کابل

اقوامِ متحدہ کا متعصبانہ رویہ

اقوامِ متحدہ کا متعصبانہ رویہ

 

خزیمہ یاسین

اقوامِ متحدہ کی افغانستان کے متعلق پالیسیاں انتہائی متعصبانہ ہیں۔ اقوامِ متحدہ جس قدر غیرجانب داری کے رویّے کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرے، اُس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اپنی بنیادی اسلام دشمن فکر سے انحراف کر کے دنیا میں واقعی امن و امان کی بہتری کے لیے مثبت کوششیں رُوبہ عمل لا سکے۔ اقوامِ متحدہ کی خصوصاً مسلم دنیا کے حوالے سے فکر و نظر انتہائی محدود اور شرم ناک حد تک جانب دارانہ ہے۔ اقوامِ متحدہ نے اپنے اِسی شرم ناک کردار کا مظاہرہ ‘دوحا کانفرنس برائے افغانستان’ میں کیا ہے۔ ایک طرف دنیا کے سنجیدہ ممالک اپنی صوابِ دید پر افغانستان کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔ وہ امارت اسلامیہ کے ساتھ مل کر ترقی کا سفر طے کرتے دوطرفہ تجارت اور افغانستان میں سرمایہ کاری کے لیے مختلف اوقات میں اعلی سطحی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ جس کا یقینی فائدہ فریقین کو ہوگا۔
ایک خبر کے مطابق یہ امارت اسلامیہ کی “خودمختار ترقی اور نظامِ حکومت” کی کامیابی ہی ہے کہ آذربائیجان نے کابل میں اپنا سفارت خانہ کھولنے کے حوالے سے پیش رفت کی ہے۔ آذربائیجان کے سفیر اِلہام محمدوف نے افغان وزیرخارجہ مولوی امیر خان متقی کے ساتھ ایک ملاقات میں اپنی وزارت خارجہ کا افغانستان میں سفارت خانہ کھولنے کے حوالے سے سرکاری خط افغان وزیِرخارجہ کو پیش کیا ہے۔ جب کہ اِلہام محدوف نے افغانستان کی بہترین امن و امان کی صورتِ حال، منشیات کے خلاف قابلِ تقلید کارکردگی اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے امارت اسلامیہ کی کوششوں کی تعریف کی تھی۔ ملاقات میں آذربائیجان کے سفیر اِلہام محمدوف نے تجارتی و سفارتی تعلقات کے علاوہ جس اہم بات کو بیان کرنا ضروری سمجھا، اُس حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ ‘آذربائیجان افغانستان کی خودمختاری اور آزادی کا احترام کرتا ہے اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔’
دوسری خبر کے مطابق نائب وزیرِ پانی و توانائی مجیب الرحمن عمر اخندزادہ سے جرمن کی “Rock Green” اور “Alfa Tec” کمپنیوں کے حکام نے ملاقات میں پانی اور توانائی کے منصوبوں میں تعاون پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس موقع پر مذکورہ کمپنیوں کے حکام نے مذکورہ شعبوں میں سرمایہ کاری میں دل چسپی لیتے ہوئے متعلقہ وزارت کے ساتھ دیگر تکنیکی تعاون کے حوالے سے گفت و شنید کی۔ جب کہ نائب وزیر پانی و توانائی نے جرمن اداروں کے سابقہ تعاون کو سراہتے ہوئے یقین دلایا کہ متعلقہ وزارت جرمن کمپنیوں کی دل چسپی کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔
تیسری خبر کے مطابق وزیر زراعت، آب پاشی و لائیو اسٹاک مولوی عطاء اللہ عمری سے کابل میں ایران کے نائب سفیر سید حسن مرتضوی، ایرانی صوبہ خراسان کے اقتصادی امور کے ڈائریکٹر ابوالفضل چمندی اور ایران کی وزارت زراعت کے ڈائریکٹر ہمتی نے ملاقات کی۔ ملاقات میں ایرانی وفد نے افغانستان میں روزگار، لائیو اسٹاک، زراعت، آب پاشی، باغ بانی، تعلیم، جانوروں کی افزائشِ نسل اور دودھ کے پراسس میں سرمایہ کاری میں دل چسپی کا اظہار کیا۔ جب کہ وزیر موصوف مولوی عطاء اللہ عمری نے متعلقہ شعبوں میں روزگار کے مناسب مواقع کی دست یابی اور ان شعبوں میں کام کی ضرورت کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہم نے ہمیشہ ہر اجلاس میں ایران کو مل کر کام کرنے کی دعوت دی ہے۔’
چوتھی خبر کے مطابق نائب وزیر صنعت و تجارت مولوی قدرت اللہ جمال کے ساتھ ملاقات میں متعدد ترک تاجروں اور سرمایہ کاروں نے افغانستان میں ہوائی اڈوں، بجلی کی پیداوار، صنعتی پارکوں اور تجارتی ٹاؤن میں سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ نائب وزیر صنعت و تجارت نے افغانستان کے متعلقہ شعبوں میں ترک تاجروں کی شرکت کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے تعلقات سے فریقین کے درمیان تجارتی تعلقات مزید مضبوط ہو سکتے ہیں۔ مولوی قدرت اللہ جمال نے مزید کہا کہ البتہ تجارت اور صنعت کو سیاست کی زَد میں نہیں آنا چاہیے۔ ہماری اقتصادی پالیسی ہر ملک کے ساتھ صرف اقتصادی اہداف پر مبنی ہے۔ افغانستان اسلامی ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات میں دل چسپی رکھتا ہے اور بہت سے اسلامی ممالک نے افغانستان کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات پہلے سے زیادہ مضبوط کرتے ہوئے افغانستان میں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔
پانچویں خبر کے مطابق ‘افغانستان الیکٹرک کمپنی’ کے حکام کا کہنا ہے کہ امارت اسلامیہ نے بجلی کی مَد میں پہلی بار چار ہمسایہ ممالک ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ایران کے قرضے ادا کر کے خود کو مکمل طور پر فارغ کر لیا ہے۔ افغانستان الیکٹرک کمپنی کے ترجمان حکمت اللہ میوندی نے اپنے ’ایکس اکاؤنٹ‘ پر لکھا کہ ’امارت اسلامیہ کی حکومت میں سب سے بڑا مسئلہ شعبۂ بجلی میں مذکورہ چار ہمسایہ ممالک کا قرض تھا، جو سابقہ جمہوری انتظامیہ کے ذمے واجب الادا تھے۔ اگرچہ عالمی اداروں کی طرف سے ہمارے بینکوں پر پابندیاں ہیں، مگر بالآخر ہم مذکورہ ممالک کے قرضوں کی تقریباً 627 ملین ڈالر کی رقم مکمل طور پر ادا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔‘ حکمت اللہ میوندی نے مزید کہا کہ افغانستان کی تاریخ میں یہ امارت اسلامیہ ہی کی کرپشن سے پاک حکومت میں ممکن ہوا ہے کہ افغانستان نے بجلی کی مَد میں پڑوسی ممالک کو قرضوں کی ادائیگی کے علاوہ پیشگی ادائیگیاں بھی کر دی ہیں۔ یاد رہے افغانستان کی 80 فیصد بجلی ہمسایہ ممالک سے درآمد کی جاتی ہے۔ تاہم افغانستان الیکٹرک کمپنی کے حکام نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اندرونی وسائل پر بھی کام کیا جا رہا ہے۔ 5 سال میں ہی افغانستان ملکی وسائل سے 710 میگاواٹ بجلی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
چھٹی خبر کے مطابق دنیا افغانستان میں بہترین امن و امان کی وجہ سے سرمایہ کاری کے لیے مختلف شعبوں کا انتخاب کر کے افغان حکام سے معاملات طے کر رہی ہے۔ جیسا کہ روسی سرمایہ کاروں نے وزیرمعدنیات و پیٹرولیم شیخ شہاب الدین دلاور سے ملاقات میں کہا کہ وہ افغانستان میں کچرے سے 150 میگاواٹ بجلی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ وزارت معدنیات کے مطابق روسی سرمایہ کاروں نے کچرے سے بجلی کی پیداوار میں سرمایہ کاری میں دل چسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ‘ان کی کمپنی 120سال سے ایران، عراق، شام اور تاجکستان میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اب ہمیں افغانستان میں کچرے سے بجلی بنانے کے لیے وزارت معدنیات کے تعاون کی ضرورت ہے۔’ جب کہ وزیرمعدنیات نے روسی تاجروں کا خیرمقدم کیا اور انہیں ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا ہے۔
ساتویں خبر کے مطابق صوبہ زابل کے محکمۂ صحتِ عامہ کے حکام نے کہا ہے کہ زابل میں منشیات کے عادی 200 افراد علاج کے بعد صحت یاب ہوکر اسپتال سے فارغ کر دیے گئے ہیں۔ صوبے کے 50 بستروں پر مشتمل اسپتال کے سربراہ سید امین ثاقب نے باختر نیوز کے مقامی نامہ نگار کو بتایا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران صوبے کے مختلف علاقوں سے تحویل میں لیے گئے 200 منشیات کے عادی افراد کا اس اسپتال میں علاج کیا گیا ہے۔ اس وقت اسپتال میں تقریباً 40 نشے کے عادی مزید افراد زیرِ علاج ہیں۔ سید امین ثاقب نے کہا کہ اسپتال میں منشیات کے عادی افراد کے علاج اور دیکھ بھال کی مکمل سہولیات موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسپتال سے فارغ ہونے والے صحت مند افراد اب بھی وزارتِ صحت کی ٹیموں کی نگرانی میں ہیں، تاکہ وہ دوبارہ غیرصحت مندانہ سرگرمیوں میں شامل نہ ہو جائیں۔ مزید یہ کہ اُن کی صحت کی مزید بہتری کے لیے بھی اُن کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
مزید یہ کہ ہرات میں نشے کے عادی افراد کے لیے 4,000 بستروں پر مشتمل اسپتال کے حکام کا کہنا ہے کہ اس اسپتال میں 4,500 سے زیادہ نشے کے عادی افراد زیرِ علاج ہیں۔ جب کہ بغلان کے سکیورٹی حکام نے مذکورہ صوبے میں 22 منشیات کے عادی افراد جمع کرکے اُنہیں مرکزِ صحت منتقل کرنے کی اطلاع دی ہے۔ جب کہ صوبہ قندوز کے پولیس چیف کے ترجمان قاری جمعہ الدین خاکسار نے باختر نیوز کو بتایا کہ امارت اسلامیہ کی آمد کے بعد مرکز کے علاوہ 9 اضلاع میں 1800 منشیات کے عادی افراد علاج مکمل ہونے کے بعد اپنے اہل خانہ کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔
آٹھویں خبر کے مطابق غزنی کے گورنر حافظ محمد امین عمری نے اس صوبے میں انسدادِ منشیات کے اجلاس میں کہا ہے کہ امیرالمؤمنین حفظہ اللہ کے فرمان کے مطابق غزنی میں منشیات کی کاشت، اسمگلنگ اور فروخت کی شرح صفر ہوگئی ہے۔ اس اجلاس میں وزارتِ داخلہ کے انسداد منشیات سروے اینڈ کنٹرول کے سربراہ مفتی عبدالحق نے شُرکا کو منشیات کے خلاف امیرالمؤمنین حفظہ اللہ کا فرمان سُنا کر کہا کہ وہ منشیات کے خلاف جنگ میں اُن کے ساتھ تعاون کریں۔ واضح رہے کچھ عرصہ قبل اس صوبے میں سیکڑوں منشیات کے عادی افراد کا علاج کیا گیا تھا۔
افغانستان روسی دہشت گردی کے وقت سے امریکی شکست خوردہ انخلا تک تقریباً چار دہائیاں اسلام دشمنوں کی مداخلت برداشت کرتا رہا ہے۔ اس معاملے میں کسی نے افغانستان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔ اب جب طالبان نے بے شمار قربانیاں دے کر افغانستان کو بیرونی مداخلت سے محفوظ بنایا ہے تو دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی یا کسی بھی نوعیت کے تعلقات کے دوران افغان حکام کی سب سے بڑی ضرورت اور خواہش یہی ہے کہ کوئی بھی ملک افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ البتہ کسی کو بھی افغانستان میں سرمایہ کاری، تجارتی سودوں اور امدادی سرگرمیوں میں جیسا بھی تعاون چاہیے ہوگا، امارت اسلامیہ وہ فراہم کرنے کی مکمل ذمہ دار ہے۔
ایک طرف امارت اسلامیہ کی اِس قدر بڑی کامیابیاں ہیں، جنہیں سنجیدہ دنیا سے تعلق رکھنے والے چین، آذربائیجان، ترکیہ، روس اور جاپان جیسے ممالک تسلیم کر رہے ہیں۔ جب کہ امن و امان کی بہترین اور آئیڈیل صورتِ حال ہی کی وجہ سے جاپان جیسے ملک کے سفیر تاکا یوشی کرومی نے وزیر اطلاعات و ثقافت ملا خیر اللہ خیرخواہ سے ملاقات میں کہا ہے کہ جاپان امارت اسلامیہ کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ سفیر موصوف نے مزید کہا کہ “اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا افغانستان کے ساتھ بات چیت کرے۔” جب کہ جاپانی سفیر نے امارت اسلامیہ کی طرف سے افغانستان میں امن وامان کے قیام، اقتصادی ترقی، منشیات اور بدعنوانی کے خاتمے کی بنیاد پر امارت اسلامیہ کی پالیسیوں کو کامیاب قرار دیا اور تعریف کرتے ہوئے افغانستان کے لیے 45 ملین ڈالر کی امداد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
جب کہ دوسری طرف اقوامِ متحدہ ہے، جو اپنی بدنیتی کی بنیاد پر ابھی تک امارت اسلامیہ کی دنیا کے پائیدار امن و تجارت کے لیے قابلِ تعریف پالیسیوں کی حمایت کرنے کے بجائے افغانستان کے اندرونی معاملات، خصوصاً خواتین کے حوالے سے غلط اور بے بنیاد پروپیگنڈے میں مصروف ہے۔ بلاشبہ اقوامِ متحدہ اُس امریکا کے اشاروں پر ناچ رہا ہے، جس امریکا نے افغانستان کی تباہی کے لیے 50 کے قریب ممالک کی فوجیں لے کر افغانستان پر گولے و بارود کی بارش برسا دی تھی۔ اب اُسی امریکا کو فلسطین میں اسرائیل جیسے دہشت گرد کے ہاتھوں نسل کُشی کے شکار غزہ کے باسیوں کی کوئی فکر نہیں ہے۔ یہی امریکا اسرائیل کو اخلاقی اور اسلحے کی ہر ممکن سپورٹ مہیا کر رہا ہے، تاکہ فلسطینی قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ یہ اقوامِ متحدہ اور امریکا کی نِری منافقت ہے، جس سے تمام دنیا باخبر ہے۔
دوحا میں ہونے والا اقوامِ متحدہ کا کس قدر غلط اور فریب پر مبنی اجلاس تھا، جس میں اقوامِ متحدہ کو اپنی ناک تلے غزہ میں شہید ہونے والی 9 ہزار خواتین سمیت بچوں اور بوڑھوں کی تقریباً 27 ہزار اموات کی فکر نہیں ہے۔ اُسے صرف امن و سکون اور عزت و عفت کے ساتھ اپنے گھروں میں زندہ و جاوید افغان خواتین کی فکر دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ جب کہ درحقیقت معاملہ یہ ہے کہ امریکا اور اقوامِ متحدہ کو افغانستان میں اسلامی نظام سے خوف ہے۔ وہ اسلامی نظام کے پھلنے پھولنے کے خوف اور ڈر سے اپنے غلام ممالک کی گردنوں میں اپنے پاؤں کا دھاگا باندھ کر آزاد اور خودمختار افغانستان کے خلاف پروپیگنڈوں میں مصروف رکھنا چاہتا ہے، تاکہ افغانستان ایک مرتبہ پھر عالمی ساہوکاروں کے جنگی کھیل کا میدان بن جائے۔