کابل انتظامیہ کیوں دنیا کو پکار رہی ہے

آج کی بات اگرچہ امارت اسلامیہ کو امید ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو اور افغانستان سے غیر ملکی افواج مکمل طور پر نکل جائیں اور کوئی بہانہ نہ کریں، اس لئے بڑے پیمانے پر حملوں کے آغاز اور موسم بہار کی کارروائیوں کا اعلان نہیں کیا، تاہم […]

آج کی بات
اگرچہ امارت اسلامیہ کو امید ہے کہ دوحہ معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات نتیجہ خیز ثابت ہو اور افغانستان سے غیر ملکی افواج مکمل طور پر نکل جائیں اور کوئی بہانہ نہ کریں، اس لئے بڑے پیمانے پر حملوں کے آغاز اور موسم بہار کی کارروائیوں کا اعلان نہیں کیا، تاہم کچھ صوبوں میں اضلاع کی سطح پر اہم فوجی اور سول ادارے کے مراکز مجاہدین کے زیر کنٹرول آگئے ہیں جس پر کابل انتظامیہ کے فوجی اور سیاسی حلقوں نے شور مچایا ہے اور خوف و دہشت کا شکار ہو گئے ہیں۔
حالیہ عسکری کارروائیوں سے کابل انتظامیہ اتنا خوف زدہ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہے کہ گزشتہ روز اس کے سربراہ اشرف غنی کی یوروپی یونین اور سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش جو افغانستان پر جارحیت کے بانی ہیں، کے سامنے چیخیں نکل گئیں اور منت سماجت کی کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا نہ کریں اگر فوج نکالی گئی تو ان کی تمام 20 سالہ کامیابیاں ضائع ہوجائیں گی، طالبان نے پہلے ہی بڑے پیمانے پر جنگ شروع کردی ہے اور بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ امارت اسلامیہ نے ابھی تک بڑے پیمانے پر کاروائیاں شروع کرنے کا آغاز نہیں کیا ہے، کیونکہ اسے توقع ہے کہ مذاکرات کے ذریعے افغانستان میں امن قائم اور موجودہ مصائب اور جارحیت کی کھوکھ سے جنم لینے والے 20 سالہ جراثیم، بدعنوانی اور بحرانوں کا خاتمہ کیا جا سکے، دوحہ معاہدے کی روشنی میں ان تمام مسائل کو حل اور ایک ایسا نظام قائم کیا جائے جو واقعتا افغان عوام کی مذہبی اور قومی امنگوں کی نمائندگی کرے۔
کابل انتظامیہ کو یہ سمجھنا چاہئے کہ جن علاقوں سے افغان فورسز پسپائی اختیار کررہی ہیں اور امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے زیر کنٹرول آرہے ہیں، یہ ایک فطری عمل ہے، سرکاری حکام، عوام اور حتیٰ کہ فوج میں شامل بہت سارے حلقوں اور اہل کاروں کو احساس ہوگیا ہے کہ اس دھرتی اور ملک کے اصل ہمدرد اور محافظ کون ہیں اور وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ان کے آقا اور نیٹو جیسی قوتوں کو افغانستان سے بھاگنے اور ان کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر مجبور کیا، جب امریکہ اور نیٹو نے اس حقیقت کو بھانپ لیا تو یہ کون لوگ ہیں جو خود کو تباہی کے دہانے پر پہنچا کر موت کو دعوت دے رہے ہیں اور غیر مفید جدوجہد کے ذریعے ملک اور عوام کے لئے مشکلات پیدا کررہے ہیں۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جو علاقے یا اضلاع امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے کنٹرول میں آرہے ہیں، اس کی بڑی وجہ مخالف فریق کے حکام اور فوجیوں کا بڑھتا ہوا رجحان ہے جو اپنی مرضی سے امارت اسلامیہ کی صفوں میں شامل ہوکر باطل جنگ میں غیرملکیوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے قربانی دینے کے بجائے یہاں سکون سے رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔