امارت کی فتوحات سے دشمن ہراساں ہوگیا

آج کی بات: امارت اسلامی کے مجاہدین نے   عمری آپریشن کے سلسلے میں جارحیت پسندوں اور ان کے  داخلی  کاسہ لیسوں کے خلاف  افغانستان کے طول و عرض  میں  وسیع علاقوں سے دشمن کا صفایا کر دیا ہے۔ اب وہاں امن و آشتی کا سفید پرچم لہرا رہا ہے۔ لوگ اس بات میں بہت خوش […]

آج کی بات:

امارت اسلامی کے مجاہدین نے   عمری آپریشن کے سلسلے میں جارحیت پسندوں اور ان کے  داخلی  کاسہ لیسوں کے خلاف  افغانستان کے طول و عرض  میں  وسیع علاقوں سے دشمن کا صفایا کر دیا ہے۔ اب وہاں امن و آشتی کا سفید پرچم لہرا رہا ہے۔ لوگ اس بات میں بہت خوش ہیں کہ اُنہیں ایک مرتبہ پھر شریعت کی ٹھنڈی اور مہکتی بہاروں میں سانس لینے کا موقع مل رہا ہے۔

موجودہ فتوحات کا کامیاب سلسلہ بدخشان کے ضلع خاش سے شروع ہو کر ہلمند کے ضلع خانشین،قندوز کے ضلع قلعہ ذال، ہرات کے شین ڈنڈ، کابل کے نارتھ گیٹ ہوٹل، دای کنڈی، میدان وردگ، لوگر، پکتیا، ننگرہار اور کنڑ تک پھیل گیا ہے۔ مذکورہ صوبوں میں دشمن سے بہت سے علاقے چھڑا لیے گئے ہیں۔ دشمن کو شدید جانی اور مالی نقصانات پہنچنے کے علاوہ مجاہدین کو بے شمار غنیمتیں بھی ملی ہیں۔ قندوز کاقلعہ ذال اور ہلمند کا ضلع سنگین مکمل طور پر فتح کیے جا چکے ہیں اور اب وہ مجاہدین کے مکمل کنٹرول میں ہیں۔ اس کے علاوہ ہلمند کاضلع نادعلی، گرمسیر اور ناوہ کے وسیع علاقوں سے بھی دشمن کا صفایا ہو چکا ہے اور مجاہدین کی  پیش قدمی  جاری ہے۔ اسی طرح قندوزکے ضلع دشت آرچی،امام صاحب اور مرکز سے ملحق کچھ علاقوں میں مجاہدین نے بہت پیش قدمی کی ہے۔ دشمن کو بھاری نقصانات پہنچائے ہیں، جس سے دشمن فرار ہونے پر مجبور ہو گیا ہے۔

مجاہدین نے بدخشان کے ضلع خاش، بہارک، وردوج سمیت کئی دیگر اضلاع  میں میں دشمن کی افواج کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے۔ اہم چوکیاں اور  مراکز مجاہدین کے قبضے میں آگئے ہیں، جن میں موجود متعدد امریکی کٹھ پتلی اہل کار ہلاک ہوگئے ہیں، جب کہ زندہ بچ جانے والوں نے فرار میں ہی اپنی عافیت جانی۔ فراہ کے مختلف اضلاع پشت رود، بالابلوک، بکواہ اور انار درہ سمیت کئی اہم اور تزویراتی اہمیت کے حامل علاقوں  پر مجاہدین کا قبضہ ہے۔ اب ان علاقوں میں امارت اسلامی کی حکومت قائم ہے۔ ان اضلاع کی فتح کے دوران دشمن کو شدید جانی اور مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ التبہ مجاہدین کی جانب سے اب بھی دشمن کا تعاقب جاری ہے اور اُن کی آخری کٹھ پتلی تک یہ سلسلہ جاری رہےگا۔

اشرف غنی کے دست راست اور نائب جنرل دوستم کی ملیشیا نے فاریاب، جوزجان اور سرپل کے مختلف علاقوں میں آپریشن کیے۔ الحمدللہ! انہیں ہر بار ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا، جس پر وہ بھاری نقصانات اٹھانے کے بعد علاقے سے فرار ہو گئے۔ شہریوں کے گھروں کو لوٹنا اور نذر آتش کرنا، تہی دست شہریوں کو بے دردی سے شہید کرنا اور انہیں بلاوجہ پابند سلاسل کرنا جنرل دوستم کے  اہم کارنامے ہیں۔ یہ ظالم جنرل مجاہدین کے سامنے آنے کی ہمت نہیں رکھتا۔ اب صرف عوام پر بےجا تشدد اور ظلم  سے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں ہے۔ اُس نے ایک مرتبہ پھر شمالی صوبوں میں ماضی کی طرح ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ لیکن اسے اِس ظلم کے دردناک بدلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پکتیا، پکتیکا، میدان وردگ، غزنی، قندھار، روزگان، دای کنڈی، کنڑ اور ننگرہار میں مجاہدین نے بڑی فتوحات حاصل کر لی ہیں۔ اور کئی علاقوں میں فتوحات کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ مفتوحہ علاقوں میں لوگ آرام اور سکھ کی زندگی سے لطف اندوز  ہونے لگے ہیں۔ کیوں کہ وہ کابل کی غلام فوج، پولیس اور درنددہ صفت ملیشیا کے ظلم و ستم سے محفوظ ہو گئے ہیں۔ امارت اسلامی   کے مختلف شعبوں سے منسلک مجاہدین نے مفتوحہ علاقوں میں ترقیاتی اور عوام کی مشکلات ختم کرنے کے سلسلے میں اپنی سرگرمیاں شروع کر لی ہیں، جس سے عوامی حلقوں میں خوشی کا احساس پیدا ہو گیا ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری بھلائی کا سوچنے والے حکمران بھیج دیے ہیں۔ وہ اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے نہیں تھکتے۔ البتہ مشکلات کا ایسا انبار ہے، جس کے تناظر میں مجاہدین نے لوگوں کے مسائل اور مشکلات کو مدِنظر رکھ کر اپنی جہادی و فلاحی سرگرمیوں میں مزید تیزی لائی ہے۔

دشمن کی صف میں خدمات انجام دینے والے وہ تمام افراد، جو مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال کر آئندہ مجاہدین کےخلاف نہ لڑنے اور کفار کا ساتھ دینے سے باز آ جانے کا عزم کرتے ہیں تو مجاہدین ایسے تمام افراد کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ان کی جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں۔ انہیں ایک آزاد اور خود مختار انسان کے طور پر زندگی بسر کرنے کے لیے حتی الوسع اُن کی مالی معاونت بھی کی جاتی ہے۔ جارحیت پسندوں اور کابل کے غلام ادارے میں کام کرنے والے تمام افراد مجاہدین کی اس پیش کش کا فائدہ اٹھائیں، تاکہ دنیا میں عبرت ناک موت اور آخرت میں کفار  کا ساتھ دینے کے جرم میں دردناک عذاب سے نجات پا سکیں۔

حالیہ فتوحات سے دشمن شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔اشرف غنی کے تمام ادارے باہم عدم اعتماد کا شکار ہیں۔ اہل کاروں کے حوصلے پست ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ دشمن کی افواج میں سے سیکڑوں افراد  نے مجاہدین  کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔اس تمام صورت حال نے اشرف غنی کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے اور اب ہر وقت اُن کے چہرے پر لاچارگی اور بے بسی کے مختلف مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔