کابل

جہادِ غزہ، معرکۂِ ایمان و کفر

جہادِ غزہ، معرکۂِ ایمان و کفر

محمد افغان
شیخ احمد یاسین شہید رحمہ اللہ نے حماس (حرکۃ المقاومۃ الاسلامی) کی بنیاد 1987 عیسوی میں رکھی تھی۔ حماس بنیادی طور پر دو مرکزی شعبوں میں کام کر رہی ہے۔ حماس کا پہلا شعبۂِ کار معاشرتی اُمور سے متعلق ہے۔ جس میں ادارہ جاتی نظام کا قیام اور اُس کی روانی ہے۔ جیسے مذہبی ادارے، ہسپتال اور تعلیمی مراکز وغیرہ قائم کرنا۔ جب کہ دوسرا شعبۂ کار “القسّام بریگیڈ” کے نام سے ناجائز اسرائیل کے خلاف جہاد اور اس سے متعلق معاملات ہیں۔
حماس نے دہشت گرد اسرائیل کے مظالم کے دفاع میں فلسطین کے وجود و استحکام کے لیے خصوصاً 7 اکتوبر کی موجودہ جنگ کے تناظر میں جو طریقۂ کار اختیار کیا ہے، یہ حق کا وہ راستہ ہے، جس میں تمام اُمت کی بقا کا راز مضمر ہے۔ یہی وہ طریقِ نبوی (علی صاحبہا الصلوۃ و السلام) ہے، جو اسلامی نظام کے قیام کا صرف مختصر نہیں، مزید یہ کہ سوفیصد یقینی راستہ ہے۔ بنیادی طور پر حماس اِس طریقۂ نفاذ کی دہائیوں سے دُہائی دیتی آ رہی ہے۔ البتہ فی زماننا امریکا و اسرائیل کے ناقابلِ برداشت مظالم کے حوالے سے حماس اور دیگر مسلم دنیا کے جنگی موازنے کے ساتھ اسرائیل اور امریکا کو لگام دینے کی جو ذمہ داری بظاہر طاقت وَر مسلم دنیا پر فرض ہے، وہ فرض اُسی کو ادا کرنا چاہیے۔ جب کہ دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ فرض کون ادا کر رہا ہے؟! جو قوم اپنے مقدسات کی حفاظت سے غافل ہو، اُسے کوئی اخلاقی و قانونی حق نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنی امامت کے قصیدوں کی دُہائی دیتا پھرے!؟ فلسطین نے اپنے نہتے جسم پر غیرمذہب دشمنوں کے جو تیر و نشتر سہے ہیں، وہ اپنی روح پر ہم مذہب اپنوں کی لاپروائی و بے حسی کے ٹارچر سے زیادہ گہرے زخم نہیں ہیں۔ اردو کے شاعر خاقان خاورؔ نے ایسی ہی بے حس اور غیرذمہ دار اشرافیہ کے لیے کہا تھا:
تِرے ستم کی زمانہ دُہائی دیتا ہے!
کبھی یہ شور تجھے بھی سُنائی دیتا ہے؟
البتہ حماس نے اس تنہائی کی حالت میں اسرائیل کو قریب دو ماہ میں جو گزند پہنچائی ہے، یہ بلاشبہ جہاد کی وہ شان و برکت ہے، جسے قرآن مجید نے سورۂ توبہ کی آیت 14 میں یوں بیان کیا ہے:
قَاتِلُوْهُمْ یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَیْدِیْكُمْ وَ یُخْزِهِمْ وَ یَنْصُرْكُمْ عَلَیْهِمْ وَ یَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ۔
اُن (کافروں) سے جنگ کرو، تاکہ اللہ تمہارے ہاتھوں سے اُن کو سزا دلوائے۔ اُنہیں رسوا کرے، ان کے خلاف تمہاری مدد کرے اور مومنوں کے دل ٹھنڈے کر دے۔
اللہ تعالی حماسی مجاہدین کے ہاتھوں اسرائیلی یہودیوں کو جو سزا دے رہے ہیں، وہ مومنین کےلیے نہایت پُرمسرت ہے۔ اللہ تعالی نے اِس جہاد کے ذریعے عالمِ اسلام کے مادیت سے آلودہ فَہم و اِدراک کے اُس روحانی نقصان کو واضح فرما دیا ہے، جس میں مسلم اشرافیہ اسرائیل کو ناقابلِ تسخیر سمجھ کر اُسے بطور ایک ملک تسلیم کرنے کی تگ و دَو میں مصروف ہو گئی تھی۔ اللہ تعالی نے دِکھا دیا ہے کہ غلبے کی بنیادی وجہ جنگی سازوسامان کا زیادہ ہونا ہرگز نہیں ہے، بلکہ فتح ہمیشہ ایمان سے سرشار رُوح کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے۔ حماس نے اسرائیل کو بے حد شدید ضرب لگائی ہے، جس سے اسرائیل بِلبِلا اُٹھا ہے۔ اسرائیلی عبرانی اخبار ‘یدیعوت احرونوت’ نے اپنے عسکری نقصان کی اصل خبر چھپاتے ہوئے انتہائی محتاط، بلکہ محدود خبر جاری کی ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک فوج کے 2 ہزار سے زائد اہل کار قتل، 5 ہزار سے زائد زخمی اور تقریباً 2 ہزار ہمیشہ کے لیے معذور اور اپاہج ہو گئے ہیں۔ جب کہ کچھ آزاد ذرائع کے مطابق زخمی یہودی فوجیوں کی تعداد 7 ہزار سے زائد ہے۔ اِسی نقصان کے تناظر میں ‘سابق بریگیڈیئر جنرل لیمر’ نے خون کے آنسو روتے ہوئے دُہائی دی ہے کہ ہم نے اپنے قیام سے اب تک اتنی بڑی تعداد میں زخمی اور مرنے والے نہیں دیکھے۔ ہمارے اسپتال مزید زخمی فوجیوں کے علاج کے لیے ناکافی ہو گئے ہیں۔ یہودی خبروں کے مطابق غزہ کے موجودہ جہاد میں اسرائیلی فوج کی زخمیوں کی اوسط تعداد 60 تک پہنچ گئی ہے۔ جب کہ 100 کے آس پاس فوجی مجاہدین کے حملوں میں اندھے ہو چکے ہیں۔ مزید نقصان یہ سامنے آیا ہے کہ کئی فوجی براہِ راست جہاد کے خوف اور ڈر سے نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔
غزہ کے موجودہ جہاد میں صہیونی فوج کو اپنے جنگی آلات کی تباہی اور فوجیوں کے قتل کا جس قدر بھیانک اور سنگین نقصان پہنچ رہا ہے، یہودی فوج اُسے مکمل تفصیلات کے ساتھ سامنے نہیں لا رہی ہے۔ اگر کچھ نقصان یہودی میڈیا کی طرف سے سامنے آ رہا ہے تو وہ حماس میڈیا کی نشریات کے دباؤ کے تحت بے حد مجبوری کے بعد نقصان کی بالکل معمولی تفصیل شائع کر دیتا ہے۔ عبرانی اخبار ‘ہارٹیز’ نے اپنے ذرائع کی بنیاد پر لکھا ہے کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے اپنے زخمیوں کی حقیقی تعداد اور خبروں میں بتائی جانے والی مصنوعی تعداد میں بہت فرق ہے۔ یہودی عوام کی طرف سے اِس نقصان کے تناظر میں اپنی حکومت کی ساکھ پر کئی سوالیہ نشان قائم ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا ہے کہ “اِس جنگ نے ہمارے بہت سے عظیم بیٹے چھین لیے ہیں۔”
دوسری طرف یہودی فوجیوں کے جنگی حوصلے اِس قدر پست اور مضحکہ خیز ہیں کہ اُن سے ڈرنے والی مسلم اشرافیہ کے ایمان و شعور کی ناپختگی پر افسوس ہوتا ہے، جو فلسطین کو اِس قدر بزدل قوم کے قدموں میں قربان کر بیٹھی ہے۔ یہودی فوجی دورانِ جنگ حماس کے جہادی جذبوں سے اس قدر شدید ہیبت اور خوف کا شکار ہیں کہ وہ حماسی مجاہدین کو ‘بھوت’ قرار دے چکے ہیں۔ یہودی فوجیوں کا یہ دُکھ جہاد سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے مسلم دنیا کے لیے بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانے کا سنہری موقع ہے کہ ‘حماس کے مجاہدین ہماری بمباری کے باوجود مزید طاقت وَر ہو رہے ہیں۔ ہمارا نقصان بے حد زیادہ ہے۔ ہمارے بہت سے فوجی میدان میں قتل ہو چکے ہیں۔ اُن کی لاشیں لاوارث پڑی ہیں۔’
بنیادی طور پر یہودیوں کی یہ حالت قرآن مجید میں سورۂ عنکبوت کی آیت 41 میں بیان کی گئی ہے:
مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِیَآءَ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ١ۚۖ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا ط وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْكَبُوْتِ١ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ۔
جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسرے رکھوالے بنا رکھے ہیں، اُن کی مثال مکڑی کی سی ہے، جس نے کوئی گھر بنا لیا ہو۔ اور کھلی بات ہے کہ تمام گھروں میں سب سے کمزور گھر مکڑی کا ہوتا ہے۔ کاش کہ یہ لوگ جانتے۔
یہود شیطان کی پیروی کرتے ہوئے گمراہی کے جس اندھی دلدل میں دھنس چکے ہیں، وہاں ہدایت کا نور، عقیدے کی بنیاد اور ایمان پر اعتماد نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسرائیلی یہودی فوجیوں کی نفسیاتی حالت بالکل ویسی ہی ہے، جیسے افغانستان میں امریکا کے خلاف جہاد کے دوران مغربی عیسائی فوجیوں کی اعصابی کیفیت تھی۔ یہودی اور عیسائی، دونوں فوجیں ہمیشہ میدانِ جنگ میں روتی رہی ہیں۔ اُن پر مجاہدین کا اِس قدر شدید خوف سوار ہوتا ہے کہ مادیت پر یقین رکھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ ہر نوع کے جنگی اسلحے سے لیس اور ایٹم بم رکھنے والی بظاہر سپرطاقتوں کی فوجوں کے پاس ایسی کون سی کمی ہے یا اُنہیں ایسا کیا صدمہ لاحق ہے، جو اُنہیں نفسیاتی مریض بنا رہا ہے۔ حالانکہ عین یہی خبر امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران بھی میڈیا پر آئی تھی اور اب غزہ میں یہودی فوجیوں کے حوالے سے بھی منظرِعام پر آئی ہے کہ یہ فوجیں دورانِ جنگ شدید نفسیاتی دباؤ کے نتیجے میں پیٹ خراب ہونے پر اسہال اور پیچس کی بیماری مبتلا ہو چکی ہیں۔ بنیادی طور پر پیٹ کی خرابی کا یہ عمل دل و دماغ میں ایمان کی اُس غیریقینی کیفیت کا شاخسانہ ہے، جس ایمان کی کوئی بھی مضبوط بنیاد موجود نہ ہو۔ ہوا و ہوس اور حرص و لالچ کے سہارے کھڑی یہ عمارت درحقیقت قرآن کے الفاظ میں مکڑی کے وہ جالے ہیں، جنہیں مضبوط سمجھنے کی غلطی وہی شخص کر سکتا ہے، جس کا اپنا ایمان مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہو۔
اللہ تعالی نے جہاد کی بدولت مجاہدین کو جو فخروناز عطا فرمایا ہے، وہ حماس کے مجاہدین میں مکمل آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے۔ آج تمام مسلم دنیا کی نظریں القسام بریگیڈ پر ہیں۔ مسلمان سمجھ رہے ہیں کہ اگر بیت المقدس اور فلسطین کی حفاظت و بقا کا کوئی ظاہری بندوبست ہے تو وہ حماس ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں عام فلسطینی مسلمانوں کو گھروں کی بربادی، بھوک و افلاس کی مشقت اور عزیز و اقارب کی شہادتوں کی آزمائش کا سامنا ہے، مگر یہ اللہ تعالی کی حکمت کا وہ معاملہ ہے، جس کےپسِ پردہ اللہ تعالی اپنے بندوں اور اپنے دین کے قدردان انسانوں پر ایسی ایسی رحمتیں نازل فرمانے والا ہے، جس تک انسان کا گمان تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ صبر و شکر اور اعتماد و ثبات کی وہ گھڑی ہے، جس میں چند لمحوں کی آزمائش اور مشقت کے بعد عزت و راحت، قیام و عروج اور استحکام و فخر کا وہ وقت آنے والا ہے، جس کا لُطف آج افغانستان اُٹھا رہا ہے۔ اِن شاء اللہ وہ وقت دُور نہیں، جب حماس کے قیام کی 15ویں سالگرہ کے موقع پر شیخ احمد یاسین شہید رحمہ اللہ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیش گوئی کی تھی کہ “2025 عیسوی تک اسرائیل ختم ہو جائے گا۔” ممکنہ طور پر اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ مجاہدین کی جدوجہد کے تناظر میں اسرائیل کا موجودہ نظم و نسق اور حکومتی بندوبست ختم جائے اور یہودی دوبارہ بے تاج ہو کر بکھر جائیں۔ جیسا کہ خبروں کے مطابق موجودہ غزہ جہاد میں 7 اکتوبر سے اب تک تقریباً 4 لاکھ 70 ہزار یہودی آبادکار اسرائیل چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
اللہ تعالی فلسطینی مسلمانوں کی قربانیاں قبول فرما کر اُن کی یہ آزمائش کو آسائش میں تبدیل فرما دیں۔ آمین