دشمن پروپیگنڈے میں بھی ناکام!

آج کی بات: دشمن نے ایک بار پھر مجاہدین کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کا سلسلہ تیز کیا ہے۔ وہ ہمیشہ ایسے وقت میں یہ جھوٹے پروپیگنڈے کرتا ہے، جب اُسے  مجاہدین کے شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ تمام تر وسائل کے با وجود مجاہدین کے سامنے ’’ڈٹ جانے‘‘ کے بجائے ’’بھاگ […]

آج کی بات:

دشمن نے ایک بار پھر مجاہدین کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کا سلسلہ تیز کیا ہے۔ وہ ہمیشہ ایسے وقت میں یہ جھوٹے پروپیگنڈے کرتا ہے، جب اُسے  مجاہدین کے شدید حملوں کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ تمام تر وسائل کے با وجود مجاہدین کے سامنے ’’ڈٹ جانے‘‘ کے بجائے ’’بھاگ جانے‘‘ کو ترجیح دیتا ہے۔

قندوز، بغلان اور ہلمند سمیت افغانستان کے مختلف علاقوں میں مجاہدین کی فتوحات کے بعد دشمن نے ایک بار پھر جھوٹے الزامات کی بارش کر دی  ہے۔ میڈیا میں اب یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ مجاہدین نے متعدد پل تباہ کیے ہیں، اسکولوں کو نذرِ آتش کیا ہے اور  عوامی تنصیبات کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ دشمن کے اِن الزام کے بارے میں افغان عوام کا کہنا ہے کہ کابل ادرے کے غلام اہل کار مجاہدین کے حملوں سے بچنے کے لیے اسکولوں اور طبی مراکز کو بہ طور ڈھال استعمال کرنے لگےہیں۔ جب کہ مجاہدین اِن عوامی فلاح و بہبود سے متعلق مراکز پر حملے نہیں کرتے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنطیم نے بھی افغان عوام کی اس بات کی تائید کی ہے کہ غلام حکومت کے بے مہار اہل کاروں نے اسکولوں میں فوجی چوکیاں بنا کر وہاں تعلیم کے نظام میں خلل ڈال رکھا ہے۔ تنظیم کے مطابق غلام ادارے نے صرف صوبہ بغلان میں ہی 12 اسکولوں میں فوجی چوکیاں بنائی ہیں۔ کچھ علاقوں میں دشمن کے اہل کاروں نے اسکولوں کے اساتذہ اور طبی مراکز کے عملے کو دھمکی دی تھی کہ وہ ان علاقوں میں موجود اپنے مراکز بند رکھیں۔ کیوں کہ اس علاقے کے لوگ مجاہدین کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ واقعہ صوبہ لوگر میں پیش آیا، جہاں عوام کو دھمکایا گیا کہ چوں کہ آپ لوگ مجاہدین کی حمایت کرتے ہیں، اس لیے آپ کو یہ حق  حاصل نہیں کہ اِن عام المنفعت اداروں سے استفادہ کر سکیں۔

اگر دشمن ایک طرف مجاہدین پر مختلف قسم کے الزامات لگاتا رہا ہے تو دوسری جانب اپنے شکست خوردہ اہل کاروں کو طفل تسلیاں دینے کے لیے روزانہ سیکڑوں مجاہدین کی شہادت کا دعویٰ بھی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی کبھار وہ مجاہدین کی بتائی ہوئی تعداد کا ذکرکر دیتا ہے، لیکن بعد میں اچانک تعداد میں اپنی طرف سے اضافہ کر دیتا ہے۔ پکتیا کے ضلع ’جانی خیل‘ کی فتح کے بعد دشمن نے دعویٰ کیا کہ اُس نے 170 مجاہدین کو شہید کیا ہے۔ صوبہ غور میں  بھی 35 مجاہدین  کی شہادت کا دعوی کیا گیا۔ اسی طرح مختلف علاقوں سے دشمن نے مجاہدین کی شہادت کے خیالی اور ہوائی دعوے کیے۔ جب کہ   حقیقت میں ان علاقوں میں سے صرف جانی خیل میں 5 مجاہدین کی شہادت کے علاوہ شہادت کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا۔

دشمن یہ بات یاد رکھے کہ مجاہدین اس مٹی کے اصل وارث ہیں۔ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ ان کا پروپیگنڈا جہادی  عمل کو کمزور نہیں کر سکتا۔ اگر ان کے پروپیگنڈے سے جہاد پر اثر پڑتا تو پندرہ سال سے جاری یہی جھوٹا پروپیگنڈا مجاہدین کو کمزور کر چکا ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجاہدین اللہ کی رضا اور اپنی مقبوضہ سرزمین کو کفار سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس لیے مجاہدین کے مقابلے میں کبھی بھی کرائے کے قاتل اہل کار ٹھہر نہیں سکتے ۔ مختصر عرصے کے لیے غیرملکی جارحیت پسندوں کو کوئی وقتی کامیابی ملتی بھی ہے تو آخرکار انہیں یہاں سے بھاگ کر جانا پڑے گا اور ان کی جگہ مجاہد عوام لیں گے۔

ان فتوحات سے دشمن حواس باختہ ہو چکا ہے۔وہ نہیں سمجھ پا رہا کہ کیا کیا جائے؟ ان کے صبح و شام کے مؤقف میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ان کی مسلح قوت زمین بوس ہو چکی ہے۔ باہمی اعتماد کا سخت بحران ہے۔ یہاں تک کہ ایک مخصوص علاقے میں ایک ہی واقعے کے بارے میں دشمن کے بیانات متضاد ہوتے ہیں۔ اب دشمن کی کوشش یہی ہے کہ مجاہدین کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے اپنی شکست پر پردہ ڈالا جائے،تاکہ اس کے اہل کاروں کے حوصلے بلند ہو جائیں، لیکن دشمن ہمیشہ کی طرح نہ صرف پروپیگنڈے کے میدان میں بھی ناکام ہو چکا ہے، بلکہ اپنے اہل کار بھی اب ان کی اس جھوٹی طفل تسلیوں پر یقین نہیں کرتے۔ کیوں کہ وہ عینی شاہدین کے طور پر مجاہدین کی فتوحات کو براہِ راست دیکھ رہے ہیں۔