کابل

شرعی حدود کے نفاذ کی اہمیت و افادیت

شرعی حدود کے نفاذ کی اہمیت و افادیت

 

تحریر: محمد حسان مجاہد
کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک اسلامی معاشرہ نہیں کہلایا جاسکتا جب تک اس میں شریعت کا اطلاق نہ ہوں اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں شریعت کی جانب رجوع نہ کر رہا ہو۔ یہ ممکن نہیں کہ (کتب علیکم الصیام) پر عمل کریں لیکن (کتب علیکم القصاص) کو ترک کریں، روزہ بھی فرض ہے اور قصاص بھی فرض ہے، ایک آیت پر عمل کریں لیکن دوسری آیت عملی طور ترک کریں، اسی طرح نماز کی آیات پر عمل کریں لیکن سود کی حرمت کی آیات ترک کریں۔

مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں، نہ کہ موجودہ قوانین کے مطابق جو حلال کو حرام اور حرام کو حلال سمجھتے ہیں۔

اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں یہ گنجائش نہیں ہے کہ اسلام کے کچھ اصولوں پر عمل کیا جائے اور کچھ کو ترک کیا جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سختی سے رد کیا کہ وہ بعض احکام مان لیتے اور بعض کو چھوڑ دیتے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان رکھتے ہو اور دوسرے حصہ کا انکار کرتے ہو، پھر جو تم میں سے ایسا کرے اس کی یہی سزا ہے کہ دنیا میں ذلیل ہو اور قیامت کے دن بھی سخت عذاب میں دھکیلے جائیں، اور اللہ اس سے بے خبر نہیں جو تم کرتے ہو۔ (بقرہ 85)۔

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ قانون کے علاوہ دیگر منسوخ شدہ قوانین پر فیصلہ کرے، وہ کافر ہے۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ زندگی کے تمام معاملات کو اللہ کے قانون کے مطابق حل کریں۔ اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 49 میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے: ترجمہ: اور آپ ان لوگوں میں اس کے موافق حکم کر جو اللہ نے اتارا ہے اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے بچتا رہے کہ تجھے کسی ایسے حکم سے بہکا نہ دیں جو اللہ نے تجھ پر اتارا ہے۔

مغرب نے اسلام کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد اسلامی دنیا کو شرعی قوانین کی بجائے اپنے خودساختہ قوانین پیش کیے اور ان قوانین کو نافذ کرنے کے لیے اسلامی ممالک میں اپنے کٹھ پتلی حکمران مقرر کیے۔ اسی وجہ سے اب پوری اسلامی دنیا میں کسی ایک ملک میں بھی مکمل طور پر اسلامی نظام اور شرعی قوانین کا نفاذ نہیں ہے، اس وقت صرف افغانستان میں اسلامی نظام نافذ ہے اور یہاں پر امارت اسلامیہ کے ڈھائی سالہ دور اقتدار میں جب شرعی قانون اور حد کا اطلاق ہوتا ہے تو مغرب میڈیا کے ذریعے اس کو ایک سکینڈل کے طور پر پیش کرتا ہے اور شرعی حدود کے نفاذ کو انسانی اعضاء کی توہین اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے۔

اسلام عدل و انصاف کا دین ہے اور اس نے مسلمانوں کے لیے ایسے قوانین وضع کیے ہیں جن کے مطابق اسلامی معاشرے کے لوگ امن اور خوشحالی سے زندگی بسر کریں گے، وہ دوسرے لوگوں کے حقوق کا احترام کریں گے اور بلاوجہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے، تاہم اگر کسی مسلمان نے اسلامی معاشرے میں کچھ حدود سے تجاوز کیا، منکر اعمال کا ارتکاب کیا، لوگوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا، پھر شریعت کی روشنی میں اس پر حد لگائی جاتی ہے اور سزا دی جاتی ہے، ایسا نہیں ہے کہ اسلام صرف سزاؤں کا مذہب ہے جیسا کہ مغرب اور مستشرقین کہتے ہیں، بلکہ اسلام عقائد، عبادات، معاملات اور حقوق کا نام ہے۔

شرعی حدود کے اطلاق میں بڑے فوائد مضمر ہیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1- حدود کے نفاذ سے مجرمین کو سبق حاصل ہوگا:
جب مجرم پر کسی حد کی سزا لاگو ہوتی ہے، اس کے بعد مجرم اپنے آپ کو برے کاموں سے بچاتا ہے اور ڈرتا ہے کہ اسے دوبارہ اپنے کیے کی سزا نہ ملے۔
اگر کوئی شخص جاہل، گمراہ، ایمان میں کمزور یا ضدی ہوگا جس پر وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہوتا، یا کسی شخص کو عذاب الٰہی کا خوف نہیں ہوتا تو ایسے لوگوں کے لیے سزا کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ حضرت عثمان اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے یہ قول نقل ہوا ہے کہ اللہ تعالی بعض لوگوں کی اصلاح قرآن کے ذریعے نہیں بلکہ حکمرانوں کے ہاتھوں کرتا ہے۔

2- معاشرتی مفاد:
عام طور پر حد لگانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کے دوسرے لوگ حدود کے نفاذ سے متاثر ہوں گے اور وہ محسوس کریں گے کہ اگر وہ ایسا ہی کریں گے تو انہیں مجرم کی طرح اپنے کیے کی سزا ملے گی۔

3- حدود کے نفاذ کا کفار پر اثر:
حدود کے نفاذ سے مسلمانوں کے علاوہ کافر بھی متاثر ہو کر اسلام کی طرف راغب ہو سکتے ہیں، اسلام کے ابتدائی دور میں بہت سے کافر حدود سے متاثر ہوئے اور مسلمان ہوئے۔ مثلاً جب کسی مسلمان اور کافر کے درمیان جھگڑا ہو جائے اور فیصلہ کے بعد کافر کو اس کا حق دیا جائے تو کافر حیران ہوگا کہ اسلام عدل کا دین ہے، آج مغربی ممالک میں چوری، عصمت دری اور اغواء کے علاوہ دیگر وسیع پیمانے پر بدعنوانی بھی جاری ہے اور مغربی قوانین کے مطابق کوئی بھی مجرموں کے خلاف سزا کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ شاید وہ اسلامی معاشرے میں شرعی حدود کے نفاذ سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیں۔

4- زمین کو فتنہ سے بچانا:
جس معاشرے میں مجرمین دندناتے پھرتے ہیں اور منکر اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں تو اس معاشرے میں فساد اور فتنہ برپا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: زمین کی اصلاح کے بعد فساد کی کوشش نہ کرو۔ (سورۃ الاعراف 56) اسلاف نے کہا ہے کہ روئے زمین پر اصلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دین کی اشاعت سے ہوئی، فساد اور فتنہ اس وقت برپا ہوتا ہے جب منکر اعمال سرعام ہورہے ہوں اور ان کی روک تھام کی کوشش نہ کی جائے۔

5- حدود کے نفاذ میں جانوروں کا فائدہ:
حدود کے نفاذ سے انسانوں اور جانوروں دونوں کو راحت ملتی ہے، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب قحط آتا ہے تو زمین کے تمام جانور اور کیڑے مکوڑے کہتے ہیں کہ انسان کے گناہ کی وجہ سے ہم پر بارش روک دی گئی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین پر ایک حد قائم کرنا چالیس دن کی بارش سے بہتر ہے۔ یعنی جس طرح بارش سے پودوں، جانوروں، کیٹرے مکوڑوں کو فائدہ ملتا ہے اسی طرح حدود کے نفاذ سے جرائم کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا، لوگوں کی جان، مال اور عزت نفس محفوظ ہوسکے گا۔ اور جانوروں، کیڑے مکوڑوں اور پودوں پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ اس وقت دنیا میں افغانستان واحد ملک ہے جہاں اسلامی نظام حکومت کی چھتری تلے مجرموں کو سزائیں دی جاتی ہیں اور شرعی حدود کا نفاذ ہے۔ اس وقت ملک بھر میں 450 عدالتیں قائم ہیں جنہوں نے ایک سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد مقدمات نمٹائیں اور سینکڑوں مجرمین پر حدود اور قصاص کے الہی قوانین جاری کئے جن کی وجہ سے ملک میں بتدریج جرائم کی شرح میں واضح کمی آئی ہے۔