غزہ کی منظم تباہی اور قتل عام

آج کی بات پچھلے کچھ دنوں سے اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے غزہ شہر پر بھاری بمباری کی جارہی ہے۔ فلسطینی عوام نے عید الفطر کو بھی بمباری اور بارود کی آگ میں گزارا، اگرچہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام بہت پرانا اور مسلسل وقوع پذیر موضوع ہے تاہم اس بار […]

آج کی بات
پچھلے کچھ دنوں سے اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے غزہ شہر پر بھاری بمباری کی جارہی ہے۔ فلسطینی عوام نے عید الفطر کو بھی بمباری اور بارود کی آگ میں گزارا، اگرچہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام بہت پرانا اور مسلسل وقوع پذیر موضوع ہے تاہم اس بار اسرائیل کی بربریت پہلے کی نسبت زیادہ سنگین اور سفاک ہے جس سے غزہ کی مکمل تباہی کا خطرہ درپیش ہے۔
غزے کا شمار دنیا کی سطح پر گنجان آباد علاقوں میں ہوتا ہے، فلسطین پر قبضے کے بعد اس ملک کے بیشتر اصلی باشندے (مسلمان) اسی 360 مربع کلومیٹر کی حدود میں جمع ہوگئے ہیں، بڑھتی ہوئی آبادی نے غزہ کو بلند عمارتوں اور ٹاوروں کے شہر میں تبدیل کردیا ہے لیکن اب اسرائیلی فوج نے ان رہائشی ٹاورز اور سویلین بستیوں کو مسمار کرنے اور ایک بار پھر بے گھر فلسطینیوں کو کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور کرنے کے لئے منظم کوششیں شروع کردی ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے اب تک 100 سویلین گھروں کو نشانہ بنایا ہے، جن میں وہ چھ بڑے ٹاورز بھی شامل ہیں کہ ہر ایک میں سینکڑوں خاندانوں کی رہائش کی گنجائش ہے، اس سے ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ الجزیرہ ٹیلی ویژن کے مطابق اسرائیلی فوج بڑے ٹاوروں اور بلند عمارات کو تباہ کرنے کے لئے JBU.39 کے جدید ترین میزائل استعمال کررہی ہے جو طاقتور فوجی تنصیبات کو تباہ کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں۔
حقائق بتاتے ہیں کہ اسرائیلی فوج نے غزہ کی منظم تباہی اور فلسطینی عوام کے قتل عام کا ارادہ کیا ہے، تازہ ترین خبروں میں بتایا گیا ہے کہ پیر کی صبح آدھے گھنٹے میں غزہ پر 60 سے زیادہ بار بمباری کی گئی جس سے بڑے پیمانے پر تباہی اور جانی نقصان ہوا۔
غزہ میں جاری تباہی اور قتل عام کو روکنے کے لئے ابھی تک کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس اور خطے اور دنیا کے ممالک نے آگ اور خون کے اس جاری طوفان پر صرف کاغذی بیانات کے ذریعے ردعمل ظاہر کیا ہے، اسرائیل کی غاصب حکومت نے ان بیانات کو پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کیا ہے۔
دنیا اور امت مسلمہ کے سامنے غزہ کے برج گرائے جارہے ہیں۔ بچوں، خواتین اور نوجوانوں کو اپنے گھروں میں نشانہ بنایا جارہا ہے، یہاں تک کہ رفاہی ادارے اور میڈیا کے دفاتر بھی محفوظ نہیں ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا ہے کہ یہ ظلم کیوں ہورہا ہے؟ اور غاصب اسرائیل کو کس قانون کے تحت ایسے جرائم کی اجازت اور استثنیٰ حاصل ہے؟
سانحہ غزہ اگر فلسطینی عوام کے لئے عزم اور مزاحمت کا امتحان ہے لیکن دوسری جانب یہ پوری انسانیت کے لئے ضمیر اور انسانی ہمدردی کی بھی آزمائش ہے۔ اس قتل عام کے خلاف انسانیت کی مجرمانہ خاموشی یہ ثابت کرتی ہے کہ موجودہ انسانیت کس حد تک اپنی اصلیت کھو چکی ہے۔ اس جاری ظلم و ستم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آج کی دنیا میں جنگل کا قانون قائم ہے اور کمزور طبقات کو طاقتور حلقوں کی جانب سے کھا جانا چاہئے۔ اس بے حسی نے یہ ثابت کیا کہ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق کے اعلامیے اور انسان دوستی کا رونا یہ سب جھوٹ اور محض بیان بازی ہے جس کا کوئی عملی پہلو نہیں ہے۔