اشرف غنی عوام  کا مجرم ہے

آج کی بات: انسانی حقوق کی بین لاقوامی تنظیم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اشرف غنی کے نائب جنرل دوستم کو  انسانی حقوق پامال کرنے کا سب سے بڑامجرم قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دوستم نے فاریاب میں سرچ آپریشن کے نام پر درجنوں عام شہریوں کو شہید،گھروں کو نذرآتش اور لوگوں پر  مختلف […]

آج کی بات:

انسانی حقوق کی بین لاقوامی تنظیم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں اشرف غنی کے نائب جنرل دوستم کو  انسانی حقوق پامال کرنے کا سب سے بڑامجرم قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دوستم نے فاریاب میں سرچ آپریشن کے نام پر درجنوں عام شہریوں کو شہید،گھروں کو نذرآتش اور لوگوں پر  مختلف بہانوں سے بے تحاشا تشدد کیا ہے۔

تنظیم کے نائب سربراہ ’فلیم کین‘ کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے یہ رپورٹ علاقے میں عینی شاہدین سے پوچھ گچھ کے بعد مرتب کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوستم نے نہ صرف فاریاب، بلکہ شمالی صوبوں میں بھی بڑے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔‘

گزشتہ ماہ ضلع پشتون کوٹ کے  قبائلی عمائدین نے میڈیا کو بتایا کہ جنرل دوستم نے مجاہدین کے خلاف آپریشن کے نام پر 70 شہریوں کو شہید کیا ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ جب کہ 300 سے زیادہ شہریوں کو گرفتار کر کے اُن کے گھروں کو آگ لگا دی ہے۔ اس کے بعد صوبہ سرِپُل کے قبائلی عمائدین دوستم کے مظالم سے تنگ آ کر کابل پہنچ گئے اور میڈیا کو بتایا کہ ہمارے صوبے میں دوستم کی خونخوار ملیشیا نے مجاہدین سے تعلق کے جرم میں متعدد شہریوں کو شہید کر دیا ہے۔ مختلف گھروں کو تلاشی کے بہانے لوٹ لیا گیا ہے۔ اور گھر کے افراد کو بلاوجہ گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہمارے علاقے  میں آئیں، تاکہ لوگوں کی حالت زار کا خود مشاہدہ کریں۔ شمال میں جہاں دوستم   نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے تو جنوب میں بھی ایک اور جاہل اور ظالم امریکی کاسہ لیس جنرل عبدالرازق نے ظلم و سربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ قندھار  کے شہریوں کے مطابق صرف رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران جنرل عبدالرازق نے 100 سے زیادہ شہریوں کو اپنی خفیہ جیلوں میں  شہید کیا ہے۔ یاد رہے ان شہداء میں خواتین، بچے  اور بزرگ  بھی شامل ہیں۔ جنرل رازق کے جرائم اتنے واضح ہیں کہ دن دیہاڑے لوگوں کو گاڑیوں، گھروں اور دوکانوں سے اغوا کیا جاتا ہے۔ انہیں اپنی خفیہ جیلوں میں نامعلوم  مدت تک رکھا جاتا ہے،بعد میں کسی کو بھاری رقم کی ادائیگی کے بعد رہائی  نصیب ہوتی ہے، لیکن کسی کو  ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے۔

لوگ جنرل عبدالرازق کے جرائم سے اب اس حد تک واقف ہو چکے ہیں کہ اگر ان کے خاندان کا کوئی فرد جنرل عبدالرازق کے وحشیوں کے ہاتھ گرفتار ہو جائے  اور اس  سے رابطہ نہ ہو سکے  تو  وہ لواحقین قندھار شہر کے قریب کچھ مخصوص علاقوں میں جاتے ہیں، جہاں جنرل عبدالرازق کے  درندے ہمیشہ لوگوں کی لاشیں پھینکتے ہیں۔ وہاں ان کے رشتہ دار کی تشدد زدہ  لاش پڑی ہوتی ہے۔ گویا قندھار کا وہ مخصوص علاقہ ’کچرا دان‘ کے طرز پر ’لاش دان‘ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ مثال کے طورپر قندھار  کے قریب  میان کوہ، ابراہیم خلیفہ بابا، زوڑشار اور دریائے ترنک کے ساحلی علاقوں میں ہمیشہ   رازق کے  تشدد سے شہید ہونے والے شہریوں کی لاشیں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔

افغانستان کے مختلف علاقوں میں  اس وقت اعلیٰ عہدوں پر امریکا نے انہی سابق کمیونسٹ افراد کو مسلط کیا ہے، جو گزشتہ دور میں قتلِ عام، لوٹ مار اور مقدس مقامات کی بے حرمتی میں  ملوث پائے گئے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھراپنےپرانے جرائم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق، بچوں اور خواتین کے حقوق کے نعرے لگانے والی نام نہاد تنظیمیں ان جرائم پیشہ افراد کو تعاون فراہم کرتی ہیں۔ انہیں اسلحہ اور رقم فراہم کی جاتی ہے، تاکہ وہ اپنے مظالم جاری رکھ سکیں۔ اب دنیا کے محکوم  اور مظلوم عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ مغربی جمہوریت اور انسانی حقوق کے نعرے استعماری قوتوں  کا وہ جال ہیں، وہ جس میں مظوم عوام اور خودمختار ممالک کو پھنسا کر اپنی ظالمانہ جارحیت کا نشانہ بناتے ہیں۔ افغانستان اور عراق کے  حالات اس کی واضح مثالیں ہیں۔ جہاں عوام ان استعماری قوتوں اور ان  کے تربیت یافتہ جرائم پیشہ افراد کی سربریت برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ اور یہ سب کچھ اشرف غنی کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔