سانحہ خوست اور انسانی تنظمیوں کی خاموشی

آج کی بات گزشتہ روز سے صوبہ خوست میں ضربتیان کے نام پر کابل انتظامیہ کی فورسز نے غیر ملکی حملہ آوروں کی حمایت سے ضلع صبری میں بڑے پیمانے پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کیا ہے، ضربتی فورسز نے ضلع صبری میں شہری آبادی پر دھاوا بول دیا ہے، زمینی اور فضائی […]

آج کی بات
گزشتہ روز سے صوبہ خوست میں ضربتیان کے نام پر کابل انتظامیہ کی فورسز نے غیر ملکی حملہ آوروں کی حمایت سے ضلع صبری میں بڑے پیمانے پر ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کیا ہے، ضربتی فورسز نے ضلع صبری میں شہری آبادی پر دھاوا بول دیا ہے، زمینی اور فضائی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔
ابتدائی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ اب تک درجنوں شہری شہید اور زخمی ہوئے ہیں اور لوگوں کے گھروں، مساجد اور نجی املاک کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاں بحق ہونے والے عام شہریوں کی تصاویر، جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں، انسانی روح کو ہلا دیتی ہیں لیکن اس سفاکانہ کارروائیوں اور بربریت پر بیشتر ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار خاموش ہیں۔
خوست میں ظلم و بربریت کا دوسرا دن ہے، لیکن اب تک ملک اور دنیا کی سطح پر انسانی تنظیموں میں سے کسی نے اس کی مذمت کی ہے اور نہ ہی اس کی روک تھام کا مطالبہ کیا ہے، حتی کہ میڈیا نے بھی ابھی تک ان مظالم کی کوئی خبر شائع نہیں کی ہے، میڈیا پر اس حوالے سے مکمل خاموشی ہے، مظلوم افغان عوام صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ان مظالم کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ خوست میں قابض افواج کی تربیت یافتہ ضربتی ملیشیا نے اس طرح کے مظالم کیے ہیں۔ اس سے پہلے بھی شہریوں، مساجد کے آئمہ کرام، طلباء اور دیگر غریب شہریوں کو انہوں نے اپنے گھروں میں بے دردی سے شہید کیا ہے اور کسی نے ان سے پوچھ گچھ نہیں کی ہے۔
خوست میں ضربتی ملیشیا ایک سفاک اور قاتل گروہ ہے جس کو صرف دہشت گردی اور خون خرابہ پھیلانے کی تربیت دی گئی ہے لیکن ابھی تک انسانی حقوق کی کسی تنظیم نے اس گروہ کی سرگرمیوں کی تحقیقات نہیں کی ہیں اور نہ ہی اس نے ان کے اقدامات کو جنگی جرائم قرار دیا ہے۔ یوناما سمیت حقوق انسانی کی زیادہ تر تنظیمیں اپنی ماہانہ اور سالانہ رپورٹوں میں صرف امارت اسلامیہ کو ہی قصوروار ٹھہرانے کی کوشش کرتی ہیں اور بس۔
واضح رہے کہ کابل انتظامیہ کی قاتل فورسز کے اس طرح کے اقدامات جو انسانیت کے خلاف جرم اور جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے شروع کیے گئے امن عمل پر بھی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں، وہ قاتل جو صبح امن کی بھیک مانگتے ہیں مگر شام کو لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارتے ہیں، شہریوں پر فضائی حملے کرتے ہیں، بوڑھوں اور معصوم بچوں کو نشانہ بناتے ہیں، اس صورت میں ان کا امن کا دعویٰ قابل قبول اور قابل اعتبار نہیں ہے۔
افغان مسئلے میں شامل تمام فریقوں اور شخصیات کو خوست میں ہونے والی بربریت جیسے مظالم کے خلاف آواز اٹھانا چاہئے، اس طرح کے واقعات کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ ایسے واقعات قیام امن کے لئے سازگار ماحول اور سنہری موقع کو سبوتاژ کرسکتے ہیں اور انتقام کے جذبے کو ابھارسکتے ہیں۔