امارت اسلامیہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد کے لئے پرعزم ہے

آج کی بات ایک سال قبل اس دن (29 فروری 2020) کو امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان جارحیت کے خاتمے کے لئے ایک تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔ معاہدے کے مطابق امریکہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلاء امارت اسلامیہ کے تمام قیدیوں کی رہائی، امارت اسلامیہ کے رہنماؤں کو بلیک لسٹ سے […]

آج کی بات

ایک سال قبل اس دن (29 فروری 2020) کو امارت اسلامیہ اور امریکہ کے درمیان جارحیت کے خاتمے کے لئے ایک تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔
معاہدے کے مطابق امریکہ افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج کے انخلاء امارت اسلامیہ کے تمام قیدیوں کی رہائی، امارت اسلامیہ کے رہنماؤں کو بلیک لسٹ سے خارج کرنے، جارحانہ کارروائیوں کو بند کرنے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ اس کے بدلے میں امارت اسلامیہ نے یقین دلایا کہ وہ فریق مخالف کے جنگی قیدیوں کو رہا کرے گی، شرائط کی بنیاد پر بین الاافغان مذاکرات شروع کرے گی، غیر ملکی افواج پر حملے نہیں کرے گی اور کسی کو بھی اجازت نہیں دے گی کہ وہ افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال کریں۔
معاہدے کا ایک سال مکمل ہوا، امارت اسلامیہ نے اپنے تمام وعدے پورے کردیئے ہیں، فریق مخالف کے قیدیوں کو رہا کیا، بین الافغان مذاکرات کا آغاز کیا اور امریکی فوجیوں پر حملے نہیں کئے اور نہ ہی کسی کو افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر حملہ کرنے کی اجازت دی ہے۔ امریکہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ معاہدہ ہونے کے بعد گزشتہ سال کے دوران ایک امریکی فوجی بھی ہلاک نہیں ہوا ہے، نیز گزشتہ ایک سال میں افغانستان سے کسی مغربی ملک پر کوئی حملہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی کو حملہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
امارت اسلامیہ کے برعکس فریق مخالف نے پچھلے ایک سال میں اپنے بیشتر وعدے پورے نہیں کیے ہیں۔ شرائط کو پورا کرنے کے باوجود اس نے امارت اسلامیہ کے تمام قیدیوں کو رہا کیا اور نہ ہی بلیک لسٹ کا خاتمہ کیا ہے اور نہ ہی اس نے مجاہدین کے خلاف اپنی جارحانہ کارروائیوں اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کی ہے۔
امارت اسلامیہ نے فریق مخالف کی خلاف ورزیوں کے بارے میں تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور فریق مخالف اور مداہدے کی تائید کرنے والوں کو بار بار متنبہ کیا ہے کہ وہ معاہدے کی خلاف ورزیوں کو سنجیدگی سے لیں اور جنگ پسند حلقوں کو امن عمل میں حائل رکاوٹیں ڈالنے کی اجازت نہ دیں، دوحہ معاہدہ افغانستان، خطے اور دنیا کے مفاد میں ہے لہذا اسے توڑنا نہیں چاہئے۔ امریکہ کو جنگ پسند لوگوں کی خاطر جنگ کو جاری رکھنے کی پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہئے کیونکہ پچھلے 20 سالوں میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ طاقت کے استعمال سے کبھی بھی صورتحال کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔