شہید ملاروزی خان عاکف:حیات و کارنامے

ملا احمداللہ وثیق کی مرتب کردہ شہید ملا روزی خان عاکف کے سوانح بہت تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ میگزین کے محدود حجم کی وجہ سوانح کو ایک حد تک مختصر کردیاگیا ہے۔اہم اور مفیدِعام ہونے کی وجہ سےاس کا مختصر شدہ متن دل چسپی کے لیے نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔(ادارہ) پیدائش اور تعلیم: […]

ملا احمداللہ وثیق کی مرتب کردہ شہید ملا روزی خان عاکف کے سوانح بہت تفصیل سے لکھے گئے ہیں۔ میگزین کے محدود حجم کی وجہ سوانح کو ایک حد تک مختصر کردیاگیا ہے۔اہم اور مفیدِعام ہونے کی وجہ سےاس کا مختصر شدہ متن دل چسپی کے لیے نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

پیدائش اور تعلیم:

شہید ملاروزی خان عاکف سال 1354ھش کو زابل کے ضلع نوبہار کے گاؤں ’’مشیزو ‘‘میں دین دار اور جہادی خاندان میں حاجی صالح محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے علاقے کے امام مسجد سے حاصل کی۔ بعد میں زابل ضلع شاہ جوئی کے علاقے موسی زو اور گاگڑی میں تعلیم حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ چلے گئے۔ وہاں مختلف دینی مدارس میں جید علمائے کرام سے تعلیم حاصل کی۔ جب 1994 میں خانہ جنگی کے خلاف تحریک اسلامی طالبان کا آغاز ہوا تو بچپن سے جہاد سے محبت رکھنے والے ملاروزی خان طالبان میں شامل ہوگئے۔ اس لیے ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔ انہوں نے شہادت کے وقت تک جہادی مصروفیات جاری رکھیں۔ آخر تک اپنی ادھوری تعلیم مکمل کر نے کے لیے فرصت حاصل نہ کرسکے۔

تحریک طالبان میں شمولیت اور جہاد:

ملاروزی خان عاکف1994 میں خانہ جنگی اور فتنہ وفساد کے راج کے خاتمے کے لیے اٹھنے والی طالبان تحریک کے ایک گروپ میں شامل ہوگئے۔ پہلے قندہار مرکز گئے۔ وہیں سے مجاہدین کی تشکیل میں ’شاہ ولی کوٹ‘گئے اور پھر ملا عبدالرحمن کی قیادت میں مسلح جہاد کا آغاز کیا۔ قندہار کی مکمل فتح کے بعد وہ مختلف اوقات میں مجاہدین کے ساتھ گریشک، دلارام، فراہ،رود اور اسی طرح فراہ کے آب خورما کے علاقے میں گھمسان کی جنگوں میں حصہ لیتے رہے۔ انہوں نے ان جنگوں میں دشمن کے خلاف بے مثال بہادری اور جرأت کا مظاہرہ کرکے مجاہدین کے درمیان نمایاں مقام حاصل کیا۔ اسی دوران آپ جنگ کی اگلی صفوں میں کمانڈر ملا محمد اخوند شہید، ملا رحمت اللہ اخند اور دیگر حضرات کے ہاں اعتماد یافتہ اور توجہ کے قابل بن گئے۔ طالبان صوبہ میدان وردگ کے مرکزی شہر ’’میدان‘‘ سے فساد کے خاتمے کے لیے فسادی جنگ بازوں کے ساتھ مصروف جہاد تھے۔ اس محاذ پر پہلی دفاعی لائن کا سب سے اہم اسٹریٹجک نقطہ اور اہم سیکورٹی چیک پوسٹ ’’کوہ کرغ‘‘ کا مورچہ تھا، جس کی حفاظت انتہائی مشکل اور خطرناک تھی۔ کوہ کرغ کا مورچہ ہمیشہ دشمن کے شدید حملوں اور آمنے سامنے کے معرکوں میں خطرے کا شکار رہتا۔ اس مورچے کی حفاظت میں ملاروزی خان اور ان کے ساتھیوں کا کردار انتہائی اہم تھا۔ کوہ کرغ کا مورچہ ایسی جگہ تھا، جہاں کمک پہنچانے والا بہت آسانی سے دشمن کی نظروں میں آجاتا تھا اور اسے نشانہ بنایا جاسکتا تھا۔ اسی لیے دن کے وقت یہاں بہت کم رسد کی فراہمی کی جاسکتی تھی۔ مگر ملاروزی خان انتہائی جرأت اور بہادری سے دن دیہاڑے اس مورچے تک 4×4 گاڑی کے ذریعے رسد پہنچاتے رہے۔ انہوں نے میدان شہر کے کوہ کرغ، جل ریز اور ارغندی کے علاقوں میں شدید لڑائی میں حصہ لیا۔ جب کابل پر قبضے کے لیے جلال آباد اور میدان شہر سے کارروائیوں کا آغاز کیا گیا تو ملاروزی خان شہید اس تشکیل میں تھے، جو ارغندی کے راستے کابل میں داخل ہوئی۔ کابل کی فتح کے بعد مجاہدین صوبہ پروان کی جانب بڑھنے لگے۔ عاکف شہید نے کچھ مہینے مسلسل صفِ اول میں جہاد کرتے رہے تھے۔ وہ تھک چکے تھے۔لہذا کچھ عرصہ آرام کے لیے اپنے گھر جانے کا سوچا۔

عاکف شہید کے قریبی ساتھی ملا عبدالاحد جہانگیر وال کہتے ہیں: ’’عاکف شہید کابل سے قندہار گئے، اس وقت پروان میں مخالفین کی جانب سے شدید حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ طالبان نے پروان سے عقب نشینی اختیار کی اور کابل شہر کے حدود تک جنگ آپہنچی۔ جب عاکف شہید کو قندہار میں ان حالات کا پتہ چلا تو انہوں نے ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے گھر جانے کا ارادہ ترک کردیا۔ ایک رات قندہار میں گذارنے کے بعد پھر کابل چلے گئے اور صف اول پر پہنچ گئے۔‘‘

کابل کی فتح کے کچھ عرصہ بعد ’’قرغہ‘‘ کی آٹھویں بریگیڈ کی تشکیلات میں کمانڈر امیر خان حقانی کے ماتحت جہادی خدمات کا آغاز کیا۔ اکثر اوقات شمالی علاقوں میں بگرام کی حفاظت کے لیے خط اول کے اہم نقات کی حفاظت کے لیے آپریشن میں مصروف رہے۔ جب 1998ء میں طالبان کا بڑا لشکر سالنگ ٹنل کے راستے شمال کی جانب گیا اور بغلان اور قندوز فتح ہوگئے۔ ملاروزی خان عاکف ان آپریشنز میں بھی شریک رہے۔ جب یہ مجاہدین پل خمری اور قندوز میں محاصرے میں آگئے، انہوں پوری دلیری اور ہوشیاری سے دشمن کے خلاف مزاحمت جاری رکھی۔ اس دوران دشمن کی جانب سے 17 بار پے درپے شدید حملے کیے گئے۔ ان حملوں کی روک تھام میں ملا روزی خان دیگر مجاہدین کے ساتھ شریک رہے اور اہم کردار ادا کیا۔ سلیمان آغا، جو افغانستان پر جارحیت کے ابتدائی مراحل میں ملاروزی خان کے ساتھ تھے، اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’پل خمری دربا تک کے علاقے میں دشمن نے بڑا حملہ کیا۔ کئی مجاہدین محاصرے میں آگئے۔ جب ملاروزی خان نے یہ حالت دیکھی تو گولیوں کی بارش میں اپنی بائی فور گاڑی دشمن کے فوجیوں پر دوڑا دی اور دشمن کی صفوں کے درمیان کھڑے ہوکر جنگ شروع کر دی۔ اس طرح محاصرہ ٹوٹ گیا اور میدان جنگ میں دشمن اپنے 18 فوجیوں کی لاشیں چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ جن کا اسلحہ مجاہدین نے غنیمت میں حاصل کیا۔‘‘

انہوں نے شمال کی فتح کے بعد بلخ میں 800 مجاہدین پر مشتمل ایک بریگیڈ کی کمان سنبھالی۔ ان کے سربراہ کی حیثیت سے مخالفین کے گوریلا حملوں سے دفاع کرتے رہے۔ ملا اسداللہ واسر کہتے ہیں: ’’ مخالفین بلخ اور سمنگان کے جنوبی پہاڑی علاقوں سے گوریلا حملے کررہے تھے، مگر مجاہدین انتہائی سرعت سے ان کا راستہ روک رہے تھے۔ ملاروزی خان اسی علاقے میں شولگرہ، درہ صوف، آق کوپرک اور دیگر علاقوں میں امریکی جارحیت اور بم باریوں کے آغاز تک ایک فعال اور ذمہ دار شخص کی حیثیت سے شریک رہے۔‘‘

امریکی جارحیت اور مسلح جہاد:

جب2001 کے رمضان میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے حکمت عملی کے تحت پسپائی اختیارکر کے تمام علاقوں سے انخلا کردیا تو بھی ملاروزی خان عاکف اپنے علاقے میں فعال رہے۔ اپنے مسلح مجاہدین کے ساتھ جہادی کارروائیوں اور اسلحہ کے ذخائر اور عسکری وسائل کو محفوظ مقام تک پہنچانے میں مصروف رہے۔ ان دنوں راقم الحروف کی ملاقات ملاروزی خان عاکف سے ہوئی۔ انہوں نے وسائل کے حوالے سے بتایا: ’’حال ہی میں میری ملاقات امیرالمومنین سے ہوئی۔ انہوں نے ہدایت دی کہ ’’جہاں تک ممکن ہو ایک گن بھی کسی کے حوالے نہ کرواور تم جانو اور تمہارا کام۔‘‘

2002 کا سال افغانستان میں امریکی جارحیت کا پہلا سال تھا۔ یہ سال شدید مایوسیوں، پریشانیوں اور مصائب کا سال رہا۔ امریکی جارحیت اپنے عروج پر تھی۔ زمینی راستوں حتی کہ گاؤں دیہاتوں تک جارحیت پسندوں کے گشت جاری تھے۔ آسمان میں امریکی ہیلی کاپٹر تھے۔ کفریہ اتحاد اپنی بھر پور قوت کی نمائش کررہاتھا۔ عوام شدید ہیجان، مایوسی اور حیرت کا شکار تھے۔ ملاسلیمان آغا کہتے ہیں کہ انہی دنوں ملاروزی خان نے علاقے کے کئی سینئر اور قبائلی شخصیات کا اجتماع بلوایا اور انہیں اپنے جہادی ارادوں سے آگاہ کیا۔ بات ختم کرنے کے بعد اہل مجلس سے سوال کیا: ’’آپ لوگوں کی رائے کیا ہے؟‘‘ سب اہلِ محفل نے اپنی باری پر رائے دینا شروع کردی۔ مجلس کے اکثر لوگوں کی رائے تھی کہ ’’اب حالات سازگار نہیں ہیں۔‘‘ ملاروزی خان نےسب سے آخری فرد کی رائے لینے کے بعد میری جانب دیکھا اور کہا ’’تمہاری رائے کیا ہے؟‘‘ مجھے اہل مجلس کے مایوس کن جوابات نے بددل کردیا تھا۔ اس لیے کوئی خاص جواب نہ دے پایا۔ ملاروزی خان آہستہ سے ہنسے اور کہا: ’’ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ اگر اور کوئی بھی ساتھ نہ ہو اور میں اکیلا ہی اٹھ کھڑا ہوں اور ہم پر حملہ آور کفار کے خلاف اپنا یہ سر قربان کردوں تومجھے شہیدسمجھاجائے گا؟ میری شہادت خراب تو نہیں ہوگی ؟‘‘ میں نے بے خیالی میں جواب دیا: ’’نہیں کبھی بھی نہیں۔‘‘ انہوں نے اپنی گن کندھے سے لٹکائی اور کہا ’’چلو!‘‘ ہم مجلس سے اجازت لے کر باہر آئے اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر نامعلوم منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ بہت دیر تک ہمارے درمیان خاموشی رہی۔ پھر انہوں نے اپنے آئندہ منصوبوں کے حوالے سے گفتگو کا آغازکردیا۔

ملاروزی خان عاکف نے سب سے پہلا مسلح حملہ زابل ضلع نوبہار کے ضلعی مرکز پر کیا اور اُس پر پوری مکمل قبضہ کر لیا۔ یہاں بہت سے جنگی اور دیگر وسائل غنیمت میں حاصل کیے گئے۔ اگلی صبح صوبہ زابل کے مرکز قلات اور قندہار سے ایک بڑا کانوائے ضلعی مرکز سے مجاہدین کا قبضہ چھڑانے کے لیے آگیا۔ مجاہدین نے ’’سپیرہ سنگ‘‘ کے علاقے میں گھات لگا کر کانوائے کو پسپا کر دیا۔ جس سے دشمن ضلعی مرکز تک نہ پہنچ سکا۔ یہ زابل اور آس پاس کے صوبوں میں سب سے پہلا مسلح حملہ تھا، جو کامیاب رہا۔ دوسرا حملہ سپیرہ سنگ میں نیشنل آرمی پر کیا گیا۔ چند دن بعد ’’سرخکان‘‘ کے علاقے لودینو میں زابل کے سیکورٹی آفس کے اہل کاروں پر مسلح حملہ کیا گیا، جس میں ایک اہل کار اور عبدالخالق نام کا ایک کمانڈر ہلاک ہوگیا۔ نامساعد حالات کے پیش نظر اس طرح کے حملوں کی بڑی اہمیت تھی۔ کیوں کہ اس سے علاقے میں مجاہدین کی موجودگی بھی ثابت ہوتی تھی اور دشمن خوف اور دہشت کا شکار رہنے لگا تھا۔ جس سے علاقہ مکینوں پر دشمن کے رعب میں کمی واقع ہوئی۔ 2003 میں کابل میں قندہار شاہراہ پر تازی کے علاقے میں رات کے وقت نیشنل آرمی کے ایک مضبوط مورچے پر وسیع پیمانے پر مسلح حملہ کیا گیا۔ اس میں ملاروزی خان شہید کے ہمراہ جہادی کمانڈر ملامحمد گل بشیرشہید، ملانذیر اخوند شہید اور ملا احمد اللہ منصور بھی تھے۔ حملے کی کمانڈ ملاروزی خان شہید کے ہاتھ تھی ۔ اس حملے میں ملاروزی خان کے ساتھ رہنے والے اسد اللہ واسر کہتے ہیں: ’’اس رات ملاروزی خان نے مجاہدین کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ مجاہدین کا ایک گروپ گھات لگا کر بیٹھ گیا۔ دوسرا گاڑیوں اور واپسی کے راستے کی حفاظت پر مامور تھا۔ تیسرا چیک پوسٹ پر حملے کے لیے متعین کیا گیا۔ آخری گروپ کی کمان ملاروزی خان کے پاس تھی۔ یہ گروپ چیک پوسٹ کے بہت قریب گیا اور B-M1 نصب کرکے فائرنگ شروع کردی۔ جب تک ہم چیک پوسٹ پہنچے، ملاروزی خان عاکف ہم سے پہلے مورچے تک پہنچ چکے تھے۔ گھات لگائے مجاہدین نے کمک کے لیے آنے والے فوجیوں پر بھی فائرنگ کی۔ کامیاب حملے میں 14 فوجی ہلاک اور 8زندہ گرفتار کرلیے گئے۔ دو گاڑیاں تباہ ہوئیں اور ایک غنیمت میں ملی۔ یہ کارروائی کابل قندہار شاہراہ پر سڑک پر ہوئی تھی۔ اس لیے اس کی جزیات کا عام لوگوں کو بھی پتہ چل گیا اور اسے میڈیا کوریج بھی بہت ملی۔ 2003 میں کے اواخر میں زابل شاہ جوئی کے مرکز اور پولیس ہیڈ کوارٹر پر بڑا اور منصوبہ بند حملہ ہوا۔ ضلع شاہ جوئی صوبہ بھر میں اسٹریٹجک اعتبار سے بہت اہم علاقہ ہے۔ دشمن نے اس کے تحفظ کے لیے ہمیشہ بڑی کوششیں کی ہیں۔اس ضلعے پر دونوں جانب سے حملہ کیا گیا۔ حسن کاریز کی جانب سے کمانڈنگ ملاروزی خان اور ارغنداب سڑک کی جانب سے مولوی محمد عالم کر رہے تھے۔ اس حملے میں دشمن کے بہت فوجی ہلاک ہوئے۔ جن میں محمد جمعہ نامی ایک کمانڈر بھی تھا۔ 2004 میں کابل قندہار شاہراہ پر قلات کے قریب کابل انتظامیہ کی جانب سے زابل کے گورنر خیال محمد حسینی کی گاڑیوں کے کانوائے پر آمنے سامنے حملہ کیا گیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے پولیس اہل کار ہلاک اور زخمی اور بہت سے زندہ گرفتار کیے گئے۔ لیکن گورنر زندہ بچ نکلا۔ اس حملے کے بعد دشمن نے سخت کارروائی کا آغاز کردیا۔ امریکی فوجیوں نے ملاروزی خان اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کے لیے سخت چھاپے شروع کردیے۔

ملاروزی خان 2002 سے 2004 تک انہی امتحانی مراحل میں اپنے کامیاب اور حیران کن کارناموں کے باعث ایک بہادر اور بارسوخ مجاہد رہنما کی حیثیت سے مشہور ہوگئے۔ زابل کے بہت سے اضلاع اور پڑوسی صوبوں غزنی اور قندہار میں بھی انہوں نے شدیدکارروائیاں کیں۔ انہوں نے وقتا فوقتا زابل کے علاوہ غزنی ضلع ناوہ، مقر اور جنڈہ میں بھی کارروائیاں کیں۔ انہوں نے غزنی کے عسکر کوٹ کے امریکی مرکز پر پہلی مرتبہ راکٹ حملے کیے۔ عاکف شہید کے محاذ کے ایک ساتھی ’’ملا داد گل مسلم‘‘ کہتے ہیں: ’’اس آپریشن میں ملامحمد گل بشیر شہید، ملاروزی خان شہید اور دیگر کچھ ساتھی ہمارے ساتھ تھے۔ ہم نے عسکر کوٹ کمپنی پر گولے برسائے۔ ان سالوں کے دوران جہادی رقبے میں توسیع آگئی اور جنوب کے اکثر صوبوں میں جارحیت کے خلاف جہاد اور مزاحمت کا میدان گرم ہوگیا۔ زابل، قندہار، اروزگان اور غزنی کے مجاہدین نے مل کر ایک دوسرے کے تعاون سے جہادی کارروائیاں آگے بڑھائیں۔ اس جہادی فضا کے بنانے اور علاقوں کی آزادی میں بنیادی کردار ملاروزی خان شہید کا تھا۔ جنہوں نے سخت حالات میں جہادی مزاحمت جاری رکھی اور جہادی ولولے کو ٹھنڈا نہیں ہونے دیا۔‘‘

واقعہ شہادت:

ملاروزی خان شہید زابل اور قریب کے جنوبی صوبوں میں جارحیت کے خلاف مسلح جہاد کے نمایاں رہنماوں میں سے تھے۔ ان کے جدت پر مبنی اقدامات اور جہادی کارروائیوں سے علاقے بھر میں جہادی علاقے کو وسعت ملی۔ اس لیے وہ شروع ہی سے دشمن کی آنکھوں کا کانٹا بنے ہے۔ دشمن نے انہیں شہید یازندہ گرفتار کرنے کے لیے بہت سے جاسوس چھوڑ رکھے تھے۔ تاکہ پوری تحقیق کے ساتھ ان کے ٹھکانے کا پتہ چلایا جاسکے۔ جب 2004 میں ضلع سیوری کے مضافاتی علاقوں میں امریکی کانوائے پر حملہ ہوا تو اس میں دیگر فوجیوں کے ساتھ ایک افسر ڈان بھی ہلاک ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد ملاروزی خان نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ ملا سلیمان آغا بہیر کہتے ہیں: ’’اس واقعے کے بعد دشمن کی توجہ ان کی جانب بہت زیادہ ہوگئی۔ ان کی شہادت کے لیے مسلسل چھاپے مارے جانے لگے۔ چار شدید چھاپوں سے وہ زندہ نکل گئے۔ ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ کچھ عرصے کے لیے علاقہ بدل دیں اور ایک طرف کو ہوجائیں۔‘‘

اللہ کی راہ میں شہادت روشن فکر اور پاک طینت مجاہد ملاروزی خان کی آخری آرزو تھی۔ بالآخر 29 اگست 2004 کو دوپہر کے وقت ضلع شاہ جوئی کے مضافات میں خڑدوزی کے علاقے میں ایک گھر میں کسی ساتھی کے ساتھ بیٹھے تھے۔ امریکی فوجیوں نے اچانک فضائی اور زمینی حملہ کیا اور انہیں محاصرے میں بند کردیا۔ خڑدوزی گاؤں کے ایک آدمی نے اپنا آنکھوں دیکھا حال اس طرح بیان کیا: ’’جب گردش کرتے ہیلی کاپٹروں کی آوازیں آئیں تو ملاروزی خان نے اپنی کلاشن کوف اٹھائی اور ساتھی سے کہا: ’’اسلحہ پھینک دو اور گاؤں میں کہیں چھپ جاؤ۔ مجھے اپنے راستے پر جانے دو۔‘‘ انہوں نے گاؤں کے قریب ایک پہاڑ کا رخ کیا۔ گاؤں والوں نے انہیں روکا اور مشورہ دیا کہ کنویں میں کود کر وہیں روپوش ہوجاؤ۔ ملاروزی خان نے کہ: ’’میں خود کو امریکیوں کے ہاتھوں زندہ گرفتار نہیں دیکھنا چاہتا۔ تم اپنا خیال رکھو اور مجھے اپنا کام کرنے دو۔‘‘ وہ پہاڑمیں ایک پگڈنڈی پر انتہائی اطمینان سے چلتے رہے۔ امریکی طیاروں کا شور بہت زیادہ ہوگیا تھا۔ ان پر گیس کے گولے فائر کیے جارہے تھے۔ جب پہاڑی کے سرے پر پہنچے، وہاں بڑے بڑے پتھروں کے بیچ مورچہ بند ہوکر بیٹھ گئے۔ چارٹائروں والے موٹر سائیکلوں پر سوار امریکی ان کی جانب آہستہ آہستہ بڑھنے لگے تھے۔ وہ ان پر فائرنگ کرتے رہے۔ دوطرفہ لڑائی بہت دیر تک جاری رہی۔ ان کی فائرنگ سے کئی امریکی فوجی زخمی بھی ہوئے۔ جنہیں ان کے ساتھی گاؤں کے ایک تباہ شدہ مکان میں لے گئے۔جب ان پر محاصرے کا دائرہ تنگ ہونے لگا تو کئی فوجی پیچھے کی طرف سے گھوم کر آئے اور انہیں شہید کرڈالا۔ انا لله وانا الیہ راجعون

بعد میں امریکی فوجیوں نے ان کا جسد خاکی پہاڑ سے اتارا اور ہیلی کاپٹر میں اپنے ساتھ لے گئے۔ ان کا جسد بیس دن تک امریکی فوجیوں نے بگرام ہوائی اڈے میں سنبھالے رکھا۔ بیس دن بعد علاقے کے بڑے لوگوں کے اصرار پر انہیں جسد مبارک حوالے کردیا گیا۔ جنہیں ضلع نوبہار کے قریب مشیزو کے گاؤں میں سپرد خاک کردیا گیا۔

شہید ملاروزی خان کی شخصیت:

افغانستان کے سابق وزیر تعلیم وثقافت ملا امیر خان متقی 1998 کے جنگی حالات کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے ملاروزی خان کی جہادی سرگرمیوں اور بہادری کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ دشمن کے لیے ان کے حملے، ان کی بہادری، فوجی مہارت اور ہوشیاری کے تذکرے کرتے ہیں۔ اسی طرح امریکی جارحیت کے خلاف جہاد کے آغاز میں ملاروزی خان کے کردار کو قابل قدر سمجھتے ہیں۔ عاکف شہید کی شخصیت کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار مختصر الفاظ میں یوں کرتے ہیں: ’’پل خمری اورقندوز میں محاصرے اور مزاحمت کے دن بہت تکالیف، پریشانیاں اور دباؤ تھا۔ جسے برداشت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ ملاروزی خان اس وقت کم عمر بھی بہت تھے، مگر ان کا حوصلہ اور ثابت قدمی ایک تجربہ کار شخصیت کی طرح تھی۔ انہوں نے ان حالات کا سامنا بہت اطمینان سے کیا۔ ان کو وہ تکلیف سمجھتے ہی نہیں تھے۔ مجھے ان کا یہ عمل بہت پسند آتا کہ جس جانب سختی زیادہ ہوتی، دشمن کا دباؤ ہوتا، ہم انہیں کہتے تو وہ بہت چستی اور خوشی سے اس جانب چلے جاتے۔ وہ کسی خطرے کی پروا نہ کرتے۔ دوسری خاصیت جو ہر ایک مجاہد میں ہونی چاہیے، یہ کہ وہ بااخلاق ہو۔ اس حوالے سے بھی ان پر اللہ کا خصوصی فضل تھا۔‘‘ معروف تجزیہ کار مولوی عبدالرحیم ثاقب ملاروزی خان سے بہت مرتبہ ملے تھے ۔ ان کا کہنا ہے: ’’ملاروزی خان شہید امریکی جارحیت کے خلاف جہاد اور مزاحمت کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ملاروزی خان ایک نوجوان تاریخ ساز شخص تھے۔ جن کے چہرے پر ذکاوت اور عسکری مہارت کے آثار نظر آتے تھے۔ میں جب بھی ان سے ملتا، میرے اندر بھی جہادی عزم اور ہمت تازہ ہوجاتی۔ جب مغربی میڈیا کے پروپیگنڈے نے صلیبی فوجیوں کو دنیا کی واحد فاتح قوت قرار دیا تھا، ان کے مقابلے میں کھڑا ہونا صرف اور صرف اپنی جان سے کھیلنا تھا۔ ملاروزی خان شہید نے اپنی ہمت اور شجاعت سے عملی طورپر افغان عوام کو جارح قوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ دیا۔ صلیبی جارحیت پسندوں کے خلاف جہاد کے ابتدائی مراحل بہت تاریخ ساز اور حساس تھے۔ جن کی بنیاد عاکف شہید جیسے غیور سرفروشوں کی قربانیوں سے رکھی گئی تھی ۔ ہمارے حالیہ جہاد کی تمام تر عسکری اور سیاسی کامیابیاں اسی مرحلے میں تاریخی شخصیات کی قربانیوں اور سرفرشیوں کا حاصل ہیں۔ ملاروزی خان عاکف اپنے ہم عصر جہادی سرخیلوں میں سے ایک نوجوان، جدت طراز اور بیدار مغز قائد تھے۔ جنہیں جارحیت پسندوں کے خلاف جہادی منصوبوں کی تشکیل میں خصوصی مہارت حاصل تھی۔‘‘

امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کہتے ہیں : ’’ملاروزی خان شہید کے نام سے مجھے اس وقت آگاہی ملی، جب تحریک طالبان افغانستان کی فوجیں ’میدان‘ شہر میں شر وفساد کے لشکروں سے نبرد آزما تھیں۔ کوہی کورغ پرثابت قدمی دکھانے کے لیے اکثر ضرورت پڑتی کہ مجاہدین دشمن کے مراکز اور مورچوں پر حملے کریں۔ ان حملوں میں میدان شہر کے خط اول کے تمام مجاہدین اپنا حصہ ضرور ڈالتے۔ ان میں جو سب سے زیادہ بہادر، غیور اور ہوشیار نظر آتا اور ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلتا وہ ملا روزی خان تھا۔ وہ سیاہ چمکتی مشین گنیں کاندھوں پر لیے بہت شوق سے قدم بڑھاتے۔ ان کے ہمراہ مشہور گروپ کمانڈر ملابسم اللہ سحر اور پکتیا ضلع زرمت کے رہائشی ملانذیر اخوند ہوتے تھے۔ یہ تین ساتھی آپس میں انتہائی گہری محبت اور وابستگی کے حامل تھے۔ ملاروزی خان کے ساتھ میری جان پہچان اس وقت بڑھی، جب قندوز میں پہلی مرتبہ طالبان محاصرے میں آئے تھے۔

اس وقت ملاروزی خان شہید بالاحصار اور اس کے قریبی علاقے میں مجاہدین ساتھیوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔ وہ وقتا فوقتا محاصرے کے زمانے میں کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف دشمن کی یلغار کا مقابلہ کرتےاور بڑے اخلاص کے ساتھ جہادی خدمات سر انجام دیتے۔ جب امریکی یلغار کے خلاف دوسری مرتبہ تحریک کا آغاز ہوا تو ملا روزی خان کی بہادری کے قصے صوبہ زابل میں زبان زد عام تھے۔ان کی بہادری،سنجیدگی اور متانت کے علاوہ جس صفت نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ ان کا اخلاص تھا۔ ایک ساتھی نے ان کے متعلق واقعہ سنایا کہ کسی نے ان سے کہا: ’’بھری جوانی میں جہاد کرتے ہو، کہیں شہید نہ ہوجاؤ؟!!‘‘ ملا روزی خان نے کہا: ’’میری بھی خواہش ہے اللہ کی دی ہوئی جوانی اللہ کی راہ میں قربان کردوں۔‘‘ اس بات سے ان کے اخلاص، نیت اور اللہ سے محبت کا اظہار ہوتا ہے۔

شاعر اور لکھاری ملا راز محمدساقیار بڑا عرصہ شہید عاکف کے ساتھ رہے تھے۔ محاذ اور کئی سفروں میں ایک ساتھ رہے۔ انہوں نے بتایا: ’’ ملا روزی خان میدان جنگ میں بہادری اور فداکاری سمیت بہت سی عالی صفات کے مالک تھے۔ اپنی خوب صورتی اور خوب سیرتی،بلند اخلاق اور متواضع طبیعت کی وجہ سے ہر دل کی دھڑکن تھے۔مختلف اقوام اور مختلف زبانوں: عرب،ترک اور ازبک کے مجاہدین ان کے ساتھ ہوتے۔ مگر ان کی از حد کوشش ہوتی کہ سب سے علاقے کی نسبت سے بالا ہوکر تعلق رکھیں۔ آخری بار چھ ماہ تک مسلسل محاذ میں ہرہے۔ جس میں ان کی شہادت بھی ہوئی۔‘‘ ملا عبدالاحد جہانگیر وال امارت کے دور میں امیرالمؤمنین کے کاتب اور سیکرٹری تھے۔ وہ عاکف شہید کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں: ’’شہید ملا روزی خان خوب صورت جوانی اور نیک صفات سمیت بلند فکر اور اعلی تدبیر کے مالک تھے۔ان کی ساری جدوجہد اسلام،وطن، اور عوام کےفائدے کے لیے تھی۔ اسلامی نظام کا نفاذ اور وطن کی آزادی ان کی سب سے بڑی خواہش تھی۔‘‘ قاری حبیب کہتے ہیں: ’’2003 میں ملاروزی خان جہادی میدان میں بہت مشہور ہوئے۔یہ مایوسیوں اور امتحانات کا دور تھا۔ امریکی یلغار زوروں پر تھی،لیکن کہا جاتا تھا کہ زابل میں ملا روزی خان کی سربراہی میں مجاہدین اعلانیہ جہاد کرتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ویڈیو میں ہم نے موصوف کی جہادی فعالیت کے مناظر دیکھے، جو انتہائی روح پرور اور حوصلہ بخش تھے۔موصوف عالمی جارح کفر کے سخت دشمن تھے۔‘‘

موصوف کے جہادی مرتبے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکیوں نے ان کی شہادت کی خبرکو بہت میڈیا کوریج دی۔ شہادت کے واقعے کی فلم بنائی۔ ان کے جسد خاکی کو تین ہفتوں تک بگرام بیس میں رکھا۔بہر حال شہید ملا روزی خان مصائب اور مایوسیوں کی اندھیریوں میں چمکتا ستارہ تھے۔ جس نے نئی جہادی نسل کو راستہ دکھایا ہے۔ جب زابل کے مضافتی علاقوں میں جارحین اور کابل انتظامیہ کی فعالیت محدود ہوگئی تو مجاہدین نے اپنی توجہ کابل قندہار شاہراہ پر مرکوز کردی۔اس شاہراہ پر جارحین کے فوجی و سپلائی کانوائے پر حملوں کو زور دیا۔ عام شاہراہ پر مکمل کنٹرول حاصل کیا۔ بسا اوقات کابل قندہار شاہراہ کئی کئی گھنٹوں کے لیے مجاہدین کے حملوں کی وجہ بند سے رہتی۔ اس صورت حال نے کابل انتظامیہ کو زچ کر دیا تھا۔ مجاہدین سے بات چیت کے لیے انتظامیہ نے کوششیں شروع کردیں۔ اس دوران کابل انتظامیہ کے وزیر داخلہ علی احمد جلالی نے ملا روزی خان سے ٹیلی فونک رابظہ کیا اور کہا: ’’تم ایک بہادر افغان ہو۔ اس دھرتی کے غیرت مند فرزند ہو۔ مجھے تمہاری جرأت پر فخر ہے۔ تم ایک ہستی ہو۔ اس بے جا جنگ میں اپنی جان مت گنواؤ! اگر تم اس سے دستبردار ہوجاؤ تو ہم تمہاری ہر طرح کی شرائط تسلیم کریں گے اور ہر طرح کی مراعات دیں گے۔‘‘ ملا روزی خان نے جواب دیا: ’’میں تمہاری حسنِ نظر کی تعریف کرتا ہوں اور یہ کہنا چاہوں گا کہ افغانستان پر جارحیت کی گئی ہے۔ یہاں ہزاروں کے حساب سے کفریہ افواج آئی ہیں۔ اس وقت ہم اور آپ سب پر جہاد فرض ہے۔ اپنے بارے میں تو میں یہ کہوں گا کہ جب تک ایک بھی خارجی فوجی موجود ہے،جہاد نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘