میڈیا کو غیر جانبدار ہونا چاہئے

آج کی بات پچھلے چند ہفتوں کے دوران کابل انتظامیہ نے ملک کے مختلف حصوں میں مجاہدین کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشنز ، فضائی حملوں اور چھاپوں کا اعلان کیا ہے، اور مختلف مقامات پر نہتے شہریوں کو مجاہدین کے نام پر نشانہ بنایا، جیسے ننگرہار، خوگیانو، خوست کے ضلع صبری، بغلان ، قندوز، […]

آج کی بات
پچھلے چند ہفتوں کے دوران کابل انتظامیہ نے ملک کے مختلف حصوں میں مجاہدین کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشنز ، فضائی حملوں اور چھاپوں کا اعلان کیا ہے، اور مختلف مقامات پر نہتے شہریوں کو مجاہدین کے نام پر نشانہ بنایا، جیسے ننگرہار، خوگیانو، خوست کے ضلع صبری، بغلان ، قندوز، لوگر، میدان وردگ، ہلمند، فراہ، غزنی اور کچھ دیگر مقامات پر کھل کر شہریوں کو نشانہ بنایا۔
مجاہدین نے بھی ان کے خلاف جوابی کارروائیاں تیز کردیں، اور کٹھ پتلی حکومت کے اہلکاروں اور فوجیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
اس سلسلے میں کابل میڈیا کی ایک بڑی تعداد اور اس سے وابستہ کچھ صحافیوں نے اپنی غیر جانبداری کو نظر انداز کیا ہے، صرف حکومت کی حمایت میں پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اور وہی کچھ شائع کررہے ہیں جو ایوان صدر، این ڈی ایس اور وزارت دفاع کے دفاتر کی جانب سے انہیں فراہم کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ تمام حقائق پر چشم پوشی کرتے ہیں، مجاہدین کی خبر شائع کرتے ہیں اور نہ ہی کسی واقعہ کے بارے میں ان کا موقف جاننے کی کوشش کرتے ہیں، جب ان سے اس کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ صرف بہانے تلاش کرتے ہیں۔
حکومت جو کچھ شائع کرتی ہے وہ سو فیصد جھوٹ ہے، مثلا ہلمند جنگ کے دوران جب مجاہدین نے ضلع ناوہ میں ایک اہم فوجی اڈے پر حملہ کیا جس میں متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے اور کچھ کو زندہ گرفتار کرلیا گیا، بھاری مقدار اسلحہ اور گولہ بارود کو بھی برآمد کیا گیا، (جن کی تصاویر اور ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر دیکھی جاسکتی ہیں) اس حملے کے بعد افغان فورسز نے کسی مزاحمت کے بغیر متعدد چوکیوں سے پسپائی اختیار کی اور فرار ہوگئیں۔
کابل میڈیا نے متفقہ طور پر خبر شائع کی کہ وہاں پر 100 سے زائد طالبان مارے گئے جن میں 22 القاعدہ کے ارکان تھے جو پاکستانی تھے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں صرف ایک مجاہد شہید اور چار زخمی ہوئے کیونکہ افغان فورسز پسپا ہورہی تھیں، جب کہ ہلاکتیں مزاحمت کی صورت میں ہوتی ہیں۔
نیز القاعدہ اور پاکستانیوں کی موجودگی اور ان کی ہلاکت کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا لیکن اس کے باوجود کابل میڈیا نے یہ غیر مصدقہ خبر کو اس طرح کابل حکام کی جانب سے شائع کرتا رہا کہ صحافتی اصولوں کے مطابق امارت کے ترجمان کی باضابطہ تردید اور موقف کو نظر انداز کر دیا گیا۔
اسی طرح امارت اسلامیہ کی جانب سے عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں دو ہفتوں میں میڈیا کو جو رپورٹ جاری کی جاتی ہے، میڈیا اس کو نظرانداز کرتا ہے، اور بہانہ کرتا ہے کہ حکومت نے ابھی تک اس رپورٹ کی تصدیق نہیں کی ہے، اس کے برعکس رمضان المبارک کے آخری دو ہفتوں میں کابل انتظامیہ کی فورسز کی جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں، میڈیا نے انہیں عام شہریوں کے طور پر پیش کیا، تصدیق کئے بغیر دھڑا دھڑ اس کو شائع کرتا رہا، ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔
اب بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ چاہئے جتنا بھی حملہ آوروں اور کٹھ پتلی حکومت کی مالی اعانت سے چل رہے ہیں لیکن بظاہر تو ان کا دعوی صحافتی اصولوں، غیرجانبداری اور اظہار رائے کی آزادی کا ہے، تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں یا کم از کم انہیں سو فیصد کٹھ پتلی حکومت کا آلہ کار نہیں بننا چاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ میڈیا اس ناکام اور یک طرفہ پالیسی سے فرسودہ حکومت کو دہڑان تختہ سے بچا سکتا ہے اور نہ ہی کرائے کے فوجیوں کے حوصلے بلند کر سکتا ہے، کابل انتظامیہ کی اب جو حالت ہے، اس کی تصویر ویسے بھی سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عوام اور دنیا کے سامنے شائع ہوتی ہے، لیکن میڈیا کو چاہئے کہ کٹھ پتلی حکومت کے لئے اپنی ساکھ خراب نہ کرے۔
اس یک طرفہ اقدام سے میڈیا عارضی طور پر قوم اور دنیا کو جھوٹی خبروں کے ذریعے ورغلا سکتا ہے مگر زمینی حقائق کبھی تبدیل نہیں کر سکتا، اگر میڈیا اس یک طرفہ پالیسی کو جاری رکھتا ہے، یہ افغانستان اور نہ ہی میڈیا کے مفاد میں ہے۔