کابل

حماس سے خوف زدہ اسرائیل

حماس سے خوف زدہ اسرائیل

خزیمہ یاسین
اللہ تعالیٰ نے فلسطین کے نہتے مسلمانوں، خصوصاً حماس کے مجاہدین کے لیے یہود کے تناظر میں جو بہت بڑی رحمت کا معاملہ فرما دیا ہے، وہ بے انتہا حیرت انگیز ہے۔ یہ ایسی صورتِ حال ہے کہ مجاہدین کو ایسے سنگین حالات میں خدائے رحمان کی اُس مخصوص مہربانی کی وجہ سے بہت زیادہ محنت نہیں کرنا پڑ رہی۔ اللہ تعالی کی وہ خصوصی مہربانی یہودی فوج کے دلوں میں ڈالا جانے والا مجاہدین کا وہ رعب و ڈر اور خوف و دبدبہ ہے، جس نے حقیقۃً یہود کے دل پارہ پارہ کر کے رکھ دیے ہیں۔ اب یہود کے دلوں کی کیفیت ایسی ہے، جیسے کوئی گھر زلزلے کی زَد میں آیا ہو اور اُس کی دیواروں میں دراڑیں بن گئی ہوں۔ بالکل اسی طرح غزہ کے جہاد میں یہود کی ہمتیں جواب دے چکی ہیں۔ وہ پریشان ہیں اور اُن کے حواس و اعصاب پھٹ چکے ہیں۔ اسی لیے وہ میدانِ جہاد میں حماس کے مجاہدین کا سامنا کرنے سے بھاگ رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق اسرائیل نے غزہ جنگ کے لیے فرانس سے کرائے کے دہشت گرد بھرتی کیے ہیں، جنہیں ماہانہ 12 ہزار ڈالر تنخواہ دی جائے گی۔ اسی خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اپنی جنگ کے لیے افرادی قوت فراہم اور مضبوط کرنے کے لیے دیگر ہم خیال ممالک سے بھی کرائے کے دہشت گرد بھرتی کرے گا، تاکہ وہ حماس کا مقابلہ کر سکیں۔ اسرائیل کے اِس اقدام کے پسِ پردہ تین ظاہری وجہیں ہیں۔
 پہلی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کے اپنے فوجی جنگ میں مجاہدین کا مقابلہ کرنے کی ہمت و صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اُن میں مقصدِ جنگ کا جوش و جذبہ اور کوئی ایسی ٹھوس بنیاد ہی موجود نہیں ہے، جو اُن کے تاریک دِلوں کو اُمید و اطمینان اور ممکنہ کامیابی کی روشنی سے چمکا دے۔ اُن میں ایمان کی وہ مطلوب کیفیت ہی سِرے سے دستیاب نہیں ہے، جو کسی بھی انسان کے اعتقادی اطمینان اور عمل کے لیے انگیزِش کا کام دے۔
 دوسری وجہ یہ ہے کہ مجاہدین کے ہاتھوں اسرائیلی فوجی بھاری تعداد میں ہلاک و زخمی اور مستقل اپاہج ہو رہے ہیں۔ نتیجۃً اسرائیل جنگی افرادی قوت کی قلت کا شکار ہو رہا ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے کرائے کے دہشت گردوں کو ظاہری الفاظ کے طور پر اس لیے بھرتی کیا ہے کہ وہ اپنے ذاتی فوجیوں کی جانوں کا تحفظ چاہتا ہے، مگر پسِ پردہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے بے تحاشا فوجی اِس جنگ کا ایندھن بن کر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جس سے اسرائیل کی ہر طرح کے ہلکے و بھاری اسلحے سے لیس فوج جذبے و تعداد کی فراوانی سے محروم ہو رہی ہے۔ زخمی فوجیوں کے حوالے سے یہودی فوج کی خبر کے مطابق اب تک زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد 1 ہزار 5 سو 93 ہے۔ جب کہ ایک اسرائیلی معتبر جریدے ‘ہارٹیز’ نے اپنے آزاد ذرائع کی بنیاد پر زخمی فوجیوں کی تعداد کے حوالے سے جو خبر شائع کی ہے، اُس کے مطابق مختلف غیرسرکاری اسپتالوں میں زیرِعلاج فوجیوں کی تعداد کا گراف یوں ہے:
 بئرالسبع کے بارزیلائی اسپتال میں زخمی فوجی 1،490
 اسوتا میں زخمی فوجی 178
 تل ابیب کے ایخی لوف اسپتال میں زخمی فوجی 148
 حیفا کے رمبام اسپتال میں زخمی فوجی 188
 القدس کے ہداسا اسپتال میں زخمی فوجی 209
 القدس ہی کے شعاری تسیدیک اسپتال میں زخمی فوجی 139
 جنوب کے سوروکا اسپتال میں زخمی فوجی 1 ہزار
 جنوب کے شیبا اسپتال میں زخمی فوجی 500 ہیں۔
یوں یہ مجموعی تعداد 3ہزار 8سو 52 ہے۔ یاد رہے، اگرچہ یہ سب غیرسرکاری اسپتال ہیں، مگر یہود کی جھوٹ پسند فطرت کو دیکھتے ہوئے اِس تعداد پر بھی بھروسا نہیں کر سکتے۔ ممکنہ طور پر یہ تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ جب کہ فوج کے اپنے اسپتالوں میں زیرِعلاج زخمی فوجیوں کی تعداد کا معلوم ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ البتہ قومِ یہود کی طفل تسلیوں کے لیے فوجی اسپتالوں کی جانب سے انتہائی محدود پیمانے کی جو تعداد شائع کی گئی ہے، اُس کو بھی ساتھ جمع کیا جائے تو یوں یہ ہندسہ 7 ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔
 تیسری وجہ یہ ہے کہ یہودی فوجی میدانِ جنگ سے فرار ہو رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق کچھ دن قبل 2 ہزار کے قریب فوجی میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ “ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہم کس خلاف جنگ کر رہے ہیں اور وہ ہمیں نظر بھی نہیں آ تے؟!” جب کہ جنگ سے بھاگنے والے 50 فیصد اہل کاریونٹ میں واپس ہی نہیں آئے۔ اسی لیے اسرائیل 12 ہزار ڈالر کا لالچ دے کر دیگر ممالک کے بے روزگار دہشت گردوں کو کرائے پر اپنی جنگ کا ایندھن بنا رہا ہے۔
اسرائیل کے حوالے سے عموماً دنیا بھر کا تاثر یہ ہے کہ وہ ایک جوہری ہتھیار رکھنے والی طاقت ہے، جس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ جب کہ اسرائیل جیسی نام نہاد جوہری طاقت کے مقابلے سے فرار کی سوچ بنیادی طور پر یہودیوں کی طرف سے پھیلائے گئے “ناقابلِ شکست ہونے کے تاثر” کی وجہ سے ہے۔ یہ تاثر کس قدر حقیقت ہے، اس کا ادراک حماس کی جہادی سرگرمیوں کے نتیجے میں اسرائیل کو پہنچنے والے ناقابلِ تلافی نقصان اور اسرائیل کی نکلتی چیخوں سے کیا جا سکتا ہے۔ دنیا میں یہودیوں کے بہادر اور ناقابلِ مقابلہ ہونے کا یہ تاثر ارادۃً پھیلایا گیا ہے، تاکہ خصوصاً مسلم ممالک فلسطین کے تناظر میں اسرائیل کو نیست و نابود نہ کر دیں۔ یقیناً اِس تاثر کی ایک وجہ 70 کی دہائی کی عرب اسرائیل جنگ بھی ہے، جس میں تب اسرائیل سے برسرِپیکار عرب ممالک شکست کھا گئے تھے۔
البتہ سمجھا جا سکتا ہے کہ عرب ممالک کی وہ ہاری ہوئی جنگ ‘جہادی افکار’ کی بنیاد پر قائم نہیں تھی۔ اِسے بالفاظِ دیگر یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کفار کے خلاف جہاد کے لیے مومن کے دل میں ایمان کی جو بلندپایہ رُوح مطلوب ہوتی ہے، اُس جنگ کی مسلم قیادت کے دل اُس ایمانی روح سے خالی تھے۔ ورنہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ دنیا کی انتہائی بزدل قوم یہود وہ جنگ جیت جاتی۔ اِس فہم کی تقویت کے لیے حماس کی موجودہ جہادی سرگرمیاں مضبوط دلیل ہیں۔ حماس دیگر مسلم ممالک کی جنگی تیاریوں اور سازوسامان کے موازنے کے طور پر بالکل نہتّی اور تہی دامن جماعت ہے، مگر اُس مٹھی بھر جماعت نےعرب ممالک کو شکست دینے والے دہشت گرد اسرائیل کی ناک میں نتھ ڈال کر رکھی دی ہے۔ اسرائیل حماس کے ہاتھوں نظر آتی واضح شکست کے کوئلوں پر ناچ رہا ہے۔
یہودیوں کے دلوں میں مجاہدین کا یہ رعب بنیادی طور پر اللہ تعالی کی وہ مدد ہے، جو خالص اللہ کی رضا اور عقیدے کی مضبوطی کی بنیاد پر کیے جانے والے جہاد کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے 28ویں پارے کی سورۂ حشر کی آیت 2 میں ذکر فرمایا ہے:
هُوَ الَّذِیْۤ اَخْرَجَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ مِنْ دِیَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ ط مَا ظَنَنْتُمْ اَنْ یَّخْرُجُوْا وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ مَّانِعَتُهُمْ حُصُوْنُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَاَتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ حَیْثُ لَمْ یَحْتَسِبُوْا ق وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الرُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَهُمْ بِاَیْدِیْهِمْ وَ اَیْدِی الْمُؤْمِنِیْنَ ق فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ۔
وہی (اللہ) ہے، جس نے اہلِ کتاب میں سے کافر (یہودی) لوگوں کو ان کے گھروں سے پہلے اجتماع کے موقع پر نکال دیا۔ (مسلمانو!) تمہیں یہ خیال بھی نہیں تھا کہ وہ نکلیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے ہوئے تھے کہ اُن کے قلعے اُنہیں اللہ سے بچا لیں گے۔ پھر اللہ ان کے پاس ایسی جگہ سے آیا، جہاں اُن کا گمان بھی نہیں تھا، اور اللہ نے ان کے د لوں میں رعب ڈال دیا کہ وہ اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی اور مسلمانوں کے ہاتھ سے بھی اُجاڑ رہے تھے۔ لہذا اے آنکھوں والو ! عبرت حاصل کرو۔
اگرچہ مذکورہ آیت میں موجود تذکرہ یہود کے قبیلہ بنونضیر کا ہے، جسے اُس کی بدعہدی کی وجہ سے مدینہ منورہ سے جلاوطن کر دیا گیا تھا، مگر اِس آیت میں اُن بدعہد مزاج یہود کے حوالے سے جس چیز کو واضح کیا گیا ہے، وہ یہود کے دلوں میں ڈالا گیا وہ رعب و خوف ہے، جس نے اُن کی ہمتوں کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اور وہ مسلمانوں کے ہاتھوں پہنچنے والی سزا کے ڈر سے اپنا علاقہ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ اس واقعے کی مکمل تفصیل سورۂ حشر کی ابتدائی آیات کی تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہے۔البتہ اِس آیت کے تناظر میں موجودہ اسرائیل کی صورتِ حال کو دیکھا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہود کا مزاج اب بھی وہی صدیوں پُرانا اور دنیا کے لالچ اور سامانِ عیش کے حرص سے بھرا ہوا ہے۔
اللہ تعالی نے حماس کو یہود پر ایسا مسلط فرمایا ہے کہ یہود جس اسرائیل کو آباد اور مضبوط کرنے کے لیے دنیا کے کونے کونے سے اُٹھ کر فلسطین میں آ گھسے تھے، وہی دنیا کے لالچی یہود آج فلسطین کے حقیقی وارثوں کے جہاد کی برکت سے موت کے خوف میں مبتلا ہو کر اسرائیل سے بھی جلاوطن ہو رہے ہیں۔ خبروں کے مطابق اسرائیل سے بھاگ جانے والے یہودیوں کی تعداد تقریباً 1 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ جب کہ یہودی فوجی میدانِ جنگ سے فرار ہو رہے ہیں۔ یقیناً یہ معاملہ اُن مسلم حکمرانوں کے لیے عبرت کا مقام ہے، جو امریکا و اسرائیل سے اس لیے ڈرے ہوئے ہیں کہ اگر اُنہوں نے حماس کی حمایت کی تو امریکا و اسرئیل اپنی سیاسی بالادستی کے ذریعے اُن کی حکومتیں ختم کرا دیں گے۔ جب کہ مذکورہ آیت عقیدے کی اس انتہائی کمزوری اور ضعف کو یوں بیان کر رہی ہے کہ بنونضیر کو اُن کے گھروں سے جلاوطن کرنے والا صرف اللہ ہی تھا۔
کیوں کہ درحقیقت پوشیدہ طور پر اللہ تعالی ہی ہر چیز کا فاعلِ حقیقی ہے۔ جب کہ اِس آیت میں یہود کے دِلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا کرنے اور اُنہیں جلاوطن کرنے کی باطنی کے ساتھ ظاہری نسبت بھی اللہ تعالی کی طرف کی گئی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو ظاہری طور پر یہود کو اُن کے علاقوں سے نکالنے کے لیے جہاد کا علَم تھامے ہوئے تھے، مگر اِس آیت کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہود کی جلاوطنی کے لیے تب اللہ تعالی کا دستِ قدرت پوشیدہ نہیں تھا۔ یعنی اللہ تعالی واضح فرما رہے ہیں کہ ہر معاملے کا بَھلا و بُرا انجام اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح یہودِ بنونضیر کے مضبوط قلعے اُنہیں صحابہ کی جہادی ضربوں سے نہیں بچا سکے تھے، آج اسرائیل کا “آئرن ڈوم سسٹم” اُسے حماس کی جہادی سرگرمیوں سے نہیں بچا سکا۔ سب کچھ کرنے پر قادِر ذات صرف اللہ تعالی ہی کی ہے۔ لہذا امریکا و اسرائیل کو حکومتوں کے اُٹھانے و گِرانے پر قادِر سمجھ لینا عقیدے کا وہ ضعف ہے، جس کا انجام مرگِ مفاجات کے رُوپ میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالی سے دُوری اختیار کی جائےتو شکست و ریخت اور ذلت و مسکنت مقدر بن جاتی ہے۔
کاش! مسلم حکمران فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ پر غور کر کے حماس کی حمایت کرتے اور فلسطین کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرتے۔