اروزگان میں دشمن کی آخری ہچکی!

آج کی بات: عمری آپریشن کی فاتحانہ لہر اب صوبہ اروزگان میں داخل ہو چکی ہے۔ امارت اسلامیہ کے مجاہدین صوبہ اروزگان کے مرکز ترین کوٹ میں داخل ہو چکے ہیں۔ صوبے کا مرکزی ہیڈکوارٹر، صوبائی پولیس اسٹیشن اور انٹیلی جنس سینٹر مجاہدین کے شدید حملوں کی زد میں ہیں۔ مجاہدین نے ترین کوٹ کا […]

آج کی بات:

عمری آپریشن کی فاتحانہ لہر اب صوبہ اروزگان میں داخل ہو چکی ہے۔ امارت اسلامیہ کے مجاہدین صوبہ اروزگان کے مرکز ترین کوٹ میں داخل ہو چکے ہیں۔ صوبے کا مرکزی ہیڈکوارٹر، صوبائی پولیس اسٹیشن اور انٹیلی جنس سینٹر مجاہدین کے شدید حملوں کی زد میں ہیں۔ مجاہدین نے ترین کوٹ کا مرکزی جیل توڑ دیا ہے جہاں سے بے گناہ قیدیوں کو مل طکی ہے۔ اب مجاہدین اور  کٹھ پتلی فورسز کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری ہے۔

تین دن قبل مجاہدین نے ترین کوٹ کی دفاعی چوکیوں اور فوجی مراکز پر حملوں کا آغاز کیا تھا، جہاں ہر دن دشمن کے اہل کار متعدد چوکیوں سے فرار ہو رہے ہہں۔ جس کے نتیجے میں آہستہ آہستہ مجاہدین نے ترین کوٹ کا محاصرہ کر لیا ہے۔

اروزگان کے اکثر علاقوں اور اضلاع پر مجاہدین امارت اسلامیہ کی رٹ قائم کر چکے ہیں۔ کچھ علاقوں میں دشمن صرف ضلع کے مراکز میں محصور شکل میں رہنے پر مجبور ہیں۔ باقی تمام علاقے مجاہدین کے کنٹرول میں ہیں۔

افغانستان کےتمام علاقوں خاص کر صوبہ اروزگان میں مجاہدین کی فتوحات سے ثابت ہوتا ہے کہ مجاہدین کا تعلق عوام ہی سے ہے۔ عوام ہی جنگ میں ان کی مدد کرتے ہیں، لیکن دوسری جانب دشمن کو عوام کی مجاہدین کےساتھ یہ محبت اور مدد ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اسی لیے وہ مجاہدین کو فاتحانہ پیش قدمی کو امارت اسلامیہ سے غیرمتعلق اداروں اور ممالک کی طرف منسوب کر رہا ہے۔ جب کسی سرحدی علاقے میں مجاہدین فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو دشمن چیختا چلاتا ہے کہ افغانستان کی سرحد سے باہر کے ادارے مجاہدین کی مدد کر رہے ہیں۔ اور یہ کہ وہ مجاہدین کو جنگی حکمت عملی بتا رہے ہیں، جس سے ہمیں شکار کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اروزگان کی فتوحات میں دشمن کے پروپیگنڈے کا یہ بہانہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ کیوں کہ اروزگان افغانستان کا ایک مرکزی صوبہ ہے اور انگریز کافر کی کھینچی ہوئی نام نہاد سرحد سے سیکڑوں میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اگر دشمن کی حماقت اور بے جا پروپیگنڈے کو دیکھا جائے تو شاید یہاں بھی وہی پرانے الزامات دہرا کر اپنی شکست کو اس الزام کی تاریخی میں دھماکے کی کوشش کرے۔ مگر اب عوام تو درکنار اشرف غنی کے اپنے اہل کار بھی ان پروپیگنڈوں پر یقین نہیں کرتے۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ امریکی سفارت خانے میں منتخب ہونے والے ان کا حکمران طبقہ ان سے جھوٹ بول کر انہیں اپنی قوم کے نوجوانوں (مجاہدین) کے خلاف لڑا رہا ہے۔

اشرف غنی کے بہت سے اہل کار اب مجاہدین کی حقانیت جان چکے ہیں۔ اس لیے اب سیکڑوں کی تعداد میں ہر ماہ مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔ وہ کٹھ پتلی انتظامیہ اور امریکا کے ساتھ کام کرنے پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور وعدہ کرتے ہیں کہ آئندہ کسی صورت میں بھی مجاہدین کے خلاف اسلام اور وطن کے دشمنوں کی صف میں شامل نہیں ہوں گے۔

گزشتہ دن امارت اسلامیہ نے خاص طور پر صوبہ اروزگان میں کٹھ پتلی فورسز کے اہل کاروں اور اعلیٰ حکام کے لیے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ امارت اسلامیہ ان تمام افراد کے جان و مال کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہے، جو رضاکارانہ طور پر مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور آئندہ اس فساد پھیلانے والی صف میں شامل نہ ہونے کا عہد کریں۔ ان سے کہا گیا ہے کہ دشمن کی صف سے علیحدہ ہونے میں ان کی دنیا اور آخرت کی کامیابی ہے۔

جو اہل کار مجاہدین کےسامنے سرنڈر ہوئے ہیں۔ مجاہدین نے ان کی قدر کی ہے۔ انہیں باحفاظت اپنے گھروں کو روانہ کر دیا گیا ہے۔ اور تمام مجاہدین کو ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اروزگان میں دشمن آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ مرکزی شہر میں جنگ جاری ہے اور شہر کے نواحی علاقے  پہلے ہی مجاہدین کے کنٹرول میں تھے۔ اس لیےکابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ کے مسلح افراد کو چاہیے کہ اب اس غلام اشرف غنی کی مزید خدمت کرنے سے گریز کیا جائے۔ امارت اسلامیہ کی “معافی پالیسی” سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجاہدین کے صف میں شامل ہو جائیں یا جنگ سے بالکل لاتعلق ہو جائیں۔ مجاہدین ان کے جان و مال اور ان کی باحفاظت گھروں کو واپسی کی مکمل ضمانت دیتے ہیں۔