لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ!!

آج کی بات 2001 میں جب قابض افواج کے ظلم، بربریت، شور اور پروپیگنڈا کی وجہ سے زمین پر چیونٹی حرکت کرسکتی تھی اور نہ ہی ہوا میں کوئی پرندہ اڑ سکتا تھا، امریکہ کی مصنوعی طاقت پر یقین رکھنے والے کٹھ پتلی ان سے بھی چند قدم آگے نکلے، انہیں سو فیصد یقین تھا […]

آج کی بات
2001 میں جب قابض افواج کے ظلم، بربریت، شور اور پروپیگنڈا کی وجہ سے زمین پر چیونٹی حرکت کرسکتی تھی اور نہ ہی ہوا میں کوئی پرندہ اڑ سکتا تھا، امریکہ کی مصنوعی طاقت پر یقین رکھنے والے کٹھ پتلی ان سے بھی چند قدم آگے نکلے، انہیں سو فیصد یقین تھا کہ امریکہ کے خلاف مزاحمت پہاڑ سے سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔
لیکن جن لوگوں نے یہ راستہ اختیار کیا اور حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھا۔ وہ جانتے تھے کہ اصل طاقت امریکہ نہیں، بلکہ اللہ تعالی کی ہے اور یہ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ «وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ…» یہ لوگ اگرچہ اپنے دشمن کی طاقت کے مقابلے میں بے بس تھے لیکن انہیں اللہ تعالی کے وعدے پر مکمل اعتماد تھا کہ وہ ان کا مددگار رہے گا۔ انہیں یقین تھا کہ اللہ تعالی کی جانب سے مسلمانوں کی امیدوں کے مطابق انہیں عظیم فتوحات سے نوازا جائے گا، « وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ ….الآیة» صرف اللہ تعالی اپنے مومن بندوں کی مدد کرے گا۔
حریت پسند مجاہدین کی قربانیوں کی بدولت آج افغان عوام ایک ایسے اسٹیج پر کھڑے ہیں جو جہاد کی عظیم عبادت اور ان کی بے مثال قربانیوں نے رنگ لایا ہے۔
اب فتوحات کا جو غیر متوقع سلسلہ جاری ہے، اور صلیبیوں کے تربیت یافتہ جوانوں کے جوق در جوق اہل کار جنگ سے دستبردار ہو کر مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں، یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ تعالی کی مدد امریکہ اور نیٹو کی طاقت سے کہیں گنا زیادہ ہے۔ اللہ تعالی نے اپنا وعدہ پورا کر دیا، اگر کسی کو عقل ہے۔
جنگ زدہ افغانستان جلد ہی آزادی کی عظیم نعمت سے مالا مال ہونے والا ہے اور ایک پرامن و خوشحال مستقبل کی خوشخبری کا منتظر ہے۔
یہ اللہ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اللہ کا شکر ادا کریں۔ « لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ…» شکر ادا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ مستقبل میں ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے مجاہدین اور عوام مل کر خدمات انجام دیں، تاکہ مل کر ایک مضبوط اسلامی نظام کی بنیاد رکھنے کے لئے کام کر سکیں۔
اس کے برعکس یہ بہت ناشکری ہوگی کہ اقتدار کی جستجو اور اپنی ذاتی خواہشات اور خود غرضی خاطر اس عظیم نعمت کی ناقدری کی جائے اور اس مصیبت زدہ قوم کو ایک بار پھر بیرونی جارحیت یا ملک کے اندرونی بحرانوں کا شکار بنایا جائے۔