کابل

عالمی نظام اور اصلاحات کا چیلنج

عالمی نظام اور اصلاحات کا چیلنج

تحریر: داد محمد ناوک

گزشتہ روز تہران میں مسئلہ فلسطین سے متعلق منعقدہ اجلاس میں امارت اسلامیہ افغانستان کے وزیر خارجہ محترم مولوی صاحب امیر خان متقی نے اپنے خطاب کے دوران ورلڈ آرڈر پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ نظام موجودہ بیدار انسان کو مطمئن نہیں کر سکتا، جس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی سطح پر حکمرانوں اور ان کا طرز حکمرانی دن بدن بیکار ہوتا جا رہا ہے اور یہ ضروری ہے کہ انسانیت کو آزادی حاصل کرنے کے لیے متحد ہونا پڑے گا۔

یہ معاملہ کوئی نیا نہیں ہے، الیکسس کیرل (1873-1944) نے اپنی مشہور تصنیف (Man the Unknown) میں اس موضوع پر بحث کی ہے۔ اگرچہ اس کی موت دوسری جنگ عظیم سے ایک سال قبل ہوئی تھی، تاہم اس وقت کے عالمی نظام سے متعلق انہوں نے اصلاح کے لیے اہم حل پیش کیے تھے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ جب تک دنیا پر ایک ایسے شخص حکمران نہ بنیں جو انسان کے علاوہ کسی دوسری طاقت سے خوفزدہ ہو، اس وقت تک عالمی نظام تعمیر ہونے کے بجائے تباہ ہو جائے گا۔

سید قطب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب “اسلام کا روشن مستقبل” میں اس نکتے پر تبصرہ کیا ہے اور ان کے نزدیک یہ بالواسطہ اعتراف ہے کہ دنیا پر ایک مذہبی نظام کی حکمرانی ہونی چاہیے، اور پھر مروجہ مذاہب میں سے کونسا مذہب زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے اور موجودہ انسان کو خوشحالی اور اطمینان عطا کر سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام ہی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے رہنما دین ہے۔

امریکی سیاست دان فوسٹر ڈیلاس (1888-1949) نے اپنی کتاب (جنگ یا امن) میں اعتراف کیا ہے کہ مغرب ٹیکنالوجی میں آگے ہے لیکن اخلاقیات میں پسماندہ ہے، اس وجہ سے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہی ٹیکنالوجی ہمارے خلاف استعمال ہو جائے، انہوں نے تسلیم کیا کہ دنیا پر بندوق کے زور پر حکمرانی زیادہ دیر تک ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح انگریز جارج برنارڈ شا (1898-1943) سے منسوب ایک جملہ ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ یہ جہاز زمین پر ناکارہ پڑے ہوں گے اور ان پر لکھا ہوا ہوگا، “زمانہ جاہلیت کی یادگار”۔

ان تمام باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی مفکرین کا بھی یہ ماننا تھا کہ دنیا کی حکمرانی طاقت سے نہیں ہونی چاہیے بلکہ اخلاق اور دیانت پر مبنی ہونی چاہیے، ایسی دیانت کہ انسان کو انسان سے ڈرایا نہ جائے، کیونکہ اس دنیا میں مہذب طریقے سے رہنے کے لئے ضروری ہے کہ حکمران خود کو قوانین سے بالا تر نہیں بلکہ عوام کے خادم اور ذمہ دار سمجھیں۔

موجودہ عالمی نظام کے حوالے سے چند سال قبل ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے اقوام متحدہ میں ویٹو رکن ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ سراسر ناانصافی ہے کہ پانچ ممالک کا دنیا پر راج ہو اورباقی تمام ممبران کی رائے کی ان میں سے کسی ایک کے سامنے کوئی اہمیت نہ ہو۔

اسی طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے موجودہ مغربی سماجی ڈھانچے اور عالمی نظام سے جنم لینے والی سماجی تباہی پر گفتگو کی اور اس بات پر زور دیا کہ یہ نظام انسانی معاشروں کے لیے نقصان دہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک مغربی کے نزدیک مغرب جو اپنی شناخت کے تنازعے میں گھرا ہوا ہے، وہ دنیا کو ایک جنگل اور اپنے آپ کو سبز باغ کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس لئے وہ مسلمانوں کو نشانہ بناتا ہے۔

خاندانی نظام کے بغیر اخلاقیات اور تعلیمی رہنما اصول پایہ تکمیل تک نہیں پہنچتے، جنس اور شادی سے متعلق مصنوعی روایات کا اصل مقصد ماں، باپ اور فطری خاندان جیسے اعلیٰ اور اہم تصورات کو تباہ کرنا ہے۔ یہ روش دراصل انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، جو کہ ہمارے انسانی حقوق کے خلاف ہیں۔ ہمیں آج ایک ایسی عالمی تحریک کی ضرورت ہے جو خاندان کے تحفظ کے لیے پرعزم ہو، تاکہ خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے کے ساتھ سکون محسوس کر سکیں۔ میں چاہتا ہوں کہ عالمی رہنما اس پر سنجیدہ غور کریں۔

ورلڈ آرڈر پر تنقید اور بحث کرنے کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ انسان جاگ چکا ہے اور اس نے مغرب کی بظاہر رنگین تہذیب پر آنکھیں بند نہیں کیں بلکہ اس بات کا احساس کر لیا ہے کہ دوسروں کو بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔

گزشتہ روز ایران میں فلسطین سے متعلق کانفرنس میں افغانستان کے وزیر خارجہ کے بیان اور عالمی نظام کا ناقص انتظام بے نقاب کرنے سے ظاہر ہوا کہ اب ہم عالمی فورم پر عالمی نظام پر انگلی اٹھا سکتے ہیں، اس کو زیر بحث لاسکتے ہیں، ہم اسے بہتر بنانے کا راستہ دکھا رہے ہیں، وہ وقت گزر گیا جب اس نظام کو انسانی مسائل کے حل کا آخری فارمولا سمجھا جاتا تھا۔

مولوی امیر خان متقی نے استفسار کہا: کیا دوسری جنگ عظیم سے جنم لینے والا عالمی نظام ان تضادات کے ساتھ اکیسویں صدی کی انسانی ضروریات کا بہترین حل ہو سکتا ہے؟ کیا ان دوہرے معیارات کے ساتھ اکیسویں صدی کی انسانی عقل سے کھیلنا ممکن ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ اس دوہرے معیار سے موجودہ دور کے بیدار انسانی ضمیر کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔

آزادی بھی اتنی ہی اہم ہے، جس میں ترجیحات کا تعین ہوتا ہے، فیصلوں کا اہتمام ہوتا ہے، اور عالمی فورم پر اپنی پہچان، اپنی شناخت اور اپنی آواز کو پیش کر سکتے ہیں۔