افغان عوام پر پروپیگنڈے کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟

افغان عوام پر پروپیگنڈے کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟ استاد فریدون یہ تو ہم سنتے رہتے تھے کہ معاصر جنگوں کا سب سے بڑا ہتھیار پروپیگنڈا ہے، لیکن پروپیگنڈا کی جیسی بھیانک شکلیں پچھلے بیس سالوں میں امارت اسلامیہ کے خلاف ایجاد کی گئیں اس کا کبھی کسی نے تصور نہ کیا تھا۔میں کبھی مغربی […]

افغان عوام پر پروپیگنڈے کا اثر کیوں نہیں ہوتا؟

استاد فریدون

یہ تو ہم سنتے رہتے تھے کہ معاصر جنگوں کا سب سے بڑا ہتھیار پروپیگنڈا ہے، لیکن پروپیگنڈا کی جیسی بھیانک شکلیں پچھلے بیس سالوں میں امارت اسلامیہ کے خلاف ایجاد کی گئیں اس کا کبھی کسی نے تصور نہ کیا تھا۔میں کبھی مغربی میڈیا کے خبروں اور پروپیگنڈوں سے زیادہ متاثر نہیں ہوا۔ امارت اسلامیہ کے خلاف جو جھوٹ بولا گیا، جو ڈرامے گھڑ کے رچائے گئے میرا یقین کبھی متزلزل نہیں کرسکے۔ لیکن ایک تصویر ایسی تھی جس نے مجھے مبہوت کردیا۔میں بہت دیر تک گم سم اسے دیکھتارہا اور اس لمحے امارت اسلامیہ کی قیادت اور امیرالمؤمنین رحمہ اللہ کے غیر متزلزل عزم کی انتہاؤں کا مجھے اندازہ ہونے لگا۔ کسی بیرون ملک، کتب نمائش کے ایک میلے میں ایک افغان پبلیشر اپنا سٹال بھی لگاتا رہا، جب سے امارت اسلامیہ کی حکومت آئی ہے اس نے بک سٹال کی جگہ ’’سیاسی کیمپ‘‘ لگانا شروع کردیا ہے۔ سٹال میں سیاہ پردے لٹکا دیے ہیں۔ پرچم اور ایک بینر جس پر لکھا ہے اس سال کوئی کتاب دستیاب نہیں ہے۔
میں سوچتا رہا یہاں کابل کے کتب خانوں میں کتابیں بھری پڑی ہیں، کابل کے شہری مرد اور عورت پوری آزادی سے کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ اس ایک پبلیشر کو کیا ہوگیا کہ اس نے اپنے سٹال پر اس سال کوئی کتاب دستیاب نہیں کا بینر آویزاں کردیا۔ اگر یہ کوئی سیاسی کوشش اور پروپیگنڈا سٹنٹ نہیں ہے اور کتابوں کی عدم دستیابی ہی اس کی وجہ ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ ایکسپو میں آنے والے وزیٹرز کو سٹال کی جگہ کچھ اور ملتا۔ یا یہ سٹال خالی ہی ہوتا، یہاں تو باقاعدہ بینر، پرچم، سیاہ بیک گراؤنڈ کے آگے کرسی لگائے لڑکا یا لڑکی موجود ہے جو اس سال ’’کاروبار بند‘‘ ہونے کا اعلان کررہی ہے۔
میں سوچتا رہا پروپیگنڈے کی جیسی حوصلہ شکن صورتیں یہاں آزمائی گئیں ایسی کسی اور تحریک کے خلاف ہوتیں تو شاید وہ اب تک زندہ ہی نہ رہ پاتی۔ لیکن آپ نے کبھی سوچا ہے اور اپنے آپ سے یہ سوال کیا ہے؟ کہ بیس سال تک تعلیم، صحت، عورت، مذہب، سیاست، معیشت، جغرافیہ، آرٹ، ثقافت، تاریخ ، عوام، عوامی فلاح کے کام . . . . . کون کون سا موضوع تھا جس میں امارت اسلامیہ کو مجرم اور بھیانک ولن کے طورپر پیش نہیں کیا گیا، لیکن اس پروپیگنڈے کا اثر کبھی افغانستان کے عوام پر نہ ہوا، افغانستان سے باہر کی دنیا میں اس پر تو کافی بحثیں ہوئیں، ٹی وی شوز کا مال نکلا، میڈیا کمپنیوں کی بکری ہوئی لیکن افغان عوام نے انہیں مجاہدین کو اپنے گھر، مہمان خانے اور تلاشیوں کے دوران بیڈروم تک خالی کرکے دیے۔ بیس سال تک انہیں دو وقت کی سوکھی روٹی یا لسی اور کچے پیاز کے ساتھ کھانا کھلایا لیکن انہیں لڑائی میں کمزور نہیں ہونے دیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طالب خود عوام کے درمیان موجود رہا۔ میڈیا نے جو کچھ کہا زمینی حقائق نے اس کی نفی کی۔ اسی لیے وہ کبھی مجاہد کی پشتیبانی سے پیچھے نہیں ہٹے۔
آپ اس کو ایک ہی مثال سے سمجھیں۔ حالیہ فتوحات اور تحولات کے دوران قندہار کا ایک جنگی کمانڈر نظر محمد معروف بہ خاشہ کماندان مارا گیا۔ خاشہ کماندان کی کچھ ویڈیوز کو لے کر انھیں ایک کامیڈین کے طورپر پیش کیا گیا۔ کئی دن تک میڈیا پر آہیں اور سسکیاں سنائی دیتی رہیں۔ ان لوگوں نے بھی خاشہ کی عصمت کی قسم کھائیں جو دو دن پہلے تک اسے جانتے بھی نہیں تھے۔ پھر کہانی میں مزید رنگ بھرنے کے لیے ایک پرانی تصویر اٹھائی گئی جس میں ایک لاش کے ساتھ دو بچیاں ایک گاڑی میں بیٹھی ہیں۔ گاڑی بھی ایسی کہ لاش کے لیے ہرگز مناسب نہیں، بلکہ ایک کار ماڈل کی گاڑی ہے۔ پروپیگنڈا کیا گیا کہ یہ لاش خاشہ کی ہے جس کے ساتھ اس کی بچیاں بیٹھی ہیں۔ حالانکہ یہ تصویر ایک ڈرون حملے میں شہید ہونے والے شہری کی تھی، مطلب جس وقت مظلومیت کی اس تصویر پر احتجاج کرنا تھا تب تو سبھی خاموش تھے؟!
اس تمام تر جھوٹ کے باوجود بھی آپ جانتے ہیں کہ قندہار ارغنداب کے عوام خاشہ کی موت پر خوش کیوں ہیں؟ کیوں کہ وہ اسے جنگی کمانڈر کے طورپر ہی جانتے ہیں۔ اس کے علاقے کے دکان داروں کے روزنامچوں اور کھاتے کی کاپیوں میں آج بھی وہ حساب درج ہیں جو خاشہ کے لوگ کماندان صاحب کے لیے لے کر جاتے رہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا تھا کہ خاشہ کے جنگجو اربکی آکر دکانوں سے فروٹ کی پیٹیاں، کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر سامان بغیر پوچھے اٹھاکر گاڑی میں بھر کر نہ لے جاتے ہوں۔ کسی کو چوں کرنے کی مجال نہیں ہوتی تھی۔ اس کی اخلاقی و سماجی برائیاں اور مظالم اس پر مستزاد۔
خاشہ کی موت پر میڈیا نے شور تو مچایا تھا مگروہاں کے عوام نے سکھ کا سانس لیاتھا۔