کابل

جزوی حمایت روحِ اسلام کے منافی ہے

جزوی حمایت روحِ اسلام کے منافی ہے

 

خزیمہ یاسین

علامہ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “جمع الجوامع المعروف ‘الجامع الکبیر’ کی جلد 17 کے صفحہ 668” پر ابتدائے اسلام کے زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی و تبلیغی دَوروں کے حوالے سے ایک نہایت نکتہ آفریں واقعہ درج کیا ہے۔ علامہ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
مکہ مکرمہ کی زندگی میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت میں یہ سلسلہ بھی رہا ہے کہ آپ علیہ السلام عوام کے بڑے مجمعوں میں تشریف لے جاتے اور اُنہیں توحید و رسالت کا پیغام پہنچاتے۔ اُنہی بڑے مجمعوں میں ‘بازارِ عکاظ’ اور ‘حج’ بھی تھے، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ دین کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے۔حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ایسے ہی ایک دعوتی دَورے کا حال بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں:
نبوت کے دسویں سال حج کے دنوں میں مختلف اَطراف سے آئے ہوئے قبائل اور لوگوں کو دعوت دینے کی خاطر مَیں بھی نبیِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ہم حاجیوں کے ایک مجمعے کے پاس گئے، جس کے لوگ باقیوں کی نسبت زیادہ سکون اور وقار کی حالت میں تھے۔ اس مجمعے کے بڑے لوگوں میں مفروق بن عَمرو، ہانی بن قبیصہ، مثنّٰی بن حارثہ اور نعمان بن شریک تھے۔حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور مجمعے کو سلام کر کے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ہم “شیبان بن ثعلبہ” سے ہیں۔ چوں کہ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو قبائل کے حسب و نسب سے خوب واقفیت تھی، اس لیے حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ پیغمبرِ محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف متوجہ ہوئے اور مفروق بن عَمرو، ہانی بن قبیصہ، مثنّٰی بن حارثہ اور نعمان بن شریک کی طرف اشارہ کر کے عرض کیا کہ ‘یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! یہ اپنے قبیلے کے سب سے معزز لوگ ہیں۔’ جب کہ مفروق بن عَمرو اپنے حُسن و زبان دانی کے اعتبار سے اُن باقیوں میں سب زیادہ بہترین تھے۔ اُن کی گھنی اور طویل زُلفیں سینے پر لہرا رہی تھیں۔
حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے ظاہری احوال معلوم کرنے کی خاطر پوچھا: آپ لوگوں کی تعداد کتنی ہے؟
جب کہ مفروق بھی جواب دینے کےلیے تیار ہوگئے اور بتانے لگے: ہم ایک ہزار سے زیادہ ہی ہیں۔ ظاہر ہے ہزار آدمیوں کی جماعت کو کم تعداد کے لوگ تو مغلوب نہیں کر سکتے۔
حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نےپوچھا: آپ دشمن سے اپنا دفاع اور بچاؤ کیسے کرتے ہیں؟
مفروق نےبتایا کہ:ہم ہمیشہ کوشش اور جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ جب کہ ہر قوم کا اپنا مقدر اور نصیب ہوتا ہے، جو اُسے مل کر رہتا ہے۔
حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نےپوچھا: آپ کی اپنے دشمن سے جنگ کیسی رہتی ہے؟
مفروق نےبتایا: جب ہم جنگ کے لیے کمر باندھ لیتے ہیں، تب ہمارے تیور اور غیظ و غضب کی کچھ الگ ہی شان ہوتی ہے۔ ہم تو وہ لوگ ہیں، جو اپنی اولاد سے زیادہ اپنے گھوڑں سے محبت کرتے اور ہتھیاروں کو دودھ دینے والی اونٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہاں، البتہ جنگ میں فتح تو اللہ کی طرف سے ہوتی ہے۔ کبھی ہم فتح یاب ہو جاتے ہیں اور کبھی ہمارا دشمن جیت جاتا ہے۔
مفروق نے اپنی بات مکمل کر کے حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ سے کہا:
شاید مَیں ٹھیک سمجھ رہا ہوں کہ آپ قبیلۂ قریش سے ہیں؟!
حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نےبتایا: آپ ٹھیک سمجھے ہو۔ اور یقیناً آپ کو خبر پہنچی ہوگی، ہمارے ہاں اللہ کے رسول ‘محمد’ مبعوث ہوئے ہیں۔ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ کے وہ نبی یہ ہیں۔
مفروق نے کہا: بالکل! ہمیں یہ خبر مل چکی ہے۔
چناں چہ مفروق نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہا: اے قریشی بھائی! آپ ہمیں کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟
نبیِ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر بیٹھ گئے، جب کہ حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کرنے کی غرض سے کپڑا تان کر کھڑے ہوگئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں دعوت شروع فرمائی: “مَیں تمہیں اس بات کی تلقین کرتا ہوں کہ تم گواہی دو، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور کوئی بھی اُس کا شریک نہیں ہے۔ اور محمد اُسی اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اور یہ کہ تم میری حمایت اور مدد کرو۔ جب کہ قریش نے خدا کے حکم سے سرکشی کی اور اس کے رسول کا انکار کیا ہے۔ اُس نے حق کے بجائے باطل کو ترجیح دی ہے۔ جب کہ اللہ تعالی بے نیاز اور قابل تعریف ہے۔”
مفروق نے کہا: “اے قریشی بھائی! بخدا! مَیں نے کبھی اس سے بہتر بات نہیں سُنی۔ مجھے بتائیں، آپ اَور کس بات کی طرف بُلاتے ہیں؟ ”
چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَیْكُمْ اَلَّا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ط وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ ط نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُم ج وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ مَا بَطَنَ ج وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ط ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ (سورۃ الانعام: 151)
(ان سے) کہو کہ : آؤ، مَیں تمہیں پڑھ کر سناؤں کہ تمہارے پروردگار نے (درحقیقت) تم پر کون سی باتیں حرام کی ہیں۔ وہ یہ ہیں کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو قتل نہ کرو۔ ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اور (تمہارے) اُن (بچوں) کو بھی۔ اور بےحیائی کے کاموں کے پاس بھی نہ پھٹکو، چاہے وہ بےحیائی کھلی ہوئی ہو یا چھپی ہوئی۔ اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے، اسے کسی برحق وجہ کے بغیر قتل نہ کرو۔ لوگو ! یہ ہیں وہ باتیں، جن کی اللہ نے تاکید کی ہے، تاکہ تمہیں کچھ سمجھ آئے۔
مفروق نے کہا: “اے قریشی بھائی! خدا کی قسم! یہ زمین والوں کی باتیں نہیں ہیں۔ آپ ہمیں مزید کس بات کی دعوت دینے والے ہیں؟
چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ ج یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(سورۃ النحل: 90)
بے شک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بےحیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
مفروق نے کہا: “اے قریشی بھائی، خدا کی قسم! آپ نے اچھے اخلاق اور عمدہ اعمال کی دعوت دی ہے۔ وہ کیسے جھوٹے لوگ ہیں، جنہوں نے آپ کی بات سے انکار کیا اور آپ کی مخالفت کی ہے۔”
چناں چہ مفروق کے دیگر ساتھی ہانی بن قبیصہ، مثنی بن حارثہ اور نعمان بن شریک بھی گفتگو میں شامل ہو گئے۔ ہانی بن قبیصہ کہنے لگے:
اے قریشی بھائی! مَیں نے آپ کی باتیں سنی ہیں۔ مَیں سوچتا ہوں اگر ہم اسی مجلس میں اپنا دین چھوڑ کر آپ کے دین کا کلمہ پڑھ لیں تو میرے خیال سے ہمیں اس بارے مزید سوچنا ہوگا۔ مَیں سمجھتا ہوں یہ جلدبازی اور انجام کار سے ناواقفیت کی وجہ سے بڑی لغزش ہوگی۔ جب کہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں کِسریٰ موجود ہے، جس کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے۔
چناں چہ مثنّٰی بن حارثہ نے بھی بات چیت میں حصہ لیتے ہوئے کہا:
بہتر جواب تو ہانی بن قبیصہ نے دے دیا ہے۔ (مثنّٰی بن حارثہ نے بات گول مول کرتے ہوئے کہا کہ) البتہ مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے اور کسریٰ کے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ ہم اُس کے خلاف کسی سے کوئی نیا معاہدہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی کی حمایت کر سکتے ہیں۔ چوں کہ آپ جس چیز کی دعوت دے رہے ہیں، فی نفسہٖ بہترین پیغام ہے، البتہ بادشاہ لوگ ایسی دعوت پسند نہیں کرتے ہیں۔ جب کہ ہم کسری کے ساتھ معاہدے کی وجہ سے مجبور ہیں۔ البتہ اگر آپ کو عرب قبائل کے خلاف ہمارے تعاون و نصرت کی ضرورت ہے تو ہم آپ کی حمایت کے لے حاضر ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواباً فرمایا:
اگر تم سچائی کے ساتھ مخلص ہو تو تمہارا جواب بُرا نہیں ہے۔ البتہ معاملہ یہ ہے کہ اسلام کا مزاج ایسا ہے کہ یہ مکمل اطاعت پسند کرتا ہے۔ نامکمل اطاعت اور جزوی حمایت دین کے تقاضوں، اس کی دعوت و نصرت اور اس کی نشرواشاعت کی روح کے خلاف ہے۔ اسلام ایسی دو طرفہ حمایت قبول نہیں کرتا۔ یہ ہر لحاظ سے مکمل سپردگی اور بے لاگ حمایت چاہتا ہے۔ جب کہ اسلام تو وہ عمدہ دین ہے، اگر تم لوگ اِس دین کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ تو اللہ تعالی کچھ ہی مدت میں آپ لوگوں کو اُس کسریٰ کی حکومت اور مال و دولت کا بھی مالک بنا دے گا، جس کے ڈر سے تم میری جزوی حمایت کی حامی بھر رہے ہو۔ کیا تم اب بھی اُس رب کی حمد و تسبیح اور تقدیس و توصیف کے لیے تیار نہیں ہو؟!
اِس پر نعمان بن شریک نے کہا: اللہ آپ کو یہ چیزیں نصیب کرے۔
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور یہ آیت تلاوت فرماتے ہوئے وہاں سے تشریف لے گئے:
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا۔ وَ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ (سورۃ الاحزاب: 46،45)
اے نبی ! بے شک ہم نے تمہیں ایسا بنا کر بھیجا ہے کہ تم گواہی دینے والے، خوش خبری سنانے والے اور خبردار کرنے والے ہو ۔ اور اللہ کے حکم سے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والے اور روشنی پھیلانے والے چراغ ہو۔
نبیِ مکرّم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ واقعے اور فرمان سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ اگر کوئی فردِ واحد شخص یا حکومتِ وقت حقیقی معیارِ زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں اسلام کی مکمل اطاعت کرنا ہوگی۔ اسلام کی نامکمل اطاعت ہرگز اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ایسے ہی اگر کوئی اپنے مفاد کی خاطر اسلام کے کچھ حصوں پر عمل کرے اور کچھ حصوں پر عمل نہ کرے تو یہ وہ طریقہ ہے، جسے خوش خبری سنانے والے اور خبردار کرنے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا تھا۔ بلاشبہ مفادات کے اس کھیل میں ہمیشہ نقصان اُسی کا ہوا ہے، جس نے اسلام کی مکمل اطاعت و حمایت سے انکار کیا ہے۔ بے عملی اور نامکمل حمایت اسلام کے مزاج سے موافقت نہیں رکھتے۔ اسلام ایسی دورنگی برداشت نہیں کرتا۔ نتیجۃً ایسے دورنگی لوگ ہمیشہ ناکام و نامراد رہتے ہیں۔مسلمانوں کے موجودہ حالات اس نامرادی کی صاف مثال ہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنا تن من دھن مکمل طور پر اسلام کے لیے وقف کر دیا تھا۔ انہوں نے ہر لحاظ سے اسلام کی حمایت کی اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کے حوالے سے سُستی نہیں دکھائی۔ وہ ہمیشہ چَوکس رہے اور ہر آن اسلام کی شان و شوکت کے لیے حاضرباش رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام نے بدلے میں اُنہیں ایسی عزت و شوکت عطا کی کہ وہ معیاری زندگی کے لیے مثال بن گئے۔ درج بالا واقعے میں جس مفروق اور اُس کے ساتھ جس کسری سے ڈر رہے تھے، اللہ نے وہی کسری اسلام کی مکمل حمایت کرنے والے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قدموں میں ڈال دیا۔ یہ حقیقت دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور یہ حقیقت آج بھی مسلمانوں کو دعوتِ عمل دینے کے لیے کتبِ حدیث کے اوراق میں موجود ہے۔
بلند معیارِ زندگی اپنانے کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی و تقلید کی جائے تو نتیجے میں ملنے والی راحتیں اور ترقیاں دائمی ہوں گی۔ دنیا بھی آسان اور آخرت بھی آسان!