کابل

روس اور نیا افغانستان

روس اور نیا افغانستان

تحریر: عبد الحی قانت

زارسٹ روس سے لے کر 1917 کے بالشویک انقلاب تک افغانستان اور روس کے درمیان مشترک مفادات کی بنیاد پر تعلقات استوار تھے۔ زارسٹ روس کے دور میں افغانستان نے نوآبادیاتی انگلستان اور زارسٹ روس کے درمیان روس اور انگلستان نقطہ نظر کے مطابق بفر زون کا کردار ادا کیا تھا لیکن افغانستان کے نقطہ نظر سے وہ دونوں عظیم سلطنتوں کے ساتھ باہمی احترام، مستحکم خارجہ پالیسی اور داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی بنیاد پر تعلقات رکھتا تھا۔ اس زمانے میں ہم نے تعلقات میں توازن اور غیر جانب داری کی اصطلاحات بھی استعمال کی تھیں۔ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں روسیوں نے Brezhnev Doctrine کو “Brezhnev Security Belt” کے محور کے طور پر متعارف کرایا۔ اس وقت افغانستان سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس سیکیورٹی بیلٹ کا حصہ بنے۔ اس زمانے میں افغان مفکر شاہد موسیٰ شفیق ملک کے وزیر خارجہ تھے اور افغانستان آزاد خارجہ پالیسی بنانے والا ملک تھا۔ شاہد موسی شفیق نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور غیر جانب داری کو حقیقی معنوں میں ظاہر کرنے کے لیے چین کا سفر کیا۔ سویت یونین نے جب افغانستان پر جارحیت کی تو افغانوں نے ان کے خلاف ایسی پر زور مزاحمت کی جو بالآخر حیرتان سے گراموف کے روتے ہوئے نکلنے پر منتج ہوا۔ ملک میں خانہ جنگی کے دوران2001 تک افغانستان میں روس کی پالیسی ایک سیاسی گروہ پر مرکوز تھی۔  روسی انٹیلی جنس اور یلسن کی ٹیم نے شمال کو برقرار رکھنے کے لیے آخری دن تک افغانستان کے ایک متحارب گروہ کا دفاع کیا۔  یاد رہے کہ پیوٹن نے ماسکو میں افغانستان کے شمال کے ایک مشہور کمانڈر سے کریملن میں خفیہ ملاقات کی تھی۔ امریکیوں کے آنے کے بعد روس کو ایک انتخاب کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ امریکا کی افغانستان آمد سے اس لیے خوش نہیں تھے کہ افغانستان میں امریکا کی کامیابی سے ان کے لیے سٹریٹجک خطرہ ہوگی، بلکہ اس وقت کے امریکی صدر بش کے اعلان کے بعد روس کے لیے امریکا کی حمایت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بچا نہیں تھا۔ 2007 میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے بعد پیوٹن کی مغرب کے ساتھ ٹن گئی، پھر 2008، 2013 اور 2014 میں مختلف اوقات میں یہ کش مکش جاری رہی۔ اس عرصے میں روس دو طرفہ کھیل کھیلتا رہا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ امریکی افغانستان میں دلدل میں پھنس چکا اور ان کی مکمل کامیابی ناممکن ہے تو وہ امریکا کو افغانستان کی جنگ میں مصروف رکھنا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے وہ مختلف حربے استعمال کرتا رہا۔ 30 اگست 2021 کو امریکا افغانستان سے نکل گیا، تب روس نے نئی بننے والی حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات کا آغاز کیا۔
فروری 2022 میں روس یوکرین جنگ میں پھنس گیا، تب افغانستان کا مسئلہ ان کی خارجہ پالیسی میں وہ اہمیت نہ رکھ سکا جو یوکرین جنگ سے پہلے تھا۔ یوکرین تنازع کے بعد پیوٹن نے شام، وسطی ایشیا، افغانستان اور مشرق وسطیٰ پر اپنی توجہ کم کر دی ہے۔ اس وقت پوٹن کی تمام تر کوششیں اور توجہ مشرقی یورپ اور نیٹو کی سرحدوں پر مرکوز ہے۔  اس وقت پیوٹن کی تمام تر توجہ مشرقی یورپ کے علاوہ دیگر تمام دنیا سے تعلقات استوار کرنے اور ان سے گیس اور توانائی برآمد کرنے اور روسی ہتھیاروں کے لیے مارکیٹ بنانے پر ہے۔
میرے خیال سے افغانستان کے لیے روسی فیڈریشن کی پالیسی درج ذیل امور پر مشتمل ہے:
1:- افغانستان کے ساتھ طویل مدتی تعلقات کی بنیاد رکھنے کے لیے افغانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینا۔
2:- افغانستان سے جنوبی ایشیائی ممالک تک توانائی کی ترسیل کے منصوبوں میں شرکت۔
روس مشرقی یورپ سے مغرب کی طرف نکلنے کے بعد اپنے اقتصادی اثر و رسوخ کو سرد ایشیائی منڈی تک بڑھانا چاہتا ہے۔
3:- وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کو بہانہ بنا کر نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار، کیوں کہ روس نہیں چاہتا کہ اسلام پسندی کی لہر کو احتیاط سے سنبھالا جائے۔
4:- افغانستان کے حوالے سے کثیر الجہتی سفارت کاری کا استعمال۔
چین، بھارت اور روس سمیت تمام شنگھائی ممالک مشترکہ مفادات کی بنیاد پر افغانستان کے ساتھ تعلقات بنانا چاہتے ہیں۔
5:- روس امریکا کے پلان بی سے خوف زدہ ہے۔ اس لیے وہ افغانستان میں سکیورٹی مسائل سے متعلق انتہا پسندانہ بیانات دے رہا ہے۔
7:- افغانستان کی صورت حال کو امریکا مخالف پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنا۔