غیر متوازن لیکچر اور پرانے منصوبے

آج کی بات کابل انتظامیہ کے سربراہ نے گزشتہ روز ایک بار پھر کابل یونیورسٹی میں غیر متوازن لیکچر دیا، جس میں حقیقت کے خلاف متضاد خیالات، امن مخالف بیان بازی اور مضحکہ خیز منصوبے شامل تھے۔ اشرف غنی جو عملی ، سیاسی اور میدان جنگ میں اپنی شکست، شرمندگی اور عوامی نفرت کو تسلیم […]

آج کی بات
کابل انتظامیہ کے سربراہ نے گزشتہ روز ایک بار پھر کابل یونیورسٹی میں غیر متوازن لیکچر دیا، جس میں حقیقت کے خلاف متضاد خیالات، امن مخالف بیان بازی اور مضحکہ خیز منصوبے شامل تھے۔
اشرف غنی جو عملی ، سیاسی اور میدان جنگ میں اپنی شکست، شرمندگی اور عوامی نفرت کو تسلیم کرنے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان سے سرنڈر ہونے اور ان کے فرسودہ نظام میں شامل ہونے کا خواب دیکھ رہا ہے اور پڑوسی ملک پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے میں اپنی تمام شکست کو چھپانے کی کوشش کررہا ہے، حالانکہ طالبان نے تمام محاذوں پر فتح حاصل کی ہے، اب عالمی سطح پر ان کی بات سنی جاتی ہے، چند مجاہدین کی کارروائی کے نتیجے میں وہ ایک دن میں متعدد اضلاع اور فوجی اڈوں سے پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔
اگر اشرف غنی اور ان کے ساتھی سیاست کے رموز سے ناواقف ہیں تو انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئے کہ آپ اور آپ کی حکومت کے اعلی حکام کو جنہوں نے مسند اقتدار پر براجماں کیا ہے اور وہ حکومت کے تمام اخراجات، پرتعیش کھانوں، رہائش اور دیگر چیزوں کی مد میں جن کی طرف امداد مل رہی ہے، وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ امارت اسلامیہ کا مقابلہ کرنا پہاڑ کے ساتھ اپنا سر مارنے کے مترادف ہے، اور دوحہ معاہدے کے علاوہ دیگر تمام منصوبے تباہی کے سوا کچھ نہیں، لہذا اس ملک کے ماحول میں پلنے والا مفکر کون ہے جو غیر متوازن تقریروں، غیر مساوی لیکچروں اور بار بار الزامات دہرانے سے چند دن کے لئے مہلت حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
اگر ہمسایہ ملک کے ساتھ افغانستان کی موجودہ صورتحال کا مکمل اختیار ہے تو خیالی لیکچرز دینے اور متضاد خیالات کا اظہار کرنے والے اسی پڑوسی ملک کے فوجی اڈوں اور چکلالہ ائیر بیس میں اس ملک کے اعلی فوجی حکام سے خفیہ ملاقات کرنے سے کیا حاصل کیا؟
آپ لوگوں کی آنکھوں میں مزید دھول ڈالنے کی کوشش نہ کریں! طالبان جب امریکہ اور نیٹو کو افغانستان پر قبضہ ختم کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں، کابل حکومت تو اسی جارحیت کی پیداوار ہے، جارحیت سے جتنے بحران آئے ہیں، کابل انتظامیہ ان بحرانوں کو واپس لانا چاہتی ہے، اس لئے وہ آگ بھڑکانا چاہتی ہے۔
لہذا افغان مجاہد عوام کا فیصلہ یہ ہے کہ جارحیت کے ملکی اور غیر ملکی اسباب اور ایجنٹوں کی بیخ کنی ضروری ہے تاکہ افغانستان مخلص اور سچے افغانوں کے ذریعے حقیقی اسلامی نظام کے قیام کی صورت میں عملی تبدیلی دیکھے۔