کابل

دوحہ معاہدہ: کس نے کتنی ذمہ داری دکھائی!

دوحہ معاہدہ: کس نے کتنی ذمہ داری دکھائی!

تبصرہ: الامارہ اردو

چار سال قبل افغانستان کی تقویم کے مطابق 10 حوت مطابق 29 فروری 2020 کو قطر کے دار الحکومت دوحہ میں امارت اسلامیہ اور امریکا کے درمیان جارحیت کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔
یہ 21ویں صدی کا وہ تاریخی دن تھا جب امارت اسلامیہ افغانستان اور امریکہ کے درمیان ڈیڑھ سال کے مذاکرات کے بعد امارت اسلامیہ نے فتح حاصل کی اور جارح افواج کے ساتھ افغانستان سے انخلا کا معاہدہ کیا۔ معاہدے پر ایسے وقت میں دستخط ہوئے جب امارت اسلامیہ افغانستان اور امریکا کے نمائندوں کے علاوہ 60 ممالک کے نمائندے بھی شریک تھے۔
معاہدے سے قبل تقریباً دو دہائیوں تک جارح افواج نے افغان عوام پر ظلم و بربریت کے ان تمام دعووں کی قلعی کھول دی جس میں وہ انسانی حقوق کے دعوے کر رہے تھے۔ شادیوں پر بمباری ہوئی۔ چھاپے مارے گئے، سوئے ہوئے لوگوں کو گولی مار دی۔ جنازوں پر بم پھینک کر وہیں سے مزید جنازے اٹھائے گئے۔ جارحیت پسندوں کی اندھی گولیوں اور ڈرون حملوں سے بہت سے خاندان بے گھر اور بچے یتیم ہو گئے۔ افغانستان کے سچے لیڈروں کو گوانتاناموبے اور بگرام کے جیلوں میں ڈال کر سخت اذیتیں دی گئیں۔ لیکن ان تمام مصائب و آلام کے باوجود افغان عوام نے جارح افواج کا اس طرح مقابلہ کیا کہ انہیں نہ اپنے سر کی پروا تھی اور نہ ہی اپنی جان کی۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کے خلاف جہادی جدوجہد کا آغاز بھی دس حوت (29 فروری) کو ہوا تھا۔
اس وقت صوبہ پکتیا کے ضلع شاہی کوٹ کے فلک بوس پہاڑوں میں کمانڈر ملا سیف الرحمن منصور شہید کی سربراہی میں جہاد کا آغاز ہوا۔ دو عشروں کے جہادی جدوجہد میں افغان سر زمین کے فرزندوں نے جارح افواج کو دندان شکن جواب دیا، بالآخر جارح افواج عسکری مقابلہ چھوڑ کر مذاکرات کے میز کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ جی ہاں! یہ یہی مجاہدین تھے جنھیں جارح افواج پہاڑوں میں بھی زندہ رہنے کا حق نہیں دیتی تھی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں امریکا اور ان کے ہم نواوں کو شکست ہوئی اور افغان عوام اسلامی تاریخ میں اکیسویں صدی کے فاتحین میں شمار ہونے لگے۔
معاہدہ ہو گیا۔ جارح افواج کو بھگا دیا گیا اور اس سرزمین کو ایک بار پھر شہدا کے خون کی بدولت اسلامی نظام کی نعمت نصیب ہوئی۔ پورے ملک میں جارح افواج کی آمد سے شروع ہونے والا خونریزی کا سلسلہ صبر و استقامت کے نتیجے میں مکمل طور پر رک گیا۔

معاہدے پر کتنا عمل در آمد ہوا؟

معاہدہ کے بعد اس پر عمل در آمد سب سے اہم اور ضروری مرحلہ ہے۔ اگر ہم گذشتہ ڈھائی سال کا جائزہ لیں تو امارت اسلامیہ نے اس معاہدے پر مکمل طور پر عمل در آمد کیا ہے۔
افغانستان کو ایک محفوظ سر زمین بنایا۔ جہاں سے کسی دوسرے ملک کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ منشیات دنیا کے لیے ایک سنجیدہ چیلنج تھا، امارت اسلامیہ نے افغانستان سے اس کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ افغان سرزمین دہائیوں بعد ایک مرکزی حکومت اور قیادت کے تحت اس طور پر منظم ہوئی کہ خوف پھیلانے والی کسی گروہ کو اس میں رہنے کی جرأت نہ ہوئی۔ امن و امان بحال اور سیکیورٹی رسک نہیں ہے۔ افغان عوام دوبارہ اپنی آرام دہ زندگی طرف لوٹ گئے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
لیکن اگر ہم معاہدے کے دوسرے رخ پر نظر ڈالیں تو دست یاب شواہد ہمیں بتاتے ہیں کہ امریکی فریق نے بارہا اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔ افغانستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے جو دوحہ معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ امارت اسلامیہ کے رہنماؤں پر عائد پابندیاں، جو معاہدے کے بعد چھ ماہ کے اندر ختم ہو جانی چاہیے تھیں، آج تک برقرار ہیں۔ امارت اسلامیہ کی حکومت پر سیاسی اور اقتصادی دباؤ میں بھی کوئی کمی نہیں آئی، وہ ممالک جو امارت اسلامیہ افغانستان کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں امریکا اس میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے اس طرح کی خلاف ورزیوں کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ لیکن امارت اسلامیہ کے ذمہ داروں نے اسلامی اصولوں اور احکامات کے مطابق کبھی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کی۔
جس طرح امارت اسلامیہ نے دوحہ معاہدے کے تمام شقوں کی پاس داری کی اور اس پر عمل در آمد کو ممکن بنایا، اسی طرح امریکی فریق کو بھی معاہدے کی پاس داری کے لیے دیانت دارانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکہ اور دنیا جانتی ہے کہ امارت اسلامیہ کے ساتھ بات چیت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
اگر امریکی فریق مستقبل میں بھی معاہدے کی شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے تو مستقبل میں کسی بھی بحران اور مصائب کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ دوحہ معاہدے کے ساتھ ایک طویل جنگ کا خاتمہ ہو گیا ہے، جسے امریکی عوام کی اکثریت ختم کرنے کے حق میں تھی۔ لہٰذا اس معاہدے سے وابستگی ہی مسائل کا واحد حل ہے اور اسے نظر انداز کرنا تاریخی غلطی ہوگی۔