ازبک داعشی جنگجوؤں کے موضوع کے بابت امارت اسلامیہ کے وفد کی رپورٹ

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ امارت اسلامیہ کے دور اقتدار میں کچھ ازبکستانی مہاجرین افغانستان میں رہائش پذیر تھے اور امارت اسلامیہ کے اطاعت اور قوانین  کے پابند تھے۔افغانستان پر امریکی قیادت میں کفری جارحیت کے بعد ازبک مہاجر وزیر ستان چلے گئے۔ وہاں مقامی لوگوں کیساتھ برے سلوک کی وجہ سے بار […]

جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ امارت اسلامیہ کے دور اقتدار میں کچھ ازبکستانی مہاجرین افغانستان میں رہائش پذیر تھے اور امارت اسلامیہ کے اطاعت اور قوانین  کے پابند تھے۔افغانستان پر امریکی قیادت میں کفری جارحیت کے بعد ازبک مہاجر وزیر ستان چلے گئے۔ وہاں مقامی لوگوں کیساتھ برے سلوک کی وجہ سے بار بار مختلف علاقوں میں منتقل کیے گئے، حتی کہ گذشتہ سال حکومت پاکستان نے قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع کیا، تو ان میں سے بعض دوبارہ افغانستان آئے اور چند گھرانے صوبہ زابل کے ارغندآب، دائی چوپان اور خاک اضلاع میں رہائش پذیر ہوئے،

کچھ عرصے کے بعد منصور داداللہ بھی ارغندآب اور خاک افغان چلا گیا، وہاں گھر گھر امارت اسلامیہ کی شکایت شروع کردی، کہ میرے ساتھ برا سلوک ہوا ہے ،مجھے پناہ دیجیے ، ایسے پروپیگنڈوں کے  ذریعے  قوم کے اندر ہمدرد تلاش کرلیے۔

منصور داداللہ نے علاقے میں ازبک باشندوں کیساتھ روابط بڑھا دیے۔ انہیں مختلف علاقوں سے اکٹھے کرکے ایک مشترکہ نیٹ قائم کیا، جو امارت اسلامیہ کے خلاف ہوگئے۔ انہوں نے آس پاس علاقوں میں ذاتی اموال لوٹنے اور لوگوں کو اغواء کرنے کا سلسلہ شروع کیا،باالخصوص ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو بار بار اغواء کرتے رہے، جن میں ہزارہ کمیونٹی کی خواتین بھی تھیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران ان کے جرائم کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔

  • کابل، قندہار قومی شاہراہ پر ضلع شاہ جوئی کے مربوطہ علاقے میں 31 ہزارہ کمیونٹی کے مسافروں کو اغواء کرنا اور ان میں سے چند کا سرقلم کرکے ضلع خاک افغان کے رسنہ بازار میں پھینکنا، چند کو تبادلہ کرنا اور زندہ بچ جانے والوں کو بعد میں ارغندآب کے ایک مکان میں اجتماعی طور پر ذبح کرنا۔
  • خاک افغان سے غزنی جانے والے تین ہزارہ خواتین اور تین مردوں کو قیدی بنانا۔
  • شاہ جوئی کے باختو کے علاقے میں تین ہزارہ خواتین اور دو مردوں کو گاڑی سمیت اغواء کرنا اور بعد میں تمام افراد نشے کی حالت میں ایک ویرانے میں پڑے ہوئےتھے،جبکہ ان کی گاڑی تاحال لا پتہ  ہے۔
  • خاک افغان کے گزہ گاؤں کے پشتون آبادی کے 12 سالہ اور 15 سالہ لڑکوں لےجانا اور عوام کو یہ بتانا کہ دونوں لڑکے جہاد کی غرض سے ہمارے ساتھ گئے، جن کے بارے میں تاحال کچھ معلومات نہیں ہے۔
  • غزنی شہر کے رہائشی ایک تاجک تاجر کو اغواء کرنا اور ان کے خاندان سے ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کرنا، آخر طالبان اور مقامی علماء کرام کے زیادہ اصرار کی وجہ سے ان تاجر کو رہا کردیا۔
  • ہزارہ کمیونٹی کی خواتین کو بار بار اغواء کیے، حتی کہ ہزارہ کمیونٹی نے جوابی اقدام اٹھاتے ہوئے ضلع خاک افغان کے گزہ گاؤں کے پشتون قبیلے کے 14 خواتین اور بچوں کو اغواء کرلیے، جس کی وجہ سے علاقے میں قومی جنگ کے لیے راہ ہموار کریں۔ طالبان نے افغانوں کے درمیان قومی جنگ کے روک تھام کے لیے مداخلت کی اور ہزارہ کمیونٹی سے 14 قیدیوں کو بازیاب کروائے۔
  • ازبک داعشیوں نے ایک رات قیدیوں کو بڑی بڑی بوریوں میں ڈال کر گاڑی میں پھینک دیے۔  تاکہ انہیں کسی اور جگہ منتقل کریں۔ ارغندآب کے اختربازار سے گزرنے کے دوران رات کے وقت چوکیدار نے قیدیوں کی حالت ، ان کی چیخ و پکار  کو سناتھا اور صبح کو لوگوں کو بتایا کہ ایسا کرنا ظلم ہے ۔ اسی بات پر ازبک داعشیوں نے چوکیدار پر پستول تھام کر نہیں شہید کردیا۔
  • ارغندآب کے چکنک گاؤں کے رہائشی کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کے ایک مکان میں ہزارہ کمیونٹی کی خواتین اور مرد قید تھے۔ ایک دن مکان سے سیاہ دھواں اور بدبو آرہا تھا،جسے ابھی تک ہم محسوس کررہے ہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ داعشیوں نے ایک ہزارہ خاتون کو زندہ جلائی تھی۔
  • ارغندآب کے پیتاؤ گاؤں کے باشندے کہتے ہیں کہ ایک دن داعشیوں کی رہائش گاہ سے ایک ہزارہ خاتون ایسے حالت میں بھاگ رہی تھی کہ ان کے جسم پر کسی قسم کا کپڑا تک نہیں تھا اور خاتون بچاؤ بچاؤ کے نعرے لگارہی تھی، لیکن بعد میں مسلح داعشی مکان سے نکلے  اور عورت کو دوبارہ ساتھ لے گئی۔
  • خاک افغان کے سولان بازار اور دیگر علاقوں میں ازبک داعشیوں نے ایسے اعلامیے اور پوسٹرز آویزان کیے ، جن میں عوام کو داعش سے بیعت پر مدعو کیا گیا تھا۔ ان اعلامیوں میں انہوں نے امارت اسلامیہ کے خلاف نہایت نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے ۔ امارت اسلامیہ کو باغی اور آئی ایس آئی کے ایجنٹ کہی تھی۔

یہ تو چند مثالیں تھیں، اس کے علاوہ  مزید المیے بھی ہیں، اگر تمام کا تذکرہ کرینگے، تو رپورٹ طول پکڑیگی۔ داعشیوں کی جانب سے ایسے جرائم کرنے سے علاقے میں خوف کی فضا قائم تھی۔ علی الاعلان امارت اسلامیہ سے بغاوت کرتے اور اس بغاوت میں منصور داداللہ بھی ان کے ہمراہ اور ان کا مضبوط اتحادی تھا۔

علاقے کے باشندوں نے  ان افراد کے بارے میں امارت اسلامیہ کو  شکایت کی، کہ  یہ افراد اس نوعیت مظالم اور وحشت  کے لیے کمربستہ ہے اور  امارت اسلامیہ ان کا سدباب کریں، ورنہ اگر علاقے میں ظلم و وحشت کا سلسلہ جاری رہا، تو ممکن ہے کہ علاقے میں ایک بڑی قومی جنگ کا آغاز ہوگا، کیونکہ خواتین کا اغواء ایک حساس مسئلہ ہے۔

امارت اسلامیہ نے 08/ذی العقدہ 1436 ھ کو  ایک وفد کو جس کے تشکیل میں فوجی کمیشن کے  مقامی حلقے کا انچارج ، بعض اعضاء اور صوبائی گورنر کو علاقے روانہ کیا گیا۔ اس وفد نے اپنے تشکیل میں صوبہ زابل کے اکثر جہادی رہنماء، ذمہ داران اور بااثرشخصیات  کو بھی اضافہ کردیا، جن میں کمانڈر عبدالقہار، معاون کجیرخان، ملاسعداللہ شریف، مولوی عبدالقیوم ہلال، ضلع شاہ جوئی کے ذمہ دار ملاحبیب، زابل کمانڈوز فورس کے انچارج عزیزی ان کے معاونین معاذ اور ملا مجاہد، ضلع دائی چوپان کے مسؤل مولوی محمدعالم  اور زابل کے دیگر مجاہدین رہنماء اور بااثراشخاص شامل ہیں، جن کا تعداد 30 تھا، جنہیں موضوع کے حل کی خاطر علاقے روانہ کیا گیا۔

زابل کے کمانڈروں اور مجاہدرہنماؤں نے امارت اسلامیہ سے مطالبہ کیا کہ اس موضوع کو ہمارے حوالے کردیے، ہم اسے حل کرنے کی کوشش کرینگے۔امارت اسلامیہ نے موضوع کے حل و فصل کی خاطر تمام اختیارات زابل کے مجاہدین کو دیے۔ مجاہدین رہنماء ازبک اور منصورداداللہ سے ملنے گئے اور ان کیساتھ گفتگو کی۔

ازبکستانی داعشیوں نے اصل موضوع پر گفتگو کرنے کی بجائے وفد کو جواب دیا کہ تم سبھی باغی ہوں اور امارت اسلامیہ بھی باغی ہے، جو داعش سے بیعت نہیں کرتا، تو اسی لیے تم سے مذاکرات پر آمادگی نہیں کرتے۔ ازبکستانی داعشیوں کے اس جواب کے بعد مجاہدین علاقے کے لوگوں کے پاس آئے تھے، جن میں سے بعض منصور داداللہ کے ہمدرد تھے۔کافی بحث کے بعد ارغندآب اور خاک افغان اضلاع کے لوگوں نے  مجاہدین کو  قرآن کریم کے واسطے ضمانت دی،کہ  ان افراد کو 15 دن کے اندر  ہم اس پر آمادہ کرینگے کہ امارت اسلامیہ کے اوامر اور لوائح کو مان لیں گے۔ امارت اسلامیہ کا اطاعت کریں اور فساد و ظلم سے دستبردار ہوجائے اور یا علاقے کو چھوڑ  دیں ۔ علاقے کے لوگوں نے مجاہدین کو ضمانت خط بھی دیا۔

خط کا اردو ترجمہ :

“ہم ارغندآب اور خاک افغان اضلاع کے علماء اور بااثراشخاص ضامن ہیں کہ امارت اسلامیہ سے ازبک داعشی جنگجو 15 دن کے دوران افغانستان سے نکل جائیں گے اور یا امارت اسالمیہ کے تمام قوانین کو تسلیم کرینگے”۔

امارت اسلامیہ کے ذمہ داران نے زابل کے مجاہدین اور باشندوں کے احترام میں انہیں 15 دن کا مہلت دیا  اور انتظار کی گھڑیاں گنتے رہے۔ منصورداداللہ نے ازبکی داعشیوں کے ہمراہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے  اپنے محاذوں کو محکم کرنے شروع کردیا۔ بھاری ہتھیاروں کو پہاڑوں پر پہنچادیے گئے اور فوجی سازوسامان سمیٹنے میں تیزی لائی۔ منصورداداللہ نے ایک ویڈیو بھی نشر کی، جس میں امارت اسلامیہ کے بارے  نہایت نازیبا الفاظ استعمال کیے تھے۔

پندرہ روز انتظار کے بعد ہم جواب کے منتظر تھے، لیکن جواب نہ آیا اور حالات ماضی کی طرح تھے۔ اس کے بعد ہم نے شاہ جوئی، ارغندآب، خاک افغان اور چوپان سے 40 علماء کرام کو اکٹھے کرکے انہیں وہاں روانہ کیے۔ علماء نے جواب کا مطالبہ کیا اور ان سے کہا گیا ہے کہ شریعت کے سامنے گھٹنے ٹیک دے۔ ازبک داعشوں سے پوچھاگیا کہ تم تقلید کو مانتے ہو اور کس مذہب کے پیروکار ہوں؟ انہوں نے کہا کہ ہم امام ابوحنیفہ کے پیروکار ہیں۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ اس مذہب میں کونسے کتاب پر فیصلہ کروگے؟ کہا گیا کہ ردالمختار پر۔جب ردالمختار کو لایا گیا، تو داعشیوں کی جانب سے رونما ہونے والے تمام اعمال غلط ثابت ہوئے، جس سے منصورداداللہ اور ازبک داعشی  لاجواب ہوگئے تھے، لیکن اس کے باوجود علماء کرام کو کسی قسم کا مثبت جواب نہیں دیا ۔

اس کے بعد علاقے کے باشندوں نے وفد سے گزارش کی تھی، کہ امارت اسلامیہ ہمارے ان چھ نکات کو مان لے۔

خط کا اروترجمہ :

پہلا : عوام کیساتھ تمام معاملات حقمل کی سرکردگی میں انجام ہونگے۔

دوسرا : تمام جہادی امور بھی حقمل کی نگرانی میں ہونگے۔

تیسرا: بیعت کے متعلق وہ خودمختار ہیں۔

چوتھا : وہ قیدی جو  ازبک مہاجرین کے پاس ہیں، انہیں بھی حقمل ملاعبداللہ کے حوالے کردیے جائینگے۔

پانچواں :جب بھی انہیں حقمل کی جانب سے حکم ہوتا ہے،  تو مہاجر ایک جگہ سے دوسری منتقل ہونے کے متعلق حقمل کے حکم سے روگردانی نہیں کرینگے۔

اان معاہدات کی رو سے ازبکستانی داعشوں کے کنٹرول اور تمام اختیارات کی ذمہ داری کمانڈر عبداللہ حقمل کو دی جائیگی۔جب علماء کرام  خط کو لے آيا، تو امارت اسلامیہ کے وفد نے کسی شرط کے بغیر مان لیا، تاکہ موضوع حل ہوجائے۔

خط کا اردو ترجمہ :

گزارش یہ ہے کہ میں عبداللہ حقمل ازبک مجاہدین کے موضوع کے متعلق  امارت اسلامیہ افغانستان کے تمام رہنماؤں کو  ضمانت دیتاہوں کہ چھ نکات معاہدے  کی رو سے ذی الحجہ کے پندرویں تاریخ تک مکمل طور پر عملی کرونگا  اور اگر نہ کرسکا،  تو پھر میں امارت اسلامیہ کے کمانڈوز کےہمراہ ازبک مجاہدین کو علاقے سے نکال باہر کرینگے۔جس طرح بھی ممکن ہو، البتہ شرعی اصول کے مطابق”۔

ان دنوں میں امارت اسلامیہ کا وفد منتظر تھی، کہ عبداللہ حقمل ان نکات کو عملی کریگا، جب وقت پورا ہوا، تو ہم نے عبداللہ حقمل کو بلایا، انہوں نے کہا کہ  علاقے کے 200 مجاہد رہنماء، علماءکرام، قبائلی عمائدین اور  بااثرشخصیات جناب شیخ مولوی عبدالرحیم صاحب کی قیادت میں اکٹھے ہوئے اور بعد میں ازبک داعشیوں سے   کہا گیا کہ ان نکات کو مانتے ہو، لیکن انہوں نے معمول کے مطابق انکار کیا اور جب ازبک داعشوں سے مایوس ہوئے اوراس کے بعد قرآن کریم کے ہمراہ منصورداداللہ کے پاس گئے اور عرض کیا گیا کہ ازبکوں کا  اس بغاوت میں ساتھ نہ دیجیے، خود کو علیحدہ کریں، جو بھی جائز مطالبہ  ہو، ہم امارت کو بتائینگے، امارت تمہیں ذمہ داری سونپ دیگی، اگر ذمہ داری سے قاصر ہو، تب  ایک مہمان کی حیثیت  یہاں رہو، ہم امارت سے سفارش کرینگے کہ تمہارے گھر، محافظوں کا خرچہ باقاعدگی سے دی جائیگی، یہاں کسی سے غرض نہ رکھے اور اگر امارت کو گرانا چاہتے ہو، تو قرآن کریم کے واسطے ہمارے علاقے سے نکل جاؤ۔

لیکن منصورداداللہ نے جواب دیا کہ ” میں یہاں نئی امارت کا اعلان کرونگا  یا  یہاں قتل ہوجاؤنگا”۔

( ایسے حالت میں کہ شہید ملاداداللہ اخند کی شہادت سے آج تک امارت اسلامیہ منصورداداللہ کے خاندان اور شہید ملاداداللہ کے یتیموں کو باقاعدگی سے تمام اخراجات دے رہے ہیں، جب منصور قید میں تھے، اس وقت بھی ان کے خاندان کی کفالت کی جاتی اور منصورکے رہا ہونے کے بعد امارت اسلامیہ  ان کے ساتھ فوق العادہ امداد بھی کرتارہا اور امارت اسلامیہ کے زعیم بھی ان ملے  اور انہیں صوبہ ہرات کے جہادی امور کے انچارج کا تجویز بھی پیش کیا گیا، لیکن منصور نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔)

جب ارغنداب کے مجاہدین اور قبائلی عمائدین نیز امارت اسلامیہ کا وفد ازبک داعشوں اور منصور داداللہ کو سمجھانے سے عاجز اور نا امید ہوئے، تو اس کے بعد ہم نے دائی چوپان میں مقیم اقوام کو رجوع کی۔ دائی چوپان میں ماری، چلکو اور شوئی کے نام سے وسیع علاقے ہیں۔ اس وسیع علاقے کے بااثراشخاص اور علماء کرام سنان اخندزادہ صاحب کے فرزندوں مولوی عبدالشکور صاحب اور عتیق اخندزادہ اسی طرح سنز گاؤں کے مولوی صاحب اور دیگر علماء کرام جن کے تعداد بیس تک پہنچتا ، ان سے کہا گیا کہ ازبک باشندے جو علی الاعلان داعش کے حامی ہیں اور امارت اسلامیہ کے اصول کو نہیں مانتے، اس کے علاوہ جرائم کے مرتکب بھی ہوتے ہیں، ہم آخرکار جنگ کرنے پر مجبور ہونگے، اگر منصورداداللہ خود کو داعش سے علیحدہ کریں، ہمارا ان سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آپ ان کے پاس جائے اور ان سے گزارش کریں کہ ازبک داعشوں سے خود کو جدا کریں، اگر درج نکات میں سے جو بھی مان لے، تو ہم حاضر ہیں۔

1 :  اگر امارت میں خدمت کرتا ہے ، تو ہم انہیں لبیک کہیں گے۔

2 : اگر امارت میں خدمت نہیں کرتا ،تمہارا مہمان ہے، آپ جہاں مناسب سمجھے وہی پر رہائش پذیر رہے، ان کے گھر اور دس محافظوں کا خرچہ امارت اسلامیہ دیگی اور آرام سے اپنی زندگی گزاریں،لیکن امارت کے خلاف سرگرمیوں سے دستبردار ہوجائے۔

3 : اگر امارت اسلامیہ کے احکام کو نہیں مانتا، تو یہاں چلے جائے،تاکہ عوام کے لیے مسائل پیدا نہ کریں۔

4 : اگر مخالفت بھی کرتا ہے اور یہاں سے نہیں جاتا، تو پھر ازبک داعشوں سے خود جدا کریں، آپ ان کے لیے ایک گاؤں کا تعین کریں، امارت اسلامیہ کے مجاہدین اس گاؤں میں نہیں جائینگے، مگر ازبک داعشوں سے ان کی علیحدگی ضروری ہے،کیونکہ امارت اسلامیہ مجبور ہے کہ آخرکار ازبک داعشوں کے خلاف کاروائی کریگی، کیونکہ وہ داعش کے حامی ہیں۔ امارت سے بغاوت کی ہے ، اس کے حکم اور اصول کو نہیں مانتے اور صوبے بھر میں جہاد اور مجاہدین کے لیے بڑے مصائب اوربدنامی جنم دی ہے۔

ان علماء کرام نے کہا کہ منصورداداللہ نے ہمیں 40 مراسلے روانہ کیے،کہ یا میرے ہمراہ امارت اسلامیہ کے خلاف کھڑے ہوجاؤ اور یا بیعت کا حکم دیجیے کہ میں کروں، تو ہم تمہارے مشورے سے جائینگے، لیکن مجھے امارت پر اعتماد نہیں، کہ ہماری بات کو مان لے گی یا نہیں ؟ ہم نے انہیں مکمل اختیار دیا ، آپ نے  جو فیصلہ کیا،وہ ہمیں منظور ہے۔علماء کرام منصورداداللہ کے پاس گئے اور دو روز بعد آکر ہمیں بتایا کہ منصور داداللہ نے بھی ہمیں اختیار دیا۔ اس کے بعد انہوں نے امارت اسلامیہ کے ذمہ داروں سے  مطالبہ کیا کہ منصورداداللہ کو جنوب مغربی حلقے میں ایک صوبہ دی جائے اور ساتھ ہی شہید ملاداداللہ کے محاذ کو دوبارہ فعال کردیا جائے۔ وفد نے اس مطالبے کو قیادت تک پہنچایا۔ قیادت نے دونوں مطالبا ت منظور کرلیے۔ وفد کے اراکین نے  علماء کرام کیساتھ ایسا تحریرنامہ لکھاکہ” منصورداداللہ اس فیصلے کے فورا بعد اعلان کریگا کہ امارت اسلامیہ کیساتھ میری صلح ہوگئی اور اختلافات ختم ہوگئے، ایک ماہ کے اندر ازبک جنگجوؤں سے خود کو علیحدہ کریگا اور ازبک جنگجوؤں کو علاقے سے نکال دیگا۔ ایک ماہ کے بعد صوبے کا چارج ان کے حوالے کردیا جائیگا اور اس وقت امارت اسلامیہ کے امیر سے دست بدست بیعت بھی کریگا”۔ اس فیصلے کو علماء کرام نے تحریر کرنے کے بعد کہا کہ ہم اسے منصورداداللہ بھی منوائینگے۔

علماء کرام کا بیس رکنی وفد جن میں دائی چوپان کے علاقائی رہنماء اور علماء کرام بھی شامل تھے۔ منصورداداللہ سے ملاقات اور انہیں فیصلہ سنانے گئے۔ منصورداداللہ نے بھی فیصلہ مان لیا۔ علماء کرام نے ہمیں احوال بھیجا کہ  رات کو دعوت ہے اور آپ حضرات نے بھی آنا ہے، منصورداداللہ بھی شرکت کرینگے اور یہاں صلح ہوگی۔ جب رات کو ہم دعوتی مقام پر پہنچے، تو علماء کرام ناراض معلوم ہورہے ہیں۔ امارت اسلامیہ کے ذمہ داروں میں سے کمانڈر عبدالقہار نے ان سے پوچھا کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے کہ خوشی کا دن ناخوشگوار تو نہیں ؟ علماء نے فرمایا کہ کھانا کھانے کے بعد گفتگو کرینگے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اس ظالم یعنی منصورداداللہ نے انکار کردیا اور جس فیصلے کو مان لیا تھا، اسے دوبارہ رد کردیااور مزید مطالبات کررہا ہےکہ مجھے زابل اور پکتیکا کی صوبے دیئے جائیں۔ زابل کے امور میرے پاس جبکہ پکتیکا میں میرا ساتھی عبیداللہ ہنر گورنر ہوگا۔ امارت اسلامیہ کے امیر سے بیعت  کرونگا اور  نہ ہی امارت اسلامیہ سے صلح اور آتشی کا اعلان کرونگا اور داعش کو اپنے علاقے سے نکالوں اور نہ ہی اس سے علیحدہ ہوجاؤنگا۔

ہم نے علماء کرام سے پوچھا کہ اگر ہم ان کے تمام مطالبات کو مان لے ، تو آپ کے خیال میں یہ صلح ہے یا فساد کو وقت دینا ہے اور فتنوں کے لیے راہ ہموار کرنا ہے؟ تمام علماء کرام نے کہا کہ یہ صلح نہیں بلکہ فساد کو وقت دینے کے مترادف  ہے۔

اس وقت منصورداداللہ بھی پہنچا اورایک علیحدہ کمرے میں چلے گئے۔ علماء کرام نے ہمیں بتایا کہ  آپ ان سے نہ ملے  اور ہم صبح تک ان پر دباؤ ڈالیں گے، اگر اس فیصلے کو ان سے منوایا۔ ہم نے علماء کو  آخری بات یہ کہہ دی،کہ زابل کو مکمل طور پر ان کے حوالے کرینگے، لیکن داعش کو علاقے سے نکال دینگے،  کیونکہ داعش عوام اور علاقے کے لیے بڑی مصیبت میں بدل جائیگا، اس کے بعد ہم چلے گئے۔

علماء کرام صبح آئے اور کہا کہ وہ کسی طور پر ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اب ہمارے پاس ایسے اشخاص نہیں ہیں، جن کو ان کے پاس روانہ کریں یا ان پر اثرانداز ہوں، تو اسی وجہ سے امارت کا وفد علاقے سے لوٹا۔

اس طرح متعدد بار  بھی کوششیں کی گئي، کہ کوئی بات کو مان لے گا، لیکن وہ تیار نہیں تھا اور وقت فالتو گزر گیا۔ اس کے ایک دن بعد ملا محمد رسول کے معاون کے طور پر اعلان ہوا۔ انہوں نے ملامحمد رسول کے معاونت کو ایسے قبول کرلیا، تاکہ اس جنگ کو داخلی اور طالبان کی باہمی لڑائی تصور کرکے اسے اپنے  مفاد میں پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کریں۔  ایسے حالت میں کہ ازبک داعشوں کے خلاف جنگ صرف اور صرف اس وجہ سے بھی ہے ، کہ داعشی جنگجو  امارت اسلامیہ کو باغی کا نسبت کرتے، اس کے کسی اصول کو نہیں مانتے اور عوام پر بھی زمین تنگ کردی  ۔ امارت اسلامیہ کے مہینوں جاری تفاہم اور جدوجہد  کو صرف ان جملوں سے رد کرتے ، کہ تم باغی  ہوں اور داعش کو نہیں مانتے ہوں اور تم پاکستان کے لوگ ہوں….۔

اس کے بعد جب داعش کے ساتھ پرامن حل کا طریقہ باقی نہیں رہا، لیکن اس کے باوجود مجاہدین نے آپریشن کے وقت کا تعین  کیا تھا اور نہ ہی انہیں اخری الٹی میٹم دیا تھا۔ ایک روز ان کی جانب سے ایسا سازش بنایا گیا ، تاکہ مجاہدین رہنماء صوبائی گورنر اور کمانڈوز فورس کے انچارج کو قتل کردیں، لیکن مجاہدین کے رہنماؤں کو اللہ تعالی نے ان کے ابتدائی سازش سے محفوظ رکھے اور دیگر مجاہدین پر پہلا حملہ ایسے حالت میں کیا گیا، کہ مجاہد رہنما وہاں نہیں پہنچے تھے ،جس میں چند مجاہدین کوشہید ہوئے ۔ ان کا یہی پہلا حملہ جنگ کے آغاز کا سبب بنا۔ تب مجاہدین نے آپریشن کو جاری رکھا اور علاقے سے داعش جنگجوؤں کا مکمل صفایا کروایا۔

آپ حضرات نے میڈیا سے سنا ہوگا کہ عبدالمنان نیازئی نے یہ بات کہی کہ ہم نے صوبہ زابل کے گورنر مولوی مطیع اللہ اور کمانڈوز فورس کے انچارج مولوی پیر آغا کو ایک حملے  میں مار ڈالے ہیں۔یہ ان کا پہلا ہی حملہ تھا، جس میں اللہ تعالی نے مجاہد رہنماؤں کو محفوظ رکھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے  مجاہدین وہاں موجود تھے، لیکن جنگ کا وقت اور پروگرام معلوم نہیں تھا، صرف داعش پر دباؤ ڈالنا اور ان پر قانون لاگو  کرنا تھا۔

جنگ کے دوران یہ کوشش کی گئی ہے کہ ان کے افراد جنگ کے بغیر سرنڈر ہوجائے، حتی کہ اکثریت نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور اب وہ خاندانوں سمیت مجاہدین کے زیرکنٹرول علاقوں میں آرام کی زندگی بسر کررہےہیں اور جنگ بھی صرف 24 گھنٹے کے اندر اندر ختم ہوئی۔جنگ کے طوالت اور نقصانات کے بارے میں مغربی میڈیا جو پروپیگنڈہ کررہاتھا،  اس سے کئی گنا کم تھے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے ماضی بھی مجاہدین کے خلاف پروپیگنڈوں  کے بازار کو گرم  رکھا تھااور ہمیں دشمن کے پروپیگنڈوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔

اسی طرح ہم نے صوبہ زابل کے موضوع کے حل بارے میں وفد کے اڑھائی مہینے پر مشتمل مختصر رپورٹ کو مرتب کرکے قیادت کے سامنے پیش کردیا۔

ومن اللہ التوفیق

13/ صفرالمظفر 1436ھ بمطابق 25/ نومبر 2015ء

امارت اسلامیہ کی جانب سے ازبک داعش کے موضوع کے  بابت امارت اسلامیہ کے وفد کی جانب سے