کابل

عیدسعید عیدالفطر کی مناسبت سے عالی قدر امیرالمؤمنین شیخ القرآن والحدیث مولوی ہبۃ اللہ اخندزادہ صاحب حفظہ اللہ تعالی کا پیغام

عیدسعید عیدالفطر کی مناسبت سے عالی قدر امیرالمؤمنین شیخ القرآن والحدیث مولوی ہبۃ اللہ اخندزادہ صاحب حفظہ اللہ تعالی کا پیغام

عیدسعید عیدالفطر کی مناسبت سے عالی قدر امیرالمؤمنین شیخ القرآن والحدیث مولوی ہبۃ اللہ اخندزادہ صاحب حفظہ اللہ تعالی کا پیغام

بسم الله الرحمن الرحیم
الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونتوب إليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله. أما بعد:فقد قال الله تعالي: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (۱۴) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى (۱۵) سورة الأعلی
ترجمہ: بے شک فلاح پاگئے وہ لوگ جو پاک ہوگئے(ایمان کے ذریعے گناہوں سے)۔ اپنے رب کا نام لیا (تکبیر کے ساتھ) پھر نماز ادا کی(جو کہ اسلام کی نشانی ہے)۔
تفسیر کابلی کے حوالے سے کچھ اسلاف نے کہا ہے کہ یہاں تزکیہ سے مراد صدقہ فطر ہے اور ذکر سے مراد تکبیرات عید ہیں۔ نماز سے عید کی نماز مراد ہے۔ یعنی عید کے دن صدقہ فطر ادا کرو، پھر تکبیر کہو اور عید کی نماز ادا کرو۔
عن ابن عباس رضی اللّٰه تعالیٰ عنه قال: في آخر رمضان أخرجوا صدقة صومکم فرض رسول اللّٰه ﷺ هذہ الصدقة صاعاً من تمر او شعیر او نصف صاع من قمح علی کل حرٍ او مملوکٍ ذکرٍ او أنثی، صغیرٍ او کبیرٍ. [رواه ابوداؤد]
ترجمہ: روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رمضان کے آخری دنوں میں لوگوں سے کہا: تم لوگ اپنے روزوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔ یعنی صدقہ فطر ادا کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ صدقہ ہر مسلمان آزاد، غلام، باندی، مرد، عورت اور بچوں پر کھجور اور جو کے ایک صاع اور گندم میں آدھے صاع کے ساتھ فرض (واجب) قرار دیا ہے۔
و عنه قال: فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طُهرةً للصائم من اللغو والرفث، وطعمةً للمساكين. [رواه ابوداؤد]
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بے ہودہ گفتگو اور لغو کلام سے پاک کرنے کے لیے اور غریبوں کو کھلانے کے لیے صدقہ فطر لازم قرار دے دیا ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ . [متفق علیه]
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ایمان کے ساتھ (شریعت کو سچ سمجھتے ہوئے اور رمضان کی فرضیت کے اعتقاد کے ساتھ) اور طلب ثواب کے لیے (ریا کے لیے نہیں بلکہ خالص اللہ تعالی کے لیے) روزہ رکھےاس کے گناہ بخش دیے جاتے ہیں، جو اس نے پہلے کیے ہوتے ہیں۔

افغانستان کے مومن و مجاہد عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام!
السلام علیکم ورحمۃ الله وبرکاتہ!
وبعد:
میں تمام مسلمانوں کو عیدالفطر کی مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ تعالی تمہارے روزے، تراویح، صدقہ فطر، دعائیں اور دیگر بدنی و مالی عبادات قبول فرمائے۔

محترم بھائیو!
سب سے پہلے اللہ تعالی کا شکر ادا کریں کہ جس نے ہمیں اسلامی شرعی نظام نصیب فرمایا ہے اور ہم روشن مقدس نظام کے سائے میں زندگی گذار رہے ہیں۔ اللہ تعالی کے فضل سے ہم نے امن کی فضا میں روزہ رکھا اور آج ہم عید الفطر کی نماز ادا کررہے ہیں اور یہ خوشی امن کی فضا میں منا رہے ہیں۔
الله تعالی کا پاک ارشاد ہے: لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (آیة ۷ سورة ابراهیم).
ترجمہ: اگر تم گذشتہ نعمتوں اور احسانات پر شکر ادا کرو تو ضرور بالضرور میں تمہاری نعمت میں اضافہ کروں گا۔ اور اگر تم ناشکری کرو گے میری نعمتوں اور احسانات کا، تو بے شک میرا عذاب بہت سخت ہے۔
الله تعالی کا فرمان ہے: قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (۵۸)[سورة یونس]
ترجمہ: کہہ دو (اے محمد) مؤمنوں سے کہ خوش رہیں اللہ کے فضل(قرآن) سے اور اس کی رحمت(دین) سے۔
اللہ تعالی سے اسی فضل اور رحمت پر مؤمن خوش ہوں۔ کیوں کہ یہ فضل اور رحمت بہت بہتر ہے ان مالوں سے جو یہ لوگ جمع کررہے ہیں۔ اس لیے مؤمنوں کو اس پر بہت خوش ہونا چاہیے کیوں کہ یہ مذکورہ چیزیں جوکہ قرآن کریم، اسلام اور دیگر مقدسات ہیں بہت بہتر اور اعلی ہیں۔ (تفسیر کابلی)
جس پر نعمت پر شکر ادا کیا جائے اللہ تعالی اس نعمت میں اضافہ کردیتے ہیں اور اگر خدا نخواستہ ناشکری ہوجائے تو اللہ تعالی نے عذاب کی تنبیہ کی ہے جو بہت بڑا خطرہ ہے۔ اس لیے میں اپنے مسلمان بھائیوں کو تاکید کرتا ہوں کہ اللہ کا شکر ضرور ادا کریں۔ ہمیشہ اللہ تعالی کے شکر گذار بندے رہیں۔ اللہ تعالی کا دیا ہوا شرعی نظام، امن، اخوت اور اتحاد یہ سب وہ کچھ ہے جس سے ہم عشروں سے محروم ہیں۔ آج جب اللہ تعالی نے یہ نعمتیں ہمیں دی ہیں تو پہلے اس پر شکر ادا کریں۔ اس کی حمایت میں مضبوطی سے کھڑے ہوں۔ اس کی حمایت کریں، اس کی اصلاح کریں اور اس سے خیرخواہی رکھیں۔
سب سے زیادہ علما کی ذمہ داری ہے کہ سب لوگوں کو اور امارت اسلامیہ کے ذمہ داران کو اللہ تعالی کی بندگی کی طرف متوجہ رکھیں۔ ان کی اصلاح کرتے رہیں، انہیں بہتر مشورے دیں، انہیں نصیحت کریں اور ان کی خیرخواہی کریں، ہمیشہ انہیں عبادت کی طرف دعوت دیں۔
مساجد کے ائمہ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے نمازیوں اور ان کے بچوں کو عقائد اور اعمال واخلاق سکھانے اور ان کی اصلاح و تربیت کی طرف روزانہ کی بنیاد پر متوجہ ہوں۔ ان پر مسلسل محنت کریں، خصوصاً معاصر فتنوں سے انہیں بچائیں۔

اسلامی شریعت کا نفاذ:
اسلام کے ایک مقدس رکن جہاد فی سبیل اللہ کا اہم ہدف اعلاء کلمۃ اللہ اور اسلامی شریعت کی تنفیذ ہے۔ امارت اسلامیہ بھی مقدس جہاد کے اہداف کے حصول اور مجاہدین کی قربانیوں کے تحفظ کے لیے اسی بنیادی ہدف کو ترجیح دیتی ہے۔ اس کے حصول کے لیے مختلف کوششیں اس وقت جاری ہیں۔ انصاف کا قیام، شرعی حدود و تعزیرات اور شرعی محاکم کا قیام شریعت کے اصولوں کے مطابق بلا تفریق قائم کی جارہی ہیں۔ ظلم کا خاتمہ اور مظلوم کا دفاع کیا جارہا ہے۔
منکرات کی روک تھام اور معروف کے قیام کے لیے امربالمعروف و نہی عن المنکرو سمع شکایات کی وزارت شرعی اصولوں کے مطابق مذکوہ مقدس ذمہ داری ادا کررہی ہے۔ صوبوں میں علما کونسلز صوبائی حکام کے کاموں میں شرعی احکام پر عمل درآمد اور انہیں اچھے مشورے فراہم کرنے، علما کے درمیان اتحاد و اتفاق کے قیام اور عوام اور حکومت کے درمیان اعتماد سازی کے لیے ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق مصروف کار ہیں۔ صوبائی حکام بھی علما کونسلز کی اطاعت کے مکلف کردیے گئے ہیں۔ صوبوں کے بعد اس طرح کے کونسلز کے قیام کا سلسلہ اب اضلاع کی سطح پر بھی شروع کردیا گیا ہے۔ تدریجی طور پر پورے ملک میں تمام اضلاع میں علماکرام اور قبائلی عمائدین کے کونسلز قائم کیے جائیں گے۔
عدالتوں کا دفاع، اس کے فیصلوں پر اطمینان و اعتماد اور انہیں تسلیم کرنا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی نصائح پر عمل درآمد اور مختلف امور میں ان سے تعاون اور انفرادی اور اجتماعی طور پر شریعت کو تسلیم کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

تعلیم و تربیت:
نئی نسل کی دینی اور اس کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم کے لیے تمام صوبوں اور اضلاع میں وزارت تعلیم کی تشکیلات فعال ہیں اور سینکڑوں دینی،علمی مراکز فعال کردیے گئے ہیں۔ تمام یتیموں کی پرورش، تعلیم اور بہتر کفالت کے لیے ہر صوبے اور بہت سے اضلاع میں دارالایتام قائم کی گئی ہیں۔ جس کا انتظام ایک باقاعدہ محکمہ سنبھال رہا ہے۔
اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرنا، انہیں تعلیم دینا اور انہیں یہ مواقع فراہم کرنا کہ وہ دینی تعلیمات سیکھ سکیں یہ ہرمسلمان بھائی کی ذمہ داری ہے۔

امن و امان:
افغانستان کئی عشرے بدامنی، بدحالی اور مشکلات میں گذار چکا ہے۔ بہت سی پریشانیوں، قربانیوں اور تکالیف کے بعد اللہ تعالی نے اسے ایک بڑے انعام سے نوازا ہے کہ یہاں امن و امان کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ ظاہری طورپر بھی امن و امان و سکون ہے اور باطنی و روحانی طور پر بھی۔ ظاہری امن یہ ہے کہ لوگوں کے جان، مال اور عزتیں محفوظ ہیں۔ باطنی امن یہ ہے کہ آزادی اور خودمختاری آگئی ہے۔ یہ اللہ تعالی کی بڑی نعمت ہے۔ اب آپ سب لوگ ان دونوں طرح کے امن کا تحفظ کریں گے۔ سیکیورٹی حکام کے ساتھ ہر طرح کا تعاون کریں گے۔ اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر کریں گے۔ کیوں کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس کا مکلف بنایا ہے کہ اچھے کاموں میں لوگوں سے تعاون کریں گے اور برے کاموں میں کسی سے تعاون نہیں کریں گے۔ اس لیے مفسدین کی روک تھام کریں۔ امن کا قیام تمھاری ذمہ داری ہے۔ اگر کسی کا ناحق خون بہتا ہے تو سب اس کے ذمہ دار ہوں گے۔ کیوں کہ ہر مسلمان کو اللہ تعالی نے اس کا مکلف کیا ہے کہ برائی کو روکے۔ آپ اپنے شہر اور گلی کوچے کی حفاظت کی طرف متوجہ رہیں اور سیکیورٹی اداروں سے بھرپور تعاون کریں۔

معیشت:
اسلامی نظام اور اس کی قیادت کی شرعی ذمہ داریوں میں اپنی رعایا کی معاشی حالت پر توجہ دینا اور انہیں احتیاج اور غربت سے نکالنا بھی شامل ہے۔ تاکہ ہر شہری اپنے ہاتھوں اپنا رزق کمانے کے قابل ہو۔ امارت اسلامیہ ممکنہ حد تک پوری کوشش کررہی ہے کہ فیکٹریاں شروع کی جائیں اور عوامی منفعت کے کام شروع کیے جائیں۔ تاکہ لوگوں کو نفقہ اور رزق مہیا ہو۔
کسی حد تک یہ کوششیں جاری ہیں اور کچھ منصوبوں پر کام ہورہا ہے۔ آپ بھی بے دست و پا نہ بیٹھیں! کوشش کریں انفرادی اور اجتماعی طورپر روزگار کے لیے مواقع پیدا کریں۔ آپس میں مل کر چھوٹی بڑی کمپنیاں قائم کریں۔ کھیتی باڑی اور صنعتوں کے لیے راہیں ہموار کریں۔ امارت اسلامیہ کے ساتھ مل کر اپنے ملک کی معیشت کو مضبوط کریں۔ امارت اسلامیہ بھی بھرپور کوشش کررہی ہے کہ آپ کے کھیت کلیان کو پانی مہیا کرے اور صنعتوں کے قیام کے لیے بہتر سہولیات فراہم کرے۔ ہمارا توکل اللہ تعالی پر ہوگا۔ آپ وہ تمام جائز راستے جو رزق پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں انہیں اختیار کریں۔ ناجائز معاملات سے پرہیز کریں۔ حلال مال کمائیں۔ غیروں پر بھروسہ نہ کریں اور نہ کسی کی امداد کی امید پر بیٹھے رہیں۔

ہرفریق سے شریعت کے مطابق رویہ:
امارت اسلامیہ افغانستان اپنی اسلامی شرعی پالیسی کے مطابق سب کے ساتھ دو طرفہ احترام کی بنیاد پر اچھے تعلقات چاہتی ہے اور سب سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ امارت اسلامیہ کے اس نیک نیت اور ارادے کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھے۔ ہمارا وعدہ، وعدہ ہے۔ ہم ان سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ افغانستان کی سرحدات، مفادات اور عزت کا خیال رکھیں اور ہم سے اچھے تعلقات رکھیں۔
ہم خطے کے ممالک کے ساتھ اسلام کے مقدس دین کی روشنی میں متوازن اور اقتصاد پر مبنی (Economy oriented) سیاسی تعلقات کی پالیسی چاہتے ہیں۔ ہم سب کے ساتھ اچھے سفارتی اور معاشی تعلقات چاہتے ہیں۔ انہیں بھی افغانستان کے امن و امان، استحکام اور ترقی کو بہتر موقع سمجھ کر اچھے تعلقات قائم کرنے چاہییں اور اعتماد کی فضا اور تعاون کی روح پر مبنی پالیسی اختیار کرلینی چاہیے۔ امارت اسلامیہ کی وزارت امور کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک سے اچھے اطمینان اور اعتماد کی فضا میں تعلقات قائم کیے جائیں۔
اسلامی دنیا سے امارت اسلامیہ کے تعلقات اسلامی اخوت کی بنیاد پر قائم ہیں۔ ’’سارے مسلمان ہمارے بھائی ہیں‘‘کے اصول کے پیش نظر ہمارا آپس میں مشترک دین، عقائد اور اعتماد کا رشتہ ہے۔ ہمارے مفادات مشترک ہیں۔ اس لیے ہماری پالیسی اور نقطہ نظر بھی مشترک ہونا چاہیے۔ ایک دوسرے کے درد اور غم میں شریک ہوں اور اپنی بساط کے مطابق ایک دوسرے سے تعاون کریں۔
اس طرح کا متفقہ موقف ہم سب کے مشترک مسائل کم اور حل کرسکتا ہے۔ امارت اسلامیہ ایسی ایک فضا قائم کرنا چاہتی ہے۔

فلسطین:
فلسطین کا قضیہ پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ ہم غزہ پر اسرائیلی جارحیت کی ایک بار پھر مذمت کرتے ہیں۔ پوری اسلامی دنیا بلکہ عالمی دنیا سے مطالبہ کرتا ہوں کہ جلد از جلد اسرائیلی جارحیت پسندوں کے ظلم کا راستہ روکے، تاکہ وہاں ظلم اور جارحیت کا خاتمہ ہو۔ خصوصاً امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ مظلوم فلسطینیوں کے موقف کی حمایت کریں اور بیک آواز اپنے وسائل و امکانات کے مطابق فلسطینیوں کا ساتھ دیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے دعویدار فلسطین پر ہونے والے مظالم کا تماشہ کررہے ہیں۔ اب تک کسی عالمی فریق نے ان مظالم کے خاتمے کے لیے عملی قدم نہیں اٹھایا اور اس بڑے سانحے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔

منشیات کا خاتمہ:
امارت اسلامیہ کی جانب سے اپنی شرعی ذمہ داری کے مطابق ملک میں منشیات کی کاشت پر پابندی اور عوام کی جانب سے امارت اسلامیہ کے حکم پر عمل درآمد بڑی کامیابی ہے۔ امارت اسلامیہ کے عزم کے ساتھ کام کا پایہ تکمیل کو پہنچ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ امارت اسلامیہ کو اس کے عوام کی حمایت اور اعتماد حاصل ہے۔ یہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ افغانستان منشیات سے پاک ہورہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ کابل اور ملک کے دیگر صوبوں میں منشیات کے عادی افراد کو جمع کرکے علاج کے بعد صحت و تندرستی کے ساتھ ان کے خاندانوں کے حوالے کرنا دوسری شرعی ذمہ داری ہے جو امارت اسلامیہ نے ادا کی ہے اور اپنے ملک و ملت کے ایک بڑے حصے کے لوگوں اور ان کے خاندانوں کی تکالیف اور پریشانیوں کا سد باب کیا گیا ہے۔

امارت اسلامیہ کے تمام حکام اور مجاہدین کے نام:
آپ سب کو ذیل میں کچھ نصیحتیں کی جارہی ہیں۔ اس پر عمل کریں اور ہر ذمہ دار اپنے ماتحتوں کے ساتھ اسے شریک کرے، تاکہ ہم اپنے عوام کی اچھی خدمت کرسکیں، ان سے اچھا رویہ اپنا سکیں اور ان کے شرعی حقوق مہیا کریں۔
۱ – تمام ذمہ داران اپنے کاموں کی طرف اچھی طرح متوجہ رہیں۔ افغانستان کے شہریوں کے کام ہر وزارت، محکمہ اور صوبائی حکام سے وابستہ ہیں۔ اگر کوئی ذمہ دار اور حاکم اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں غفلت برتتا ہے تو اس سے بہت سے انسانوں کے حقوق ضائع ہوں گے اور ذمہ داران اور حکام کی غفلت کے لیے شریعت میں کوئی عذر قابل قبول نہیں۔
۲ – ذمہ داران اور حکام آپس میں بھائی چارے اور اخوت کے ساتھ رہیں۔ اختلاف اور انا پرستی سے بچتے رہیں۔ اسی سے جہاد کا ثمرہ جو کہ اسلامی نظام کی حاکمیت ہے محفوظ ہوگا۔ سوویت یونین کے خلاف افغانستان کا جہاد کامیاب ہوگیا تھا۔ سوویت یونین شکست کھا گیا تھا۔ مگر حکام اور ذمہ داران میں اتحاد و اتفاق نہیں تھا، انا پرستی تھی، اس لیے جہاد کے ثمرات حاصل نہ ہوسکے، اسلامی نظام حاکم نہ ہوسکا اور افغانستان کو بہت سے پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
۳ – امن و امان اس سے قائم نہیں ہوگا کہ لوگوں پر سختی کی جائے اور لوگوں کو مارا جائے۔ بلکہ امن کا قیام شریعت کے نفاذ اور انصاف میں پوشیدہ ہے۔ اور بدامنی اس وقت ہوتی ہے جب شریعت کی مخالفت کی جائے۔ اس لیے اپنی اصلاح ضروری ہے، ہر ذمہ دار فرد کا گناہ پورے نظام پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔
۴ – ظلم سے خود کو بچائیں۔ کسی کے ساتھ ظلم ہوتو ایک مظلوم کی بد دعا پورے نظام کو ہلا دیتی ہے۔ اس لیے کہ مظلوم کی بد دعا اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے۔
۵ – دشمنوں کو توقع ہے کہ کمیونزم کے خلاف جہاد کی کامیابی کے بعد جس طرح مجاہدین کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئےامارت اسلامیہ کے ذمہ داران کے درمیان بھی پیدا ہوں گے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ تمھاری یہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالی۔ قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ الله عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ.
۶ – افغانستان کے عوام نے بہت مصائب اٹھائے ہیں۔ ان پر بہت مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ ان لوگوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ یہ کامیابی انہیں قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اس لیے ان لوگوں کی بہت قدر کریں۔ ان کی خدمت کریں اور ان کی فریاد سنیں۔ جن لوگوں نے ہمیں کل اپنے گھر میں پناہ فراہم کی، اپنا لقمہ آدھا کرکے ہمیں کھلایا آج اگر ہم انہیں بھول جائیں تو یہ بہت بڑی جفا ہے جومجاہدین کے شایان شان نہیں۔
۷ – کسی کو ناحق تکلیف نہ دی جائے۔ اگر کسی کو گرفتار کیا جارہا ہے تو پہلے تحقیق کی جائے کہ کسی نے اس کی ناحق شکایت نہ کردی ہویا کسی چھوٹے جرم میں بڑی تکلیف نہ پہنچے۔ اس لیے احتیاط کریں کہ کسی کو ناحق آزار نہ پہنچے۔
۸ – امارت اسلامیہ میں کوئی تفرقہ اور تبعیض جگہ نہیں پاسکتی۔ جنوب سے تعلق رکھنے والا شخص شمال میں اور شمال سے تعلق رکھنے والا شخص جنوب میں ذمہ دار مقرر ہوگا اور وہ خدمت کرے گا۔
۹ – مراعات اور ترقی تقویٰ، اہلیت اور امانت داری کی بنیاد پر دی جائے گی۔ قوم قبیلہ، زبان، علاقہ اور رشتے کی سوچ ذمہ داران میں پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ اور اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہے تو سب اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی روک تھام کریں۔
۱۰ – جہاں بھی جو بھی انسان ضرورت مند نظرآئے اس تک پہنچو۔ یہ فرق کبھی مت روا رکھو کہ کون ہے اور کہاں ہے۔
۱۱ – یہ وقت گذرنے والا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ آئندہ نسلوں کے لیے اچھی تاریخ، اچھی پالیسیاں اور اچھے اصول چھوڑ کر جائیں۔ زیادہ توجہ آخرت اور اللہ تعالی کی رضا پر دیں۔
۱۲ – ہمارا رازق اللہ تعالی ہے۔ اس دنیا کی ساری قوتیں نہ تمھارا رزق چھین سکتی ہیں اور نہ تمھارا رزق بند کرسکتی ہیں۔ نہ یہ ہماری زندگی چھین سکتے ہیں۔ اللہ تعالی پر توکل رکھو اور اللہ کی رضا کی کوشش کرو۔
۱۳ – لوگوں کو اسلامی احکام اور اخلاق کی ترغیب دو۔ بے جا زور زبردستی کی بہ جائے ترغیب اور تحریض سے کام لو۔ طاقت کے استعمال سے لوگ تم سے نفرت کریں گے اور ترغیب سے تمھارے دوست اور معاون بنیں گے۔
۱۴ -کوشش کرو کہ جہاد کے دور کی وہی شرعی عادات اور دینی معمولات اور تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رہے۔
۱۵ – قرآن کریم سے تعلق رکھو۔ دن میں کم از کم ایک مرتبہ اٹھاکر تلاوت کرلیا کرو۔
۱۶ – بڑے مناصب سے خوش مت ہوا کرو۔ اور کسی منصب سے ہٹادیے جاؤ تو ناراض مت ہوجایا کرو۔ مطلب یہ کہ منصب سے دل نہ لگاؤ۔
۱۷ –سابقہ ادوار کے بدنام لوگوں سے عبرت حاصل کرو۔ اس لیے ایسے اعمال سے گریز کرو جو بدنامی اور بدگمانی سبب بنیں۔ بلکہ سلف صالحین کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو۔

غریبوں کی مدد:
افغانستان کے صاحب ثروت اور امیر لوگوں سے کہتا ہوں کہ ان مبارک ایام میں نادار اور غریب افغان شہریوں کو یاد رکھیں۔ یہ ہماری بھائی ہیں۔ ان سے تعاون ہمارا فریضہ ہے۔ سب اپنے وسائل اور بساط کے مطابق غریبوں کی مدد کریں۔
آخر میں ایک بارپھر آپ سب کو عید الفطر کی مبارک باد دیتا ہوں۔ اللہ تعالی سب کو ہر طرح کی آفات سے محفوظ فرمائے۔ اللہ تعالی کامیاب و کامران رکھے۔ و السلام

 

امیرالمؤمنین شیخ القرآن والحدیث مولوی ہبۃ الله حفظہ الله تعالی

۲۷ رمضان المبارک ۱۴۴۵ ھـ ق
۱۸/۱/۱۴۰۳ھـ ش ــ 2024/4/6ء