افغانستان کے بارے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس

ہفتہ وار تبصرہ جمعہ کے روز 06 اگست کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کے متعلق اجلاس کا انعقاد کیا۔ جب ملک میں امارت اسلامیہ کی پیش قدمی کا سلسلہ شروع ہوا اور بہت سے علاقے عوامی حمایت اور مخالف صف کی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کی صورت میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین […]

ہفتہ وار تبصرہ

جمعہ کے روز 06 اگست کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کے متعلق اجلاس کا انعقاد کیا۔ جب ملک میں امارت اسلامیہ کی پیش قدمی کا سلسلہ شروع ہوا اور بہت سے علاقے عوامی حمایت اور مخالف صف کی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کی صورت میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے ماتحت آئے۔ تو  کابل انتظامیہ اوراس کے  کچھ بیرونی حامی ہرممکن کوشش کررہا ہے ،تاکہ امارت اسلامیہ کے خلاف عالمی ذہن کو خراب کریں  اور امارت اسلامیہ کے مقابلے میں رکاوٹیں کھڑی کریں۔

ملکی سطح پر مختلف ناکام کوششوں  کے بعد جب  انہیں کوئی نتیجہ ہاتھ نہ لگا، تو ان کا آخری امید اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل تھی۔ ممکن وہ سوچ رہا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس کے بغیر کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور امارت اسلامیہ سے بڑے پیمانے پر عوامی حمایت کو مدنظر رکھے، ان کے مزاج کے مطابق چشم پوشی سے فیصلہ کرے گا۔

مگر اب صورتحال بدل چکی ہے، افغان قوم کے حقیقی نمائندہ کی قوت کے طور پر امارت اسلامیہ کو دنیا نے تسلیم کرلی ہے۔ اسی طرح امارت اسلامیہ نے گذشتہ کئی سالوں میں ثابت کردیا ہے کہ عالمی اور خطے کے ممالک کیساتھ مشترکہ پرامن زندگی  کو پابند ہے، دنیا کے ساتھ مثبت تعلقات کو ایک اہم اصول سمجھتی ہے اور کسی ملک کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرتی ۔ اس سے بہت سےان  ممالک کے چال چلن اور پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے،جن کا ماضی میں  امارت اسلامیہ کے حوالے سے یک جانبہ اور منفی نقطہ نظر تھا۔

عالمی سطح پر امارت اسلامیہ کی اسی حاصل کردہ اعتبار اور سیاسی حیثیت کی ایک نشانی یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل   کے حالیہ اجلاس سے کابل انتظامیہ کی امید تھی کہ امارت اسلامیہ کے خلاف قاطع پالیسی اپنائے گی، مگر  امارت اسلامیہ کے دشمن اس مقصد بھی ناکام نظر آئے۔

سلامتی کونسل کے اجلاس میں کابل انتظامیہ کے نمائندوں کافی سارے جھوٹے معلومات فراہم کیں : مثال کے  طور پر انہوں نے الزام لگایا کہ حالیہ جنگوں میں عوام کو کروڑوں کا نقصان پہنچا ہے، طالبان کے ساتھ بیرونی نیٹ ورک کے اعضاء ملے ہوئے ہیں، جو  خطے اور دنیا کو سنگین خطرہ لاحق کرے گا۔ اسی طرح کابل انتظامیہ کے انسانی حقوق کمیشن کے چیئرپرسن نے بھی اپنے بیان میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین پر کافی بےبنیاد الزامات لگائیں۔

مگر اس کے برعکس سلامتی کونسل کے اکثر ممالک کے نمائندوں نے اپنے اپنے بیانات میں معمول کے مطابق امن عمل پر اصرار کیا،  کابل انتظامیہ کے نمائندوں کے مبالغے کو اہمیت دینے کے بغیر  اور یا جنگ کے کسی فریق کے خلاف سخت لہجہ استعمال کریں،  کافی حد تک ان کے اظہارات حقائق پر مبنی تھے۔ سلامتی کونسل کے اس اجلاس سے کابل انتظامیہ کی بہت سی امیدیں  وابستہ تھیں، آخرکار وہ اپنے مقصد تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہوسکے اور وہ نتیجہ برآمدہ نہ کرسکا، جس سے انہیں امید تھی۔

امارت اسلامیہ افغانستان اقوام متحدہ سمیت تمام تنظیموں اور ملکوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ افغانستان کے حوالے سے ہمیشہ حقائق پر مبنی پالیسی اپنائے۔ ایک فریق کی حمایت پر اپنے کردار کو زیر سوال لانے کی بجائے بہتر یہ ہے کہ افغان قوم اور  پرامن دنیا  کی بھلائی اور مفاد کو مدنظر رکھے،تاکہ اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کی ہو۔