کابل

حنظلہ نہیں، بلکہ ہم منافق ہو گئے!

حنظلہ نہیں، بلکہ ہم منافق ہو گئے!

 

خزیمہ یاسین

حدیث کی مشہور کتاب مشکوۃ المصابیح میں 2268 نمبر حدیث میں حضرت حنظلہ بن ربیع اُسیدی رضی اللہ عنہ کا نفاق کے حوالے سے وہ معروف واقعہ درج ہے، جس کی بہ زبانِ حنظلہ رضی اللہ عنہ تفصیل سُنیے!
حضرت حنظلہ بن ربیع اُسیدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
“ایک مرتبہ راہ چلتے حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ ملے تو انہوں نے مجھ سے پوچھا:
ارے حنظلہ! سناؤ، کیا حال احوال ہیں؟
مَیں نے عرض کیا:
آپ جس حنظلہ کا حال پوچھتے ہیں، وہ حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔
حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے تعجب کرتے ہوئے فرمایا:
سبحان اللہ! یہ تم کیسی بات کر رہے ہو؟
مَیں نے کہا:
اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی، دیکھیں! جب ہم نبیِ مُصطفیٰ علیہ السلام کی مجلس میں ہوتے ہیں، وہ ہم میں جہنم کا خوف اور جنت کا شوق پیدا کرنے کے لیے ہمیں نصیحت کرتے رہتے ہیں تو ہماری کیفیت ایسی ہوتی ہے، گویا ہم جنت اور جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ البتہ جب ہم رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے واپس آ جاتے ہیں اور بیگم و اولاد اور دنیا کے کاروبار میں مشغول ہوتے ہیں تو ہم یوں محسوس کرتے ہیں کہ گویا جنت و جہنم سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔
حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ میری بات سُن کر فکرمند ہو گئے اور فرمانے لگے:
ارے، اللہ کی قسم! اس طرح تو ہماری بھی یہی صورتِ حال ہے۔
چناں چہ مَیں اور حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ چلتے چلتے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے۔ مَیں نے بارگاہِ رسالت علیہ التسلیمات میں عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔
حضرت رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
معاملہ کیا ہوا ہے؟
مَیں نے عرض کیا:
اے اللہ کے رسول! ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو آپ جنت و جہنم کے حالات سے ہمیں نصیحت فرماتے ہیں۔ تب گویا ہم بہشت و دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا محسوس کرتے ہیں۔ البتہ جب ہم آپ کے پاس سے واپس گھروں کو چلے جاتے اور اپنے مال، بچوں اور ذرائع معاش میں مشغول ہو جاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تب ہماری کیفیت ہی بدل جاتی ہے۔
اس پر حضرت رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
اُس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تمہاری جو کیفیت میرے پاس ہوتی ہے اور تم ذکر کی جس صورت میں ہوتے ہو، اگر تمہاری وہ کیفیت ہمیشہ رہے تو فرشتے تمہارے بستروں پر اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں۔
اس کے بعد آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین مرتبہ فرمایا:
البتہ اے حنظلہ! حالات کے مختلف ہونے سے کیفیات بدلتی رہتی ہیں۔”
٭٭٭٭٭
حضرت حنظلہ بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اس واقعے سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ ایک طرف صحابیِ رسول کی صرف حضور کی مجلس سے اُٹھ کر گھر آنے پر ایمان کی کیفیت اِس قدر تبدیل ہو جاتی ہے کہ وہ بے انتہا اثرانگیز تبدیلی کو نِفاق کی علامت سمجھ رہے ہیں۔
جب کہ دوسری طرف ہم مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ ہمیں حضرتِ نبی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس تو نصیب نہیں ہے، مگر ہم نبی علیہ السلام کے لائے ہوئے دینِ اسلام کی وُرَثا، یعنی علمائے کرام تک کی مجلس میں بھی نہیں بیٹھتے اور اُن سے دین سیکھنے کی کوئی جستجو نہیں کرتے، تب ہماری ایمانی کیفیات کا کیا عالَم ہوگا!؟ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں کی مساجد نمازیوں سے خالی رہتی ہیں۔ جو نماز پڑھنے والے ہیں، وہ نماز میں دل کے سکون اور ذہن کے اطمینان سے محرومی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر کسی کو نماز و اسلامی احکام کی طرف اِس طور متوجہ اور فکرمند کیا جائے کہ بہ روز قیامت اللہ تعالی کو جواب دینا ہے تو وہ سہل اندازی اختیار کرتے ہوئے بے فکری سے کہتے ہیں:
جب قیامت آئے گی تو دیکھ لیں گے! (نعوذ باللہ من ذالک)
اس طرح کے غیرسنجیدہ جملے اور آخرت کی ہولناکی سے لاپروائی بلاشبہ سوالاتِ قبر اور عقائدِ محشر کی اہمیت سے سنگین غفلت کا نتیجہ ہیں۔ یقیناً اس غفلت کے پسِ پردہ دین سے دُوری اور اسلامی تعلیمات سے لاتعلقی کا سبب کارفرما ہے۔
اگر ایک طرف حضرت حنظلہ بن ربیع اُسیدی رضی اللہ عنہ اپنی طرف سے اسلام کی مکمل تابع داری، پانچ وقت کی نمازوں کی سوفیصد پابندی اور اسلام کے ہرہر حکم پر بجاآوری کے بعد صرف دلی کیفیت کی وقتی تبدیلی کی بنیاد پر خود کو منافق سمجھ رہے ہیں تو ہم ایسے مسلمانوں کے ایمان کی کیا حالت ہوگی، جن کے دامن میں اسلام کی نامکمل تابع داری، پانچ فرض نمازوں کی ادائی میں کوتاہی اور اسلامی احکامات پر عمل درآمد سے کنارہ کشی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اگر دل کی ایمانی کیفیات اور عمل میں کوتاہی کے تناظر میں دیکھا جائے تو درحقیقت منافقانہ طرزِعمل کا شکار تو ہم لوگ ہیں۔
اللہ تعالی سب کو دین کی سمجھ عطا فرمائیں۔ آمین