کابل

کفار کو امارت اسلامیہ پر بے حد غصہ ہے

کفار کو امارت اسلامیہ پر بے حد غصہ ہے

 

محمد افغان

امریکی پالیسی کے زیرِاثر بین الاقوامی صحافتی حلقوں میں سے افغانستان پر نظر رکھنے والے افراد طالبان کے بارے میں اپنے تجزیوں میں چیں بہ چیں دکھائی دیتے ہیں۔ ممکنہ طور پر وہ افغانستان کے متعلق امریکی پالیسی کے ایسے پھیلاؤ کے لیے کام کر رہے ہیں، وہ جس کے نتیجے کے طور پر علاقے میں افغانستان کی واضح مخالفت دیکھنا چاہتے ہیں۔ جب کہ معروضی حالات کے مطابق امریکی پالیسی کے پیروکار صحافیوں کا بنیادی دماغی ڈھانچہ افغانستان سے امریکی انخلا کے وقت سے زلزلہ زدہ کیفیت کا شکار ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فاکس نیوز نے امارت اسلامیہ کے عیدالفطر کے سنجیدہ پیغام کے مندرجات پر حقیقت پسندانہ تبصرہ کرنے کے بجائے اپنے سوختہ دلی جذبات کا اظہار کیا ہے۔ فاکس نیوز نے لکھا ہے:
“افغانستان میں دو دہائیوں پر مشتمل جنگ سے امریکا اور نیٹو کے ‘افراتفری پر مبنی انخلا’ کے بعد طالبان نے اقتدار پر قبضہ کر کے خصوصی طور پر خواتین کی آزادی اور چھٹی جماعت سے آگے کے لیے لڑکیوں کے تعلیمی سلسلوں کو منقطع کر دیا ہے۔ جس سے عالمی سطح پر گہری مذمت نے جنم لے کر افغانستان کو عالمی برادری کی نظر میں مزید تنہا کر دیا ہے۔”
فاکس نیوز نے اپنا روایتی منافقانہ طرزِ عمل اپناتے ہوئے امریکی انخلا کو افراتفری کا عمل قرار دیا ہے۔ فاکس نیوز کا مقصد یہ ہے کہ وہ امریکا کے شکست خوردہ انخلا کو مجبوری باور کرا کر درپیش ذلت و خواری کا دُکھ سے لبریز تاثر ختم کر سکے۔ کیوں کہ طالبان جیسے جدید اسلحے سے نہتےنظام کے ہاتھوں امریکا جیسے کیل کانٹے سے لیس ہاتھی کی شکست بلاشبہ قابلِ برداشت سانحہ نہیں ہے۔
فاکس نیوز کو دنیا کے نظام پر قابض امریکی پالیسی برداروں کی جانب سے امارت اسلامیہ کو قبول نہ کرنے کے باوجوجاپان، روس اور چین جیسے مضبوط معاشی نظاموں کی طرف سے طالبان کے ساتھ اقتصادی معاہدوں پر بے حد رنج ہے۔ اسی لیے فاکس نیوز نے اپنے غصے اور رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
“کوئی بھی ملک طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت تسلیم نہیں کرتا۔ لیکن کچھ اہم علاقائی کھلاڑی چین، ایران اور پاکستان کے طالبان کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات ہیں۔”
دشمن شروع دن سے کسی بھی ایسے نکتے کی تلاش کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا چکا ہے، جس کے مطابق وہ اپنے تئیں خودساختہ حقانی نیٹ ورک اور قندھاری گروپ کے مابین اختلافات کا کوئی ثبوت حاصل کر سکے۔ تاکہ وہ اُن اختلافات کی بنیاد پر بزعمِ خویش فریقین کو اپنے مقاصد کے لیے ایک دوسرے سے لڑا سکے۔ وہ ایسے اختلافات کو طالبان کے خلاف پروپیگنڈا بنا کر ایک مرتبہ پھر افغانستان کو امریکی اسلحے کی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
ایسے لوگ وہ خون آشام درندے ہیں، جو دنیا بھر میں مسلمانوں کے لہو کے پیاسے ہیں۔ اِنہیں اس بات کا بے حد صدمہ ہے کہ امارت اسلامیہ امریکی رضامندی کے باوجود اب تک کیوں قائم ہے اور اُس کے معاشی منصوبوں کی وجہ سے اس کی خودانحصاری کی صلاحیت میں مزید اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟!
امیرالمومنین نے اپنے خطبۂ عیدالفطر میں ایسے ہی پالیسی سازوں کے لیےیہ بات کہی ہے:
“دشمنوں نے توقع پال رکھی ہے کہ کمیونزم کے خلاف جہاد کی کامیابی کے بعد جس طرح مجاہدین کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تھے، امارت اسلامیہ کے ذمہ داران کے درمیان بھی پیدا ہوں گے۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ تمہاری یہ آرزو کبھی پوری نہیں ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالی۔”
اس کے بعد امیرالمومنین نے سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 119 تلاوت کی، جس کی تفصیل یوں ہے:
قُلْ مُوتُوا بِغَيْظِكُمْ إِنَّ الله عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ۞
اے حبیب! تم فرمادو(کہ اے کافرو! تم) اپنے غصے میں مرجاؤ۔ بے شک اللہ دلوں کی بات کو خوب جانتا ہے۔