کابل

غزہ میں اللہ کے لشکر

غزہ میں اللہ کے لشکر

 

محمد افغان

اسرائیل اپنی ازلی فطرت کی وجہ سے مختلف مسائل کا شکار ہو رہا ہے۔ دن بہ دن نئے پیدا ہونے والے سانحات نے اسرئیل کے دماغی توازن، صلاحیت اور اعصاب کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بات جنگوں کی دنیا میں ایک عقیدے کے طور پر اپنا وجود رکھتی ہے کہ دو دشمنوں کے مابین مقابلے کا نفسیاتی پلڑا بھاری رکھنے کے لیے جنگ کے پسِ پردہ عقائد و نظریات کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ البتہ اس کے ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ خصوصاً جنگی میدانوں میں عقائد و نظریات کی طاقت تب ظاہر ہوتی ہے، جب اُن عقائد کے ماننے والے مکمل اطاعت و قلبی یقین کے ساتھ اُن نظریات پر قائم ہوں۔ وہ اُن کی حقّانیت تسلیم کرتے ہوں۔ اگر پسِ پردہ عقائد پر یقین کمزور ہو یا عمل میں ناپختگی ہو تو تب جنگ کا نفسیاتی پلڑا ہوا میں ہی رہے گا، چاہے وہ عقائد اپنی ذات میں کس قدر حقیقی اور طاقت وَر ہوں۔
اس تمہید کی وضاحت و تفصیل کے لیے قرآن مجید میں بنی اسرائیل کا واقعہ بہترین مثال ہے۔ سورۃ المائدۃ کی آیت 24 میں مذکور ہے:
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ۝
وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے (اگر اُن سے لڑنا ہے تو) بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔
قرآن مجید نے اس آیت کا پسِ منظر یوں بیاں کیا ہے:
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اپنی قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر بیت المقدس کی طرف لے کر گئے تو بنی اسرائیل کے مصر میں رہنے کے دوران بیت المقدس پر عمالقہ نامی قوم آباد ہو چکی تھی، جو اپنے تئیں بہت طاقت وَر تھی۔ اللہ تعالی کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نےبنی اسرائیل سے کہا کہ اے میری قوم! اللہ تعالی نے سرزمینِ بیت المقدس آپ کے لیے مقدر کر دی ہے، لہذا وہاں موجود سرکش قومِ عمالقہ سے جہاد کرتے ہوئے اُس میں داخل ہو جاؤ۔ البتہ اس بات کا دھیان رہے کہ جہاد سے پشت نہ پھیرنا اور بھاگنا بھی مت، ورنہ نامُراد ہو جاؤ گے۔ جب کہ بنی اسرائیل اپنی بزدلی اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے عمالقہ کے خلاف جہاد کرنے انکار کرتے ہوئے حضرت موسی علیہ السلام سے کہنے کہ اے موسیٰ! بیت المقدس میں تو بہت طاقت وَر لوگ رہتے ہیں۔ لہذا جب تک وہ لوگ خود وہاں سے نہیں نکل جاتے، ہم ہرگز وہاں داخل نہیں ہوں گے۔ جب کہ بنی اسرائیل میں دو نیک افراد نے جہاد سے انکار کرنے والوں کو کہا کہ اگر تم واقعی ایمان والے ہو تو پھر اپنا اعتماد اور یقین صرف اللہ پر رکھو۔تم عمالقہ پر چڑھائی کر کے شہر کے دروازے میں گھس جاؤ۔ جب گھس جاؤ گے تو اپنے ایمان کی وجہ سے تم ہی غالب رہو گے۔ جس پر بنی اسرائیل نے بدبختی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اے موسیٰ! جب تک وہ لوگ اس (ملک) میں موجود ہیں، ہم ہرگز ہرگز اس میں قدم نہیں رکھیں گے (اگر ان سے لڑنا ہے تو) بس تم اور تمہارا رب چلے جاؤ اور ان سے لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔
بنی اسرائیل کی مذکورہ مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ عقائد اور نظریات فی نفسہٖ کس بھی قدر مضبوط اور حقیقی ہوں، جب تک اُن پر ایمان لانے والے واقعی ایمان نہیں لاتے تو اُن عقائد کی بنیاد پر ملنے والی خوش خبریاں نصیب نہیں ہوتیں۔ جیسے ایک طرف اللہ تعالی نے اپنے اولی العزم پیغمبر کی موجودگی میں یہود کو جہاد میں کامیابی کی نوید سنائی تھی، لیکن دوسری طرف بنی اسرائیل نے کمزور ایمان کی وجہ سے انتہائی گستاخانہ اور سخت لہجے میں نبیِ وقت کے سامنے ہی جہاد سے انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے بنی اسرائیل کا جنگی پلڑا ہلکا ہو کر ہواؤں میں تحلیل ہو گیا۔ اُن پر اللہ تعالی کی طرف سے ذلت اور پھٹکار برسائی گئی۔
آج صہیونی اسرائیل کی حالت بالکل ویسی ہی، بلکہ اُس سے بھی بدتَر ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ یہود کا موجودہ عقیدۂ توحید و رسالت بالکل بے سروپا اور اللہ تعالی کے ہاں نامقبول ہے۔ اسی بنیاد پر ایمان کے نہ ہونے کی وجہ سے اُس کے عمل میں بھی ویسی ہی کمزوری ہے، جو عقیدے کی کمزوری کا فطری نتیجہ ہے۔جیسے علامہ محمد اقبال نے کہا ہے:
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا، مرگِ مفاجات
بالکل ایسے ہی میدانِ جنگ میں غلط عقیدے کی سزا موت کا خوف ہے۔ جس قوم میں موت کا خوف سرایت کر جائے، وہ جنگ میں اپنا مُورال ہرگز بلند نہیں رکھ سکتی۔ جب کہ جہاد جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی میں اہلِ ایمان کی فتح کی تاریخ سامنے رکھی جائے تو اللہ تعالی اپنے فضل سے اہلِ ایمان کے دشمنوں کے دل میں موت کا خوف ایسے سرایت کر دیتا ہے کہ دشمن مَرنے کے ڈر سے اپنی بقا کی لازمی جنگ میں بھی مطلوب کارکردگی دکھانے کی ہمت نہیں رکھتا۔
حدیث کے تناظر میں بنیادی طور پر مرنے کا ڈر اور موت کا خوف دو چیزوں کی وجہ سے دل پر غالب آ جاتا ہے۔ پہلی چیز دنیا کی محبت ہے۔ دوسری چیز موت سے نفرت ہے۔ اور موت سے نفرت دنیا کی محبت ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔جب کہ یہود کے حوالے سے تو اللہ تعالی نے ایک مزید چیز بھی ذکر فرمائی ہے۔ اللہ تعالی نے سورۃ البقرۃ کی آیت 96 میں ذکر کیا ہے:
وَلَتَجِدَنَّهُمۡ اَحۡرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَيٰوةٍ ج وَ مِنَ الَّذِيۡنَ اَشۡرَكُوۡا ج يَوَدُّ اَحَدُهُمۡ لَوۡ يُعَمَّرُ اَ لۡفَ سَنَةٍ ج وَمَا هُوَ بِمُزَحۡزِحِهٖ مِنَ الۡعَذَابِ اَنۡ يُّعَمَّرَ ط وَاللّٰهُ بَصِيۡرٌۢ بِمَا يَعۡمَلُوۡنَ۝
(بلکہ) یقینا تم ان (یہودی)لوگوں کو پاؤ گے کہ انہیں زندہ رہنے کی حرص دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ مشرکین سے بھی زیادہ۔ ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے، حالانکہ کسی کا بڑی عمر پا لینا اُسے عذاب سے دور نہیں کر سکتا۔ اور یہ جو عمل بھی کرتے ہیں، اللہ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔
اللہ تعالی نے اس آیت میں بیان کی گئی یہود کی طرف سے طویل زندگی کی تمنا کے پسِ پردہ وجہ کو واضح فرماتے ہوئے پہلے کی دو آیات 94 اور 95 میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا ہے کہ آپ (ان یہود سے) کہیے کہ اگر تم واقعی سچے ہو اور تمہارے دعوے کے مطابق اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے تو موت کی تمنا تو کر کے دکھاؤ۔ یعنی آخرت کا گھر یا جنت تو موت کے بعد ہی مل سکتا ہے۔ لیکن ہم خود بتائے دیتے ہیں کہ ان یہود نے اپنے جو بُرے کرتوت آگے آخرت کے لیے بھیج رکھے ہیں، ان کی وجہ سے یہ کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے اللہ تعالی ان ظالموں کی حقیقت کو خوب جانتا ہے۔
ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بُرے اعمال کے بعد جواب دہی کے عمل سے بچنے کےلیے انسان ہرگز نہیں چاہتا کہ اُس سے اُس کے اعمال کا جواب طلب کیا جائے۔یہود اِسی احساسِ جرم کی وجہ سے موت کا خوف کھاتے ہیں اور میدانِ جنگ میں قائم نہیں رہ سکتے۔
حالیہ حماس اسرائیل جنگ میں یہود کا میدانِ جنگ میں ڈٹے نہ رہنے کی بنیادی وجہ یہی موت کا خوف ہے، جس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت نے غزہ سے اپنی اکثر فوجیں واپس بُلا لی ہیں۔ کیوں کہ فوجی میدانِ جنگ میں کھڑے رہنے سے انکار کر چکے تھے۔ لہذا ہم یہاں یہی بات ایک دوسرے رُخ سے سمجھ سکتے ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنے تابع دار فلسطینیوں کی مدد کرنے کے لیے ‘موت کے خوف’ کو اپنا لشکر بنا کر اسرائیل کے خلاف میدانِ جنگ میں اُتار دیا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ‘موت کا لشکر’ یہود کو شکست سے دوچار کر رہا ہے۔
اگر ایک طرف المیہ یہ ہے عالمِ اسلام فلسطین کے حوالے سے اپنی اسلامی اخوت کی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا تو دوسری طرف اللہ تعالی نے فلسطینیوں کو بے سہارا نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالی نے فلسطین کے محاذ پر اہلِ اسلام کی مدد کے لیے اپنے مختلف نامعلوم لشکر نازل فرما رکھے ہیں۔ جیسے اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر موت کا خوف ہے۔ اللہ تعالی کا دوسرا لشکر یہود کو لاحق ہونے والی ڈپریشن کی بیماری ہے۔ اسی بیماری کی وجہ سے وہ نفسیاتی طور پر پاگل پن کا شکار ہو چکے ہیں۔ جب کہ اسرائیلی محکمۂ صحت نے اس اَمر کا اعتراف کیا ہے کہ غزہ سے واپس آنے والے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد دماغی امراض میں مبتلا ہے، جنہیں اسپتالوں میں داخل کر کے اُن کا علاج کیا جا رہا ہے۔اسی طرح سیکڑوں فوجی ایسے ہیں، جو حماس کے حملوں میں اپاہج ہو چکے ہیں۔ وہ چلنے پھرنے سے مستقل طور پر معذور ہیں۔ اسی طرح حالیہ دنوں یہ خبر بھی منظرِعام پر آئی تھی کہ غزہ سے کتوں کی ایک بڑی تعداد نے اسرائیلی فوجیوں پر حملے کیے ہیں۔ جس کی وجہ سے اسرائیلی فوجی غزہ میں اپنی کارکردگی کے مظاہرے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اسی طرح غزہ میں مصروف اسرائیلی فوج میں نامعلوم دماغی دباؤ کی وجہ سے خودکشی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
درحقیقت جہادِ غزہ اور غزوۂ احزاب میں اللہ تعالی مدد و نصرت کے منظرنامے یکساں ہیں۔ اہلِ فلسطیں نے غزہ میں فضائے بدر پیدا کی ہے تو اللہ تعالی نے اُن کی مدد کے لیے اپنے لشکر نازل فرما دیے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالی سورۃ الاحزاب کی آیت 9 میں مسلمانوں کی مدد کے حوالے سے اپنے لشکروں کا حال ذکر کرتے ہیں:
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اذۡكُرُوۡا نِعۡمَةَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ جَآءَتۡكُمۡ جُنُوۡدٌ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَيۡهِمۡ رِيۡحًا وَّجُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡهَا ط وَكَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِيۡرًا۝
اے ایمان والو ! یاد کرو اللہ نے اُس وقت تم پر کیسا انعام کیا، جب تم پر بہت سے لشکر چڑھ آئے تھے، پھر ہم نے ان پر ایک آندھی بھی بھیجی اور ایسے لشکر بھی، جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے۔ اور تم جو کچھ کر رہے تھے، اللہ اس کو دیکھ رہا تھا۔
اِس وقت فلسطین میں یہی حالت ایمان والوں اور کفر کے بہت سے لشکروں کی ہے، مگر اللہ تعالی کی نصرت غالب رہتی ہے۔ جیسا کہ مولانا ظفر علی خاں نے اپنے اشعار میں کہا ہے:
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُترسکتے ہیں گَردوں سے قطار اندر قطار اب بھی