالت ہے، آخروی زندگی میں ان کا حشر کیا ہوگا، یہ تو اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ایسی شرمندگی اور ذلالت سے محفوظ رکھے۔