کٹھ پتلی انتظامیہ تباہی کے دھانے پر!

آج کی بات: کابل میں امریکا کی جانب سے نصب شدہ کٹھ پتلی انتظامیہ کے خاتمے کے بارے میں ماضی کی نسبت اب بہت زیادہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ موجودہ اشرف غنی ادارہ بہت جلد ایک بڑی تباہی سے دو چار ہونے والا ہے۔ اس ادارے کے اعلیٰ عہدے داروں اشرف غنی، […]

آج کی بات:

کابل میں امریکا کی جانب سے نصب شدہ کٹھ پتلی انتظامیہ کے خاتمے کے بارے میں ماضی کی نسبت اب بہت زیادہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ موجودہ اشرف غنی ادارہ بہت جلد ایک بڑی تباہی سے دو چار ہونے والا ہے۔

اس ادارے کے اعلیٰ عہدے داروں اشرف غنی، عبداللہ عبداللہ، دوستم، عطاء، پارلیمنٹ ارکان اور صوبائی کونسل کے ادنیٰ ارکان تک ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ مغرب نواز  ٹیکنو کریٹس اور مجاہدین کے نام سے شر پسند جنگجو ؤں کے درمیان جھڑپیں، اربکی ملیشیا اور نام نہاد وردی پوش فوج کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان،  مغرب کے اشاروں پر  افغانستان میں قومی اور لسانی فسادات برپا کرنا اور کابل میں مُردوں کی دوبارہ تدفین پر حکومتی گروہوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں  اس کی واضح مثالیں ہیں ۔ انتظامیہ کی تباہی میں ان تمام تر فسادات کے علاوہ دو سری بڑی وجہ  مجاہدین سے  شکست کھا جانا اور فوجی اہل کاروں کی اموات ہیں۔ یہ دو  وہ بڑی  وجوہات ہیں، جو کابل انتظامیہ کو آہستہ آہستہ تباہی کی جانب دھکیل رہی ہیں۔

مجاہدین کے خلاف جنگوں میں امریکی کاسہ لیسوں کی بے شمار اموات یقیناً  حیرت کی بات ہے۔ روزانہ 30 سے 35 افغان کٹھ پتلی اہل کار مجاہدین کے حملوں میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔ یعنی ایک ماہ میں یہ تعداد تقریباً ایک ہزار تک جا پہنچتی ہے ۔

یہ اعتراف نیٹوکے سربراہ جنرل نکولسن نے کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سکیورٹی فورسز کے ہر ماہ 900 سے زیادہ اہل کار ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس سے قبل نیٹو کے ترجمان جنرل کلیف لینڈ نے بھی اعتراف کہا تھا کہ رواں سال کے صرف آٹھ ماہ میں 5000 سے زیادہ افغان اہل کار ہلاک ہو چکے ہیں۔

اشرف غنی کے مشیر برائے انٹیلی جنس امور حنیف اتمر نے رواں سال کے آغاز میں چین میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا کہ  ’’ہر دن اوسطاً ہمارے 20 سے 25 کے قریب اہل کار مجاہدین کے حملوں میں ہلاک ہو جاتے ہیں اور ہمارے 75 فیصد وسائل بھی جنگ میں تباہ ہو جاتے ہیں۔‘‘

ہلمند کی صوبائی کونسل کے رکن الکوزی نے کہا ہے کہ  گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران صرف صوبہ ہلمند میں 1900 افغان اہل کار مجاہدین کے حالیہ  حملوں  میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

زخمی ہونے والے اہل کاروں کی تعداد بھی جارحیت پسندوں کے ترجمانوں اور ان کی کٹھ پتلیوں کے اعترافات کے مطابق ہزاروں میں ہے۔

دوسری جانب امارت اسلامیہ کے عسکری کمیشن کی طرف سے عوامی نقصانات کی روک تھام کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق صرف گزشتہ ماہ اگست میں 535 کٹھ پتلی اہل کار 150 ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سمیت مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہوئے ہیں۔ دعوت و ارشاد کمیشن کی دعوت پر اس منحوس صف سے مجاہدین کے ساتھ ملنے والے اہل کاروں کی تعداد مذکورہ تعداد سے دُگنی ہے۔

ایسی حکومت جو ایک ماہ میں اپنے  1000 سپاہیوں کی  موت برداشت کرتی ہو اوراس سے زیادہ کی تعداد میں ان کے افراد زخمی ہوتے ہوں، 600 اہل کار جنگ میں مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے  ہوں، سیکڑوں کی تعداد میں مجاہدین کی دعوت پر امارت کے ساتھ مل جاتے ہوں، دورانِ جنگ مجاہدین کا مقابلہ کرنے کے بجائے  کئی اضلاع، فوجی چوکیاں اور فوجی اڈے  چھوڑ کر فرار ہو جاتے ہوں،  حنیف اتمر کے اعتراف کے مطابق 75 فیصد وسائل جنگ میں تباہ ہو جاتے ہیں تو اس انتظامیہ کی تباہی میں کسی کو کیا شک رہا جاتا ہے؟! عسکری ماہرین کے مطابق یہ حکومت تباہی کے دھانے پرپہنچ چکی ہے۔