کابل

پنجشیر سے کابل کو پانی فراہمی کے بڑے منصوبے کا آغاز

پنجشیر سے کابل کو پانی فراہمی کے بڑے منصوبے کا آغاز

 

کابل۔ (خصوصی رپورٹ)
امارت اسلامیہ کی وزارت پانی و توانائی کے حکام کا کہنا ہے کہ پنجشیر سے کابل کو پانی منتقل کرنے کے منصوبے کا سروے شروع کر دیا ہے۔
صوبہ پنجشیر کے گورنر محمد آغا حکیم نے وزارت پانی و توانائی کے ایک وفد اور ایس سی ایم ترک کنسٹرکشن کمپنی کے سربراہ کو پنجشیر سے کابل تک پانی کی منتقلی کے منصوبے کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے پر عمل درآمد سے کابل میں پینے کے صاف پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔
اس منصوبے کے تحت پنجشیر کے مرکز بازارک سے 120 کلومیٹر طویل دو پائپ لائنوں کے ذریعے کابل کے علاقے تر خیل تک پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

وزارت پانی و توانائی کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ کابل کو پانی فراہم کرنے کے طویل المدتی منصوبوں میں سے ایک ہے۔ اس وزارت کے ترجمان قاری مطیع اللہ عابد نے میڈیا کو بتایا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے کابل کے شہریوں کا پانی کی قلت کا دیرینہ مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا۔
واضح رہے کہ دو سال قبل ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کابل میں زیر زمین پانی کی سطح 20 میٹر تک کم ہو گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی، مسلسل خشک سالی، پانی کے استعمال میں لاپرواہی اور گہرے کنوؤں کی مسلسل کھدائی وہ عوامل ہیں جو زیر زمین پانی کی کمی کا باعث بنتے ہیں۔ کابل میں پانی کی قلت ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس کے حل کے لئے امارت اسلامیہ نے ماسٹر پلان مرتب کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق مختلف علاقوں میں ڈیموں کی تعمیر سے کسی حد تک یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

کابل کے مختلف علاقوں میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے بعض فلاحی اداروں نے ٹیوب ویل نصب کئے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹیوب ویل بھی ہمیشہ کے لیے مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔
اس وقت کابل کے مختلف علاقوں میں شہری ان ٹیوب ویلوں پانی کی ضرورت پوری کرتے ہیں تاہم دریائے پنجشیر سے کابل تک پانی کی منتقلی سے بڑی حد تک پانی کی قلت کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے کیونکہ اس وقت کابل میں 60 لاکھ کے قریب لوگ آباد ہیں جبکہ پنجیشر پانی منتقلی کے منصوبے سے 20 لاکھ لوگوں کے لئے پانی کی قلت کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔

آبی شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بڑے اور چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تو لوگوں کے پانی کے مسائل کافی حد تک حل ہو سکتے ہیں۔ افغانستان میں نیشنل ڈویلپمنٹ کمپنی نے کہا کہ گزشتہ سال کے دوران اس نے مختلف صوبوں میں ڈیموں کی تعمیر شروع کی جن میں صوبہ سرپل میں سلطان ابراہیم ڈیم، روزگان میں آغا جان ڈیم اور زابل میں توری ڈیم شامل ہیں۔

اس کے علاوہ وزارت پانی و توانائی نے ملک کے 34 صوبوں کے 360 اضلاع میں 500 ڈیم تعمیر کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا ہے جس سے بھی پینے اور زراعت کے لئے پانی کی قلت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے۔

نیشنل ڈویلپمنٹ کمپنی کے نائب صدر ریاض الدین شریفی کا کہنا ہے کہ زابل میں توری ڈیم بجلی کی پیداوار اور آبپاشی کے لیے بنایا جا رہا ہے، اس ڈیم کی تعمیر کا 92 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے، اس ڈیم میں 64 کلو واٹ بجلی پیدا کرنے اور 600 ہیکٹر اراضی سیراب کرنے کی گنجائش ہے۔

انہوں نے مختلف صوبوں میں نہروں کے منصوبوں کا بھی تذکرہ کیا اور کہا کہ قوش تپہ نہر کے دوسرے مرحلے پر کام تیزی سے جاری ہے اور پہلے مرحلے کا کام 95 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق اس نہر کی تعمیر کے لئے اس وقت 13 سو مشینری کام کر رہی ہیں۔
قوش تپہ کے فاز ٹو دولت آباد سے شروع ہوا، نیشنل ڈویلپمنٹ کمپنی نے گزشتہ سال کے دوران پہلا مرحلہ مقررہ وقت سے مکمل کیا جس پر امارت اسلامیہ کے حکام اور عوام نے مسرت کا اظہار کیا۔
جناب شریفی نے کہا کہ ان علاقوں میں بہت سے لوگوں کو روزگار فراہم کیا گیا ہے اور اس سال بھی بہت سے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا پلان بنایا ہے جس سے بہت سے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔

قوش تپہ کینال پانی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس میں دریائے آمو سے 10 بلین کیوبک میٹر پانی لے جانے کی گنجائش ہے۔
اس نہر کی لمبائی 285 کلومیٹر ہے، اس کی تکمیل کے بعد بلخ، جوزجان اور فاریاب صوبوں کی 550,000 ہیکٹر اراضی سیراب ہوگی اور بہت سے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔