اشرف غنی عوام کی تعلیم کا بھی دشمن ہے

آج کی بات:   دشمن ہمیشہ امارت اسلامیہ پر ‘تعلیم دشمنی’ کا الزام لگاتا رہا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امارت اسلامیہ نے تعلیم و تربیت کے نام  سے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دے رکھا ہے، جو افغانستان سمیت دیار ہجرت میں افغان مہاجرین کو اسکولوں، مدارس، کالجز اور اعلیٰ تعلیم کے  حصول […]

آج کی بات:

 

دشمن ہمیشہ امارت اسلامیہ پر ‘تعلیم دشمنی’ کا الزام لگاتا رہا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ امارت اسلامیہ نے تعلیم و تربیت کے نام  سے ایک خصوصی کمیشن تشکیل دے رکھا ہے، جو افغانستان سمیت دیار ہجرت میں افغان مہاجرین کو اسکولوں، مدارس، کالجز اور اعلیٰ تعلیم کے  حصول کے لیےراہ ہموار کرتا ہے ۔

دجالی اور یہودی غلام میڈیا ہمیشہ مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجاہدین اسکولوں کو تباہ کرتے ہیں۔ اساتذہ کو قتل کرتے ہیں۔ طلباء پر تشدد کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر عوامی فلاح و بہبود کے کاموں کے سخت مخالف ہیں۔ یہ پروپیگنڈہ اتنا زیادہ کیا گیا ہے کہ  اب کچھ لوگ شعوری اور لاشعوری طورپر اسے حقیقت سمجھنےلگے ہیں، جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ امارت اسلامیہ نے کئی مرتبہ نہ صرف اسکولوں کی تباہی میں اپنے مجاہدین  کے ملوث ہونے کی تردید کی ہے، بلکہ اپنے رسمی اعلامیوں میں تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایسے عناصر کو قوم کے مستقبل کا دشمن قرار دیا ہے۔ یاد رہے افغان شہریوں نے کئی مرتبہ شکایت کی ہے کہ متعدد اسکولوں  میں  کٹھ پتلی اشرف غنی کے اہل کاروں نے عسکری مقاصد کے لیے چوکیاں بنا رکھی  ہیں، جس کی وجہ سے نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کے راستے  میں سخت قسم کی رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔

مصدقہ اطلاعات کے مطابق افغانستان کے کئی علاقوں میں کابل کے کٹھ  پتلی اہل کار نہ صرف تعلیمی اداروں  کو جنگی محاذ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، بلکہ کئی مواقع پر  تعلیمی اداروں کو تباہ  بھی کیا ہے۔ اشرف غنی کی غلامانہ اجارہ داری  کے باعث مختلف بہانوں سے تعلیمی  اداروں کو ہراساں، جب کہ طلباء پر تشدد  کرتے ہوئے کئی ایک کو بلاوجہ قتل بھی کر دیتے ہیں۔ اس گمبھیر صورت حال کی وجہ سے بچوں کے والدین اور تعلیمی اداروں کے سربراہان سخت اذیت سے دوچار ہیں۔ شہری سوچ رہے ہیں کہ جب کہ اشرف غنی جیسوں کی جارحیت ننگا ناچ ناچتی رہے گی، تب تک ہم اپنے بچوں کو پُرامن ماحول میں اعلی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا اپنا فطری خواب شرمندۂ تعبیر ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح جارحیت پسندوں اور کابل ادارے کی ریاستی دہشت گردی سیاگرد، قاضی قلعہ، غازی آباد، نورستان اور قندھار وغیرہ میں مسلسل طور پر نظام تعلیم کے لیے نقصان دِہ ثابت ہو رہی ہے۔ یہ ہتھیار بردار فوجی، پولیس، اربکی اور ایجنسی والے اسکولوں پربمباری کرتے ہیں، جب کہ کئی واقعات میں طلباء  کو براہِ راست فائرنگ کا نشانہ بنایا ہے۔ انسانی حقوق کی  بین الاقوامی تنظیم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ کابل ادارے کے اہل کار اسکولوں  میں چوکیاں بنا کر انہیں بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ  کے مطابق انسانی حقوق کے ارکان نے ایسی پندرہ جگہوں کی نشان دہی کی ہے، جہاں کابل ادارے کے اہل کار اسکولوں میں چوکیاں بنا کر گویا تعلیم سے دشمنی کر رہے ہیں۔

اس تنظیم نے کابل ادارے کو خبردار کیا ہے کہ ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پاس داری کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال  کرنے سے رُکا جائے۔ جارحیت پسندوں اور ان  کے  کاسہ لیسوں کی جانب سے اسکولوں، اساتذہ اور طلباء کو نشانہ بنانا، انہیں ہراساں کرنا، اسکولوں میں فوجی چوکیاں بنا کر انہیں جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنا وہ عوامل ہیں، جنہوں نے افغان بچو ں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے کی راہ میں سخت مسلح رکاوٹیں اور مشکلات کھڑی کر دی ہیں ۔

اسی طرح تعلیم کی راہ میں ایک اَور رکاوٹ کابل کے وہ غلام اور کرپٹ عناصر ہیں، جنہیں ان تعلیمی  اداروں میں  رقابت اور رشوت کے بدلے تعینات کیا گیا ہے، جب کہ دوسری جانب دیہی علاقوں میں کٹھ پتلی کمانڈروں، قبائلی رہنماؤں اور علاقائی ملیشیا کے درمیان انفرادی مفادات کے حصول کی کشمکش میں تعلیمی اداروں میں علمی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں۔ اور بچوں کو علم کی روشنی سے محروم رکھ کر جہالت کے اندھیروں میں دھکیلا جا رہا ہے، لیکن یہاں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قوم دشمنی کے یہ سب مناظر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی سربراہی اور سرپرستی میں انجام دیے جا رہے ہیں۔ یقینا یہ صورت حال اشرف غنی کو عوام کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے معاملے کا دشمن ثابت کرتی ہے!