افغان وزارت خارجہ کی جانب سے شائع کردہ کتاب، تعارفی تقریب سے مولوی امیرخان متقی کا خطاب

افغان وزارت خارجہ کی جانب سے شائع کردہ کتاب، تعارفی تقریب سے مولوی امیرخان متقی کا خطاب کابل۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ محترم مولوی امیر خان متقی نے گزشتہ روز وزارت خارجہ میں قائم اسٹریٹجک ریسرچ سنٹر میں وزارت خارجہ کی ”ڈیڑھ سالہ سرگرمیاں اور کامیابیاں “کے عنوان سے لکھی گئی کتاب کی […]

افغان وزارت خارجہ کی جانب سے شائع کردہ کتاب، تعارفی تقریب سے مولوی امیرخان متقی کا خطاب

کابل۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ محترم مولوی امیر خان متقی نے گزشتہ روز وزارت خارجہ میں قائم اسٹریٹجک ریسرچ سنٹر میں وزارت خارجہ کی ”ڈیڑھ سالہ سرگرمیاں اور کامیابیاں “کے عنوان سے لکھی گئی کتاب کی تقریب رو نمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے اسٹریٹجک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ ادارے کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے آج ایک اہم کامیابی حاصل کی ہے، اسٹریٹجک ریسرچ سینٹر کے ذمہ داران کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلی فرصت میں وزارت خارجہ کے حکام اور ملازمین کے لئے اور پھر پورے نظام کے لئے ایسی تحقیق اور ریسرچ کریں جو طویل بحرانوں سے دوچار افغانستان کے لئے رہنمائی کا سبب بنیں اور پھر انہی خطوط پر پیشرفت کریں، اس میں شک نہیں کہ خارجہ تعلقات اور پالیسی کو بہت باریک بینی سے دیکھنے اور بہت محتاط انداز سے آگے چلنے کی ضرورت ہے، اس میں دیگر ممالک کے مطالبات، مفادات، ترجیحات اور نظریات سے ان لوگوں کو باخبر رہنا چاہیے جو خارجہ پالیسی تشکیل دینے میں رہنمائی کا کردار ادا کرتے ہیں اور اسی طرح اپنے ملک کے مفادات اور ترجیحات سے آگاہ ہونا چاہیے اور ایسی تجاویز مرتب کریں جو دوسروں کے سامنے پیش کرسکیں، وزارت خارجہ اور یہاں بیٹھے ہوئے دوست سب اعلی تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لوگ ہیں، ان کی کوششوں سے افغانستان کی ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوجائیں گی، لیکن ضروری ہے کہ بہت محتاط انداز سے اور تدبیر سے قدم اٹھانا چاہیے، ایسے اقدامات اٹھائے نہ جائیں کہ جو ہمین واپس پیچھے کی طرف پلٹنے پر مجبور کریں، ایسی باتیں نہ کریں کہ جن پر عمل درآمد ممکن نہ ہو، ایسی باتیں نہ کریں کہ اپنے دل کی بھڑاس تو نکالیں لیکن ملک کے لئے مشکلات پیدا کریں، ایسی باتیں نہ کریں کہ جن پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، آپ کوئی بھی بات کرنے سے پہلے اپنے ملک و قوم کی مشکلات، ترجیحات اور مسائل کو مدنظر رکھیں، اشتعال آنگیز اور بھڑکانے والی باتیں ہر کوئی کر سکتا ہے، لیکن ملک کے طویل مفادات کو تحفظ فراہم کرنا، حکومت کو مستحکم بنانا، یہ مصیبت زدہ افغانستان جس نے چالیس برس کے دوران بیرونی مداخلت کے نتیجے میں بیس لاکھ سے زائد قربانیاں دی ہیں، لاکھوں افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، آپ کس طرح ان کے زخموں کا مداوا کر سکتے ہیں، کس طرح اپنے مصیبت زدہ لوگوں کی معیشت، تعلیم، صحت اور ان کی دیگر ضرورتوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں، یہ تب ممکن ہے کہ جب ملکی اختلافات ختم ہوجائیں اور دنیا کے ساتھ تنازعات سے نکل سکے۔
ہم نے بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ امارت اسلامیہ کی پالییسی یہ ہے کہ افغانستان اب مزید بڑی طاقتوں کے درمیان مقابلے کا میدان نہیں رہے گا، یہاں پر اگر مقابلہ ہوگا تو وہ مثبت مقابلہ ہوگا وہ دو طرفہ تعلقات کی بنیاد پر ہوگا، وہ قومی مفادات کی بناء پر ہوگا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ اسلام کے زرین اصولوں کے مطابق ہوگا۔ ہماری پالیسی ایسی ہونی چاہیے کہ علم، تدبیر اور تحقیقات پر مبنی ہو تب ہم ترقی کی منازل طے کر سکتے ہیں۔
الحمداللہ ثم الحمداللہ، گزشتہ پندرہ، سولہ مہینوں کے دوران وزارت خارجہ نے جتنے بھی اقدامات کئے ہیں، ایک ایسا قدم نہیں اٹھایا ہے کہ جس کی بنیاد پر واپس پیچھے کی طرف لوٹنا پڑا، یہ سب آپ کی اچھی پالیسی، بہترین تدبیر اور علمی تحقیقات کا نتیجہ ہے، اس طرح معاشرہ بنتا ہے اور حکومت مستحکم ہوتی ہے، کوئی بھی ایک دن میں ملک ترقی یافتہ نہیں بنا سکتا، کوئی بھی ملک ایک دن میں تمام زخموں کا مداوا نہیں کرسکتا، ضروری یہ ہے کہ ملک کی ترقی کے لئے سازگار ماحول فراہم کیا جائے، کوئی بھی حکومت اپنے تمام لوگوں کے منہ میں لقمہ نہیں ڈالتی بلکہ سازگار ماحول فراہم کرتی ہے کہ تاجر تجارت کریں، طلبہ تعلیم حاصل کریں، کسان کاشت کاری کریں، ڈرائیور ٹرانسپورٹ چلائیں، ہماری ذمہ داری ہے کہ عوام کے لئے سازگار ماحول فراہم کریں، اسٹریٹجک ریسرچ سینٹر کوشش کرے کہ اپنے ماحول کے مطابق عوام کی ذہن سازی کرے۔
افغانستان کی ایک بڑی یہ مشکل رہی کہ ایک بار ہمارے نوجوانوں کی ذہن سازی کمیونزم کے نظریہ کے مطابق ہوئی اور ملک کو تباہ و برباد کر دیا گیا اور پھر مغربی ذہنیت سے متاثر ہوکر ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا، افغانستان تب بنے گا کہ جب حکمران اور عوام ایک نظریہ کے تحت ایک پیج پر ہوں۔
میں تاکید کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان اپنے جذبات کو پالیسی کے تابع بنائیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کبھی کبھار کسی مخالف کا سر قلم کرنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کرتے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں منع کرتے اور اجازت نہیں دیتے تھے، علماء کرام لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کے جذبات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پالیسی کے تابع ہوتے تھے، ان کے جذبات قابل قدر تھے لیکن وہ اپنے جذبات قابو میں رکھ کر پالیسی کو فالو کرتے تھے، آج یہاں پر اسلامی نظام قائم ہے، اللہ تعالی نے امن قائم کیا ہے، اب آئے روز تین، چار سو نوجوانوں کی قربانیوں اور زخمیوں کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، لوگ پرامن ماحول میں رہتے ہیں، اب کوئی اس قوم کے زخموں پر نمک پاشی نہ کرے، اب اس قوم کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش نہ کرے، اب کوئی اس قوم کے مفادات پر سمجھوتہ نہ کرے، اب ایسی سیاست کرنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان علم، مستحکم معیشت اور تجارت کا مرکز بن جائے اور دنیا کی صف میں ایک ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے شامل ہو جائے۔
افغانستان کی تاریخ کو دیکھیں کہ کونسے نظام کامیاب اور کونسے نظام ناکام ہوئے ہیں، جو نظام دوسرے نظریات پر قائم تھے وہ ناکام ہوئے اور وہ نظام بھی ناکام ہوئے جو صرف جذبات کے تابع تھے اور وہ نظام بھی ناکام ثابت ہوئے جو فرد واحد کے خیالات سے قائم ہوئے تھے، یہاں پر صرف وہ نظام کامیاب ہوئے ہیں جو عوام کی کھوکھ سے جنم لے چکے ہیں اور عوام کی ضرورتوں، مطالبات اور قربانیوں کو پورا کرتے ہیں، موجودہ نظام عوام کی کھوکھ سے جنم لے چکا ہے جس میں ہر گھر، دیہات، محلہ، مسجد، مدرسہ اور اسکولوں تک نوجوانوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور اپنی قربانیوں کی بدولت یہ نظام قائم کیا ہے، یہ نظام عوام کی امنگوں کے مطابق قائم ہوا ہے، لیکن یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ لوگ ہمارے صرف چہروں سے محبت نہیں کرتے بلکہ وہ ہم سے عملی طور پر کام چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کی ضرورتوں کو پورا کریں اور ان کے مسائل حل کریں۔
محترم دوستو! آپ سوچیں کہ ہم اپنے گھر اور خاندان کے لئے کیا سوچتے ہیں، ہم اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لئے تعلیم، صحت اور معیشت کے بارے میں کیا تدابیر اختیار کرتے ہیں اور کتنی کوشش کرتے ہیں، لیکن آج آپ پورے ملک کے حکمران ہیں اور یہ عوام آپ کے لئے اولاد کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر آپ ان سب کے لئے نہیں سوچتے ہیں تو آپ خیانت کے مرتکب ہورہے ہیں، اگر آپ اپنے خاندان کے لئے بہتر سوچتے ہیں، پڑوسی کے ساتھ تنازعات سے دور رہنا چاہتے ہیں، محلے کے لوگوں کے ساتھ نیک برتاو کرتے ہیں اور خاندان کی تمام ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ پوری قوم اور اس بڑے گھر کی ضرورتوں کو مدنظر رکھیں، ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں، اگر آپ نے اس بڑے گھر اور قوم کی ضرورتوں کو مدنظر نہیں رکھا اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی تو آپ اس کے ذمہ دار ہوں گے اور روز محشر اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔
لہذا آج اسٹریٹجک ریسرچ سینٹر کی جانب سے کتاب کی جو تقریب رو نمائی منعقد ہوئی ہے، میں اس پر داد دیتا ہوں، یہ قابل ستائش اقدام ہے، ہم چاہتے ہیں کہ اس طرح مزید کامیابیاں حاصل کریں، آپ تاریخ کا مطالعہ کریں ان لوگوں نے زیادہ خدمات انجام دی ہیں جنہوں نے علم حاصل کیا ہے، جو شخصیات علم، تربیت اور سیاست کے محاذ پر سرخرو ہوئی ہیں وہ سب علم کے زیور سے آراستہ تھے۔
میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ اللہ تعالی نے آج ہمیں بہترین موقع فراہم کیا ہے، لہذا اس موقع سے فائدہ اٹھائیں، جن ساتھیوں نے زیادہ محنت کی ہے انہیں نوازا جائے گا، وزارت خارجہ میں جتنے بھی لوگ کام کرتے ہیں ان کے ساتھ اگر میری دلی محبت ہے تو وہ صرف نظریہ کی وجہ سے ہے، اس فکر کی وجہ سے ہے کہ جس کی بنیاد پر آج ہم یہاں بیٹھے ہیں، لہذا آئندہ بھی ہمارا اور آپ کا تعلق اسی نظریہ اور فکر کی بنیاد پر ہوگا جو بھی اس فکر، اس سرزمین، اس ملک اور اس قوم کی امنگوں کے ساتھ وفادار رہے گا وہ ہمارا بھائی ہے، اللہ تعالی ہمیں اس ملک و قوم کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن