افغان فورسز طالبان کامقابلہ کیوں نہیں کرسکتیں؟

روزنامہ انڈیپنڈینٹ ترجمہ: خلیل احمد برطانوی اخبار روزنامہ انڈیپنڈنٹ نے صوبہ قندوز سے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ شایع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’طالبان نے دو ہفتوں تک قندوز شہر پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا،لیکن طالبان کے اس مختصر عرصہ کے قبضہ نے افغان فورسز کی قوت اور جنگی مہارت کو ہمیشہ […]

روزنامہ انڈیپنڈینٹ

ترجمہ: خلیل احمد

برطانوی اخبار روزنامہ انڈیپنڈنٹ نے صوبہ قندوز سے متعلق ایک تحقیقاتی رپورٹ شایع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’طالبان نے دو ہفتوں تک قندوز شہر پر اپنا کنٹرول برقرار رکھا،لیکن طالبان کے اس مختصر عرصہ کے قبضہ نے افغان فورسز کی قوت اور جنگی مہارت کو ہمیشہ کے لیے غیریقینی ثابت کر دیا ہے۔‘‘

صحافی بلال سروری نے قندوز کے حوالے سے بتایا ہے کہ شہر پر حکومتی فورسز کو مکمل کنٹرول حاصل ہے، مگر انہیں اندیشہ ہے کہ طالبان کسی بھی وقت حملہ کرکے شہر کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔ شہری اشیائے خورد و نوش اور موسم سرما کی شدت سے بچنے کے وسائل تیل اور لکڑیاں فروخت کر رہے ہیں۔ شہر میں خوف و ہراس کا سماں ہے۔ بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان حملہ کرکے دوبارہ شہر کا کنٹرول حاصل کریں گے۔ انہوں نے اس لیے اشیائے خورد و نوش کا بندوبست کر رکھا ہے۔ سیکورٹی فورسز کے ہزاروں اہل کار مورچوں اور چیک پوسٹوں میں الرٹ کھڑے ہیں، مگر انہیں وہ دن بھی یاد ہے جب طالبان نے شہر پر تین اطراف سے تابڑ توڑ حملہ کیا اور ایک گھنٹے میں فورسز کو شہر سے باہر دھکیل دیا تھا۔

سوال یہ ہے کہ اس وقت فورسز اور خفیہ اداروں کے اہل کار کہاں تھے؟ قندوز پر طالبان کے قبضے کے ذمہ دارکون ہیں ؟ قندوز شہر میں طالبان اور فورسز کے درمیان دو ہفتوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں شہر کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ طالبان نے بھی شہر میں داخل ہونے کے دوران سرکاری املاک اور این جی اوز کے دفاتر کو نشانہ بنایا تھا۔ انڈیپنڈنٹ نے اپنی رپورٹ میں ایک شہری ’سیدرحیم‘ کے حوالے سے لکھاہے کہ ’’حکومت نے شہر میں کافی کوششوں کے بعد سرکاری دفاتر تعمیر کیے تھے، لیکن طالبان نے دو ہفتوں میں سب کو مسمار کر دیا۔ اب دوبارہ تعمیرنو کا کام شروع کر دیا جائے گا،جس میں کافی وقت لگے گا۔‘‘ قندوز کے ایک سرکاری اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ ’’طالبان نے ان کے کمپیوٹرز،اہم دستاویزات اور دیگر ضروری مواد بھی نذرِ آتش کر دیا تھا۔‘‘ رپورٹ کے مطابق اب بھی شہر کے مضافات میں اہم علاقوں پر طالبان کا قبضہ برقرار ہے۔ سیکورٹی فورسز ان علاقوں میں آپریشن میں مصروف ہیں، لیکن انہیں اب تک کوئی قابل ذکر کامیابی نہیں ملی ہے۔ گزشتہ ہفتے افغان فورسز نے سیکڑوں فوجی گاڑیوں،ٹینکوں اور بھاری ہتھیاروں کے ذریعے، جنہیں فضائیہ کی مددبھی حاصل تھی،ضلع دشت آرچی کا قبضہ طالبان سے چھڑا لیا،لیکن ضلع کے آس پاس علاقوں میں اب بھی گھمسان کی لڑائی ہو رہی ہے۔ دشت آرچی طالبان کے گورنر ملاعبدالسلام کا آبائی علاقہ ہے۔

بلال سروری کے مطابق دشت آرچی کے لوگ بمباری،راکٹ حملوں اور جنگ کے خوف سے نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ قندوزطالبان کا مضبوط مرکز ہے۔ جنگ کے باعث زراعت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔دشت آرچی کے ایک شہری نے انڈیپنڈنٹ کے نامہ نگار کو بتایا کہ طالبان کی قوت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ بہ تدریج مختلف علاقوں پر کنٹرول حاصل کر رہے ہیں۔ مقامی لوگ بھی طالبان کی سرگرمیوں پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ برطانوی اخبار نے دشت آرچی کے لوگوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ طالبان نے وسیع علاقے پر قبضہ حاصل کر لیا ہے۔ ان کی فوجی قوت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں عدالتیں قائم کی ہیں، جہاں ان کے جج بیٹھتے ہیں اور لوگوں کے مسائل حل کرتے ہیں۔ مقامی لوگ بھی طالبان کی عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔ ان حالات میں لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت عوام کی فلاح و بہبودکے لیے کون سے اقدامات اٹھائے گی؟