کابل

فلسطین، یہ ایمان کا سوال ہے!

فلسطین، یہ ایمان کا سوال ہے!

محمد افغان
امارت اسلامیہ کی طرف سے جاری ایک اعلامیے میں جہاں مظلوم ترین فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا اور دہشت گرد اسرائیل کے مظالم کی روک تھام کے لیے مسلم ممالک کو اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے فرض کی یاددہانی کرائی گئی ہے، وہیں امارت اسلامیہ نے جاری ‘جہادِ فلسطین’ بارے انتہائی اہم الفاظ استعمال کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ ناجائز اسرائیل کی اندھی بمباری کی وجہ سے ہزاروں معصوم بچے، بے گناہ خواتین اور عمررسیدہ افراد شہید ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے اپنے ظلم کو مزید شدید بناتے ہوئے غزہ میں داخل ہونے والی خوراک اور ادویات پر بھی پابندی لگا رکھی ہے، تاکہ بمباری میں بچ جانے والے فلسطینی مسلمان بھوک اور زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو جائیں۔ اسرائیل کے اندھے مظالم کی یہ شدت صرف اس وجہ سے ہے کہ ظالم اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی بھی طاقت وَر مسلم ملک اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر رہا۔ ان مسلم ممالک نے نام نہاد عالمی برادری کی طرف سے لاگو ایسی پابندیوں کو اپنے پاؤں کی بیڑیاں اور ہاتھوں کی زنجیر بنا رکھا ہے، جن قوانین کو اسرائیل اپنے جوتے کی مٹی برابر بھی اہمیت نہیں دیتا ہے۔ یہ ممالک اپنی طرف سے ایسے نام نہاد امن و امان اور عالمی پابندیوں کے فرماں بردار بنے ہوئے ہیں، موجودہ حالات میں جس امن اور پابندی کی اسلامی نکتۂِ نظر سے مچھر کے پَر برابر بھی اہمیت نہیں ہے۔
بہرحال! فلسطین کھرے کھوٹے کی پہچان کی کسوٹی اور معیاری و غیرمعیاری کی قیمت جانچنے کا ترازو ہے، امارت اسلامیہ نے جس کی طرف مسلم ممالک کو توجہ دینے کے لیے غفلت سے بیدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ امارت اسلامیہ نے واضح کیا ہے کہ “مسلم ممالک مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ تعاون کرنے کے حوالے سے اِس عظیم خدائی امتحان سے غافل مت رہیں۔”
بلاشبہ فلسطین ایک امتحان ہے۔اور یقیناً فلسطینی مسلمان اس امتحان میں کامیاب ہیں، جب کہ کیا دیگر مسلم ممالک بھی فلسطینیوں کی طرح کامیاب ہیں، یہ دیکھنے کے لیے اسرائیل کے مظالم اور اندھی بمباریوں کے سلسلے کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ جاری ہیں یا رُوک دیے گئے ہیں؟! یقیناً ناجائز اسرائیلی ریاست کی بیخ کنی ایک ناگزیر ضرورت ہے، اِس سے جس قدر تساہل، لاپروائی اور غفلت برتی جائے گی، یہود مزید ناسور بنتے جائیں گے۔ جس کا نقصان بلاشبہ قبلۂ اوّل پر اسرائیلی ناجائز قبضے، فلسطینی مسلمانوں کے بے دریغ قتلِ عام اور تمام مسلم دنیا پر یہود کے لایعنی خوف کے چھائے ہوئے بادلوں کی صورت میں مسلمان بھگت رہے ہیں۔
عموماً جہاد بارے غفلت میں ڈوبے ہوئے مسلم معاشروں میں ایک غلط فہمی یہ پھیل گئی ہے کہ “کوئی بھی دوسرا فرد اگر کسی پریشانی، مصیبت اور آزمائش میں مبتلا ہے تو صرف وہی امتحان سے گزر رہا ہے۔ ہمارا اُس کے دُکھ درد سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی بروز قیامت ہم سے اُس مسلمان بھائی کے غم بارے پوچھا جائے گا!
غلط فہمی کی یہ نادانی درحقیقت وہ دیمک ہے، جس نے مسلم تہذیب کے دوسروں سے ہمدردی اور غم خواری کے فرائض اور جذبات و احساسات چاٹ لیے ہیں۔ اب یہاں ہر معاملے میں نفسانفسی کا عالَم ہے۔ اِس افسوس ناک حالت کے حوالے سے حدیث کی مشہور کتاب ‘الادب المفرد’ میں مذکور ایک حدیثِ قُدسی کا سمجھنا انتہائی لازمی ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنہُ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” يَقُولُ اللہُ: اسْتَطْعَمْتُكَ فَلَمْ تُطْعِمَنِي، قَالَ: فَيَقُولُ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ اسْتَطْعَمْتَنِي وَلَمْ أُطْعِمْكَ، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا اسْتَطْعَمَكَ فَلَمْ تُطْعِمْهُ؟ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَطْعَمْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ ابْنَ آدَمَ، اسْتَسْقَيْتُكَ فَلَمْ تَسْقِنِي، فَقَالَ: يَا رَبِّ، وَكَيْفَ أَسْقِيكَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: إِنَّ عَبْدِي فُلَانًا اسْتَسْقَاكَ فَلَمْ تَسْقِهِ، أَمَا عَلِمْتَ أَنَّكَ لَوْ كُنْتَ سَقَيْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي، قَالَ: يَا رَبِّ، كَيْفَ أَعُودُكَ، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُلَانًا مَرِضَ، فَلَوْ كُنْتَ عُدْتَهُ لَوَجَدْتَ ذَلِكَ عِنْدِي؟ أَوْ وَجَدْتَنِي عِنْدَهُ؟ ”
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی روزِ قیامت فرمائیں گے:
اے بندے! مَیں نے تجھ سے کھانا طلب کیا، لیکن تُو نے مجھے نہیں کھلایا۔ بندہ کہے گا: اے میرے رب! تُو نے مجھ سے کیسے کھانا مانگا تھا اور مَیں نے تجھے نہیں کھلایا تھا، جب کہ تُو تو رب العالمین ہے؟! اللہ تعالی فرمائیں گے: تُو نہیں جانتا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تُو نے اُسے نہیں کھلایا تھا۔ تُو نہیں جانتا کہ اگر تُو اُس کو کھلاتا تو اس کو میرے پاس پاتا۔ اے ابنِ آدم! مَیں نے تجھ سے پانی طلب کیا، لیکن تُو نے مجھے نہیں پلایا۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مَیں تجھے کیسے پلاتا، جب کہ تُو تمام جہانوں کا رب ہے۔ اللہ تعالی فرمائیں گے: میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا، لیکن تُو نے اُسے نہیں پلایا۔ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تُو اُسے پانی پلاتا تو اس کو میرے پاس پا لیتا؟ اے ابنِ آدم! مَیں بیمار ہوا تو تُو نے میری تیمارداری بھی نہیں کی۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! مَیں کیسے تیری تیمارداری کرتا، جب کہ تُو تمام جہانوں کا رب ہے؟ اللہ تعالی فرمائیں گے:کیا تَو نہیں جانتا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا۔ اگر تُو اس کی تیمارداری کرتا تو اس کو میرے پاس پالیتا یا تُو مجھے اس کے پاس پاتا۔
مذکورہ بالا حدیثِ قُدسی سے ایک طرف جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بے کس اور لاچار کی مدد کرنا اِس قدر اہم معاملہ ہے کہ حق تعالی بندے کی پریشانی، بیماری اور بھوک کی نسبت خود کی طرف کر کے جتا رہے ہیں کہ تم نے اخوت و بھائی چارے کا یہ فرض ادا نہیں کیا۔ وہیں دوسری طرف یہ امر بھی اُجاگر ہوتا ہے کہ حق تعالی یہ پوچھ تاچھ اُنہیں لوگوں سے فرمائیں گے، جو مذکورہ معاملات کے حوالے سے صاحبِ حیثیت اور طاقت و قوت کے حامل ہوں گے۔ چوں کہ اگر فلسطین اور حماس ایک سخت آزمائش سے گُزر رہے ہیں تو یہ آزمائش صرف حماس اور فلسطین کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ امتحان دیگر مسلمانوں کے لیے بھی ہے کہ وہ پریشانی اور دُکھ کی اِس گھڑی میں کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟ کیا وہ ظالم اسرائیل کے ہاتھ روک کر مظلوم فلسطینیوں کی مدد کر رہے ہیں یا یہود کو کھلی چُھوٹ دے کر مسلمانوں کی زندگی کو مزید تنگ کرنے کا باعث بن رہے ہیں؟ اس حالت میں دیگر مسلمانوں کا کیا کردار ہے، یہی وہ سوال ہے، جو بروز قیامت صاحب استطاعت مسلم حکمرانوں کے گریبان پکڑ لے گا۔
لہذا اگر اسلحے کے موازے کے حوالے سے حماس اپنی کمزور ترین حالت کے باوجود اسرائیل کو اِس قدر سنگین نقصان پہنچا سکتا ہے کہ یہودی بِلبِلا اُٹھے ہیں تو اگر اِسی حماس کی مدد کے لیے ترقی یافتہ اور اسلحے کے مختلف ذخائر رکھنے والے مسلم ممالک اپنی ذمہ داری ادا کریں تو اسرائیل کی تباہی میں کیا شک کیا جا سکتا ہے؟! البتہ بنیادی طور پر یہ معاملہ صرف اپنے ایمان کی کیفیت کا ہے کہ وہ کمزور ہے یا مضبوط؟ یہ اُس احساس کا سوال ہے، جس کی بنیاد پر تمام مسلمانوں کو ایک جسم کے مانند قرار دیا گیا ہے کہ جب جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو تمام جسم درد محسوس کرتا ہے۔ لہذا دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک جسم بنانے والی روح صرف اسلام ہے۔ اگر مسلم جسم کا کوئی عضو دُکھ میں ہو اور باقی جسم اُس خستہ حالی سے نہیں تڑپتا تو یہ یقیناً روح (اسلام) کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
اگر آج اسرائیل اپنے سنگین ترین مظالم کے باوجود خوش قسمتی سے قائم ہے تو اسرائیل کی اِس خوش قسمتی کو “مسلمانوں کے باہمی انتشار” کا نام دیا جا سکتا ہے۔