فاریاب کے جہادی ذمہ دار کی معلومات افزا گفتگو

دشمن سے پاک فاریاب فاریاب کا پچانوے فیصد علاقہ دشمن سے پاک کردیا گیا ہے۔ صوبہ فاریاب افغانستان کے شمال واقع ہے ۔ جس کی سرحدیں ’’جوزجان‘‘، ’’سرپل‘‘، ’’غور‘‘ اور ’’بادغیس‘‘ سے ملتی ہیں۔ فاریاب کے شمالی حصے وسطی ایشیائی ملک ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ فاریاب کا دارالحکومت ’’میمنہ‘‘ شہر ہے۔ دیگر اہم اضلاع کے […]

دشمن سے پاک فاریاب

فاریاب کا پچانوے فیصد علاقہ دشمن سے پاک کردیا گیا ہے۔

صوبہ فاریاب افغانستان کے شمال واقع ہے ۔ جس کی سرحدیں ’’جوزجان‘‘، ’’سرپل‘‘، ’’غور‘‘ اور ’’بادغیس‘‘ سے ملتی ہیں۔

فاریاب کے شمالی حصے وسطی ایشیائی ملک ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ فاریاب کا دارالحکومت ’’میمنہ‘‘ شہر ہے۔ دیگر اہم اضلاع کے نام کچھ اس طرح ہیں: پشتون کوٹ، خواجہ سبز پوش)جمعہ بازار( ، شرین تگاب، دولت آباد، اند خوئی، شاخ، قرم قلی، خان چارباغ، المار، قیصار، قرغان، بندر، گورزوان، بلچراغ، خواجہ موسی اور لولاش۔ رواں سال فاریاب میں بھی مجاہدین نے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس صوبے میں بہت سے علاقے دشمن کے وجود سے پاک کردیے گئے ہیں۔ قاری ’’صلاح الدین‘‘ جو صوبہ فاریاب ضلع المار کے رہنے والے ہیں اور کئی سالوں سے فاریاب کی ذمہ داری ان کے پاس ہے۔ رواں سال کی حالیہ فتوحات کے حوالے سے ’’ماہنامہ شریعت‘‘نے ان سے گفتگو کی ہے، جو نذرِ قارئین کی جاتی ہے۔

سوال: قاری صاحب!آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ رواں سال ’’خیبر آپریشن‘‘ کے سلسلے میں فاریاب کی صورتِ حال کیا ہے؟

جواب: جزاک اللہ خیر! آپ سمیت تمام قارئین کو سلام پیش کرتا ہوں۔ حسبِ سابق اس سال بھی فاریاب میں جہادی آپریشن کے نتائج بہت اچھے رہے۔ عسکری حوالے سے تمام کامیابیوں کےبارے میں بات شاید زیادہ طویل ہوجائے گی، جس کا یہاں احاطہ مشکل ہوگا۔ مگر چند کامیابیوں کا تذکرہ فائدے سے خالی نہیں ہے۔

ضلع ’’شاخ‘‘ میں مجاہدین نے اس سال کچھ قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں۔ چھاپہ مار کارروائی میں اس ضلع کے دو اہم بازار، جس پر پہلے دشمن کا قبضہ تھا، مجاہدین کے ہاتھوں فتح ہوگئے ہیں۔ دشمن نے اس پر دوبارہ قبضے کی باربار کوشش کی، مگر اسے بہ ہر حال ناکامی کی خاک چاٹنا پڑی۔ اس ضلع میں مجاہدین بھر پور قوت کے ساتھ موجود ہیں۔ یہاں تک کہ دوسرے علاقوں تک کارروائیوں کی راہنمائی یہیں سے کی جاتی ہے۔ ضلع ’’بندر‘‘ میں مجاہدین نے اربکیوں اور مقامی ملیشیا کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ اس آپریشن میں 600 مجاہدین شریک ہوئے۔ نتیجۃً اس ضلعے کا 95 فیصد علاقہ دشمن سےپاک ہوگیا ہے۔ اور آس پاس کے تمام علاقے بھی دشمن کے قبضے سے آزاد کرا لیے گئے ہیں۔ الحمد للہ! اب وہاں امن وامان کی صورتِ حال بہت بہتر ہے۔ ’’کوہستانات‘‘ کے مضافاتی علاقے المار، قیصار اور پشتون کوٹ کے اضلاع میں بھی بڑی کارروائیاں ہوئی ہیں۔ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ان علاقوں کا بھی 95 فیصد حصہ دشمن کے چنگل سے آزاد ہوچکا ہے۔ دشمن کی کئی چیک پوسٹیں تباہ کردی گئی ہیں۔ اسی طرح گورزوان، خواجہ موسی اور چھلگزئی کے اضلاع میں بھی مجاہدین کی کارروائیاں کامیاب رہی ہیں۔ ان کارروائیوں میں بہت سے علاقے مقامی ملیشیا اور اربکیوں سے پاک کردیے گئے ہیں۔ الحمدللہ! ان تمام کارروائیوں میں ہمارے نقصانات انتہائی کم تھے۔ باوجود اس کے کہ اپنی شکست چھپانے کے لیے دشمن نے ہمیشہ ہمارے نقصانات کی تعداد زیادہ بتائی ہے، مگر حقیقت ایسی نہیں ہوتی، جس طرح وہ بتاتے ہیں۔ مثلا چھلگزئی میں ایک طویل جنگ میں دشمن کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔ ہمارا صرف ایک مجاہد ساتھی شہید اور چار زخمی ہوئے۔ مگر دشمن نے ریڈیو اور ذرائع ابلاغ پر 140 مجاہدین کی شہادت کا پروپیگنڈا کیا۔

سوال: فاریاب میں مجاہدین کے ساتھ عام لوگوں کے تعاون کی صورتِ حال کیسی ہے ۔

جواب: افغانستان کے دیگر خطوں کی طرح فاریاب میں بھی عوام مجاہدین کی پشت پر کھڑے ہیں۔ پہلے سالوں میں کچھ لوگ دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر مجاہدین کے خلاف ہوگئے تھے۔ مگر اب عوام حقائق جان چکے ہیں۔ اس لیے پورے خلوص کے ساتھ مجاہدین کے ساتھ ہیں۔ اس سال ہمیں جو فتوحات حاصل ہوئیں، سب عوامی تعاون کا نقد ثبوت ہیں۔ دیگر اضلاع جیسے مرکزی شہر میمنہ اور دیگر اہم علاقوں، جہاں عوام مجاہدین کے ساتھ ہیں، وہاں کے 90 فیصد لوگ مجاہدین کی جانب میلان رکھتے ہیں۔ شہروں کے لوگ حکومتی مظالم سے تنگ ہیں۔ بے انصافی، انتظامی رشوت،کرپشن اور دیگر برائیوں سے تنگ آچکے ہیں۔ باربار حکومت کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں۔ اس لیے وہ مجاہدین اور شرعی نظام سے بہت امیدیں لگائےبیٹھے ہیں۔

سوال: کیا عسکری کارروائیوں کے علاوہ صوبہ فاریاب میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی دیگر ذمہ دارانہ کارکردگیوں سے مطمئن ہیں؟

جواب: جی ہاں! جیسا کہ یہ سب کے سامنے واضح ہے کہ امارت اسلامیہ نے اپنے زیر نگین علاقوں میں شرعی قوانین کے نفاذ، تعلیم وتربیت اور دیگر خدمات کے لیے خصوصی ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔ فاریاب کے مفتوحہ علاقوں میں بھی یہ ادارے فعال ہیں۔ مثلا عدالتی فیصلے، جلب وجذب اور تعلیم وتربیت کے شعبوں میں تمام متعلقہ امور کی بہتر کارکردگی جاری ہے۔ تعلیم کے شعبے میں فاریاب کے تمام علاقوں میں مدارس، دارالحفاظ اور دیگر تعلیمی مراکز فعال ہیں۔ امارت اسلامیہ ان مراکز کی اصلاح کی جانب زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ تاکہ ہماری نئی نسل کی دینی فکر کے اعتبار سے تربیت کی جائے۔ دعوت وارشاد کے شعبے میں لوگوں کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ دشمن کی صف میں کھڑے اپنے لوگوں کو بھی دعوت دی جاتی ہے۔ گذشتہ مہینوں کے دوران فاریاب میں سو سے زیادہ اربکی اور دیگر جنگجو، جو پہلے دشمن کی صف میں کھڑے تھے، اب مخالفت سے دستبردار ہو کر مجاہدین سے آ ملےہیں۔اسی طرح اطلاعات اور خبر رسانی کے شعبے میں ہمارے میڈیا کمیشن کے ساتھی بہت دِقت سے جہادی محاذوں کی خبریں جمع کرتے اور اشاعت کے لیے امارت اسلامیہ کے دفاتر میں بھیج دیتے ہیں۔ قیدیوں کے امور کے حوالے سے قابل ذکر نظم وضبط سامنے آیا ہے۔ دشمن کے جو قیدی پکڑے جاتے ہیں، ان کے لیے خصوصی جیل بنائے گئے ہیں۔ سختی کیے بغیر ان کے فیصلے شرعی عدالتوں میں کیے جاتے ہیں اور شریعت کی روشنی میں ان سے سلوک کیا جاتا ہے۔ اب تک امارت اسلامیہ کی قیادت کی جانب سے جو وفود فاریاب آئے ہیں اور مجاہدین کی مختلف کارکردگیاں دیکھی ہیں، انہوں نے یہاں کے مجاہدین کو کامیاب قرار دے کر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

سوال: فاریاب میں موجود دشمن ملیشیا یا اربکیوں کی جانب سے مضافاتی علاقوں میں کچھ آپریشنز میں عام لوگوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس حوالے سے آپ کیا کہتے ہیں؟

جواب: فاریاب میں واقعۃً گذشتہ چند سالوں سے دشمن نے مظلوم مسلمان عوام کے خلاف شدید مظالم کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ مگر شروع میں تو صرف خود سَر ملیشیا، خارجی فوجی اور داخلی پولیس لوگوں کو پریشان کرتی تھی۔ بلاوجہ گھروں کی تلاشی لی جاتی، چھاپے مارے جاتے اور لوگوں کو قتل کیا جاتا۔ اربکیوں کا فتنہ پیدا ہونے کے بعد اذیتوں اور مظالم کا سلسلہ بہت تیز ہوگیا تھا۔ اربکیوں نے ایسے مظالم ڈھائے کہ لوگ پرانی ملیشیاؤں کے مظالم بھول گئے۔ انہوں نے نہ صرف لوگوں کو قتل کیا اور لوٹا، بلکہ پورے پورے گاؤں جلاکر خاکستر کردیے۔ مثال کے طور پر ضلع پشتون کوٹ میں کئی گھروں کو جلادیا گیا۔ یہاں تک کہ خواتین اور بچوں سمیت غیر مسلح لوگوں کو گولیاں مار کر شہید کردیا گیا۔ ضلع پشتون کوٹ قرہ وایلی، چوبکی اور دیگر علاقوں میں لوگوں کے 80 کے قریب گھر لوٹ مار کے بعد جلادیے۔ دشمن کے ان مظالم کے ٹھوس شواہد ’’الامارہ اسٹوڈیو‘‘ کی نشر کردہ ویڈیو ’’کاروانِ خیبر‘‘ جو صوبہ فاریاب سے متعلق ہے، اس میں آگئے ہیں۔ دشمن کے بے لگام فوجیوں اور اربکیوں نے لوگوں کو نہ صرف جان ومال کا نقصان پہنچایا ہے، بلکہ بہت مرتبہ تو ان وحشیوں نے لوگوں کی عزت اور ناموس سے کھیلا۔ ان کی جانب سے جنسی زیادتیوں کی خبریں بار بار ذرائع ابلاغ پر آچکی ہیں۔ دشمن کے انہی وحشیانہ حرکتوں کے باعث عام لوگوں کے سامنے دشمن کا اصل چہرہ عیاں ہوگیا ہے۔ اسی لیے وہ حکومت سے متنفر ہیں۔

سوال: افغانستان میں امریکی چھتری تلے منعقد ہونے والے انتخابات سے بڑی سیاسی تبدیلی آئی ہے۔ مغربی میڈیا پروپیگنڈے کے ذریعے اسے مثبت قرار دے رہا ہے۔ آپ اس تبدیلی کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں؟

جواب: کابل میں قائم ہونے والی حکومت حقیقت میں ہے چہروں کی تبدیلی ہے۔ اندر سے یہ سابقہ جمہوریت کا تسلسل ہے۔ اس سیاسی تبدیلی میں بڑا قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس میں امریکی جارحیت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ عوام نے دیکھ لیا کہ گذشتہ ایک سال سے انتخابات کے نعرے لگائے جارہے تھے۔ سیکڑوں ملین ڈالر خرچ کیے گئے۔ لوگوں کو شدید مشکلات اٹھانا پڑیں۔ دشمن چاہتا تھا کہ افغانوں کو دھوکہ دے اور بظاہر ایک قانونی حکومت کی تشکیل کی جائے۔ مگر آخر میں اللہ تعالی نے دشمن کو رُسوا کردیا اور تمام ہم وطنوں نے دیکھا کہ یہ حکومت امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے حکم اور فیصلے پر بنی۔ جارحیت پسندوں کی وہ کٹھ پتلیاں، جو خود مختاری کا دعوی رکھتی ہیں، ان کی غلامانہ حیثیت بہت واضح ہوکر سامنے آگئی ہے۔ ہم نے دیکھ لیا کہ ان دونوں افراد کو امریکا نےلایا اور زبردستی مشترکہ حکومت میں یک جا کردیا۔ نئی کٹھ پتلی حکومت کے سب سے بُرے اقدامات امریکا کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدے پر دستخط اور کچھ دین دشمن اقدامات ہیں۔ انہیں دیکھتے ہوئے افغانستان کے لوگ نئی حکومت کو بھی ’’نئے شکاری اور پرانا جال‘‘ سمجھ رہے ہیں۔ نئی حکومت میں جنرل دوستم کو نائب صدر مقرر کیا گیا ہے۔ان کے پرانے جرائم کو مد نظر رکھتے ہوئے افغانوں کو ان سے خیر کی کوئی توقع نہیں کرنی چاہیے۔جس نے پوری زندگی چوری ڈکیتی،قتل،ظلم اور کفار کی غلامی ہی کی ہو، اس سے بھلائی کی کیا توقع کی جاسکتی ہے؟!! دین کی حفاظت کے لیے افغانوں کو چاہیے اپنی وحدت برقرار رکھیں۔جارحیت پسندوں کے بے بنیاد پروپیگنڈوں سے متاثر نہ ہوں۔کفر کے مقابلے کے لیے میدان جہاد میں نکلیں، تاکہ اللہ تعالی کی نصرت اور باہمی اتحاد کی برکت سے کفریہ جارحیت پسندوں کوشکست دے کر افغانستان سے نکال سکیں۔

سوال: آپ امارت اسلامیہ کے ثقافتی کمیشن کے امور اور نشریات کو کس حد تک کامیاب سمجھتے ہیں؟

جواب: انتہائی شکر اور فخر کی بات ہے کہ امارت اسلامیہ افغانستان مقابلے کے ہر میدان میں برتر وبالا ہے۔ دشمن کا بہت خوبی سے مقابلہ کیا جارہا ہے۔ثقافت اور میڈیا کے میدان میں بھی مقابلہ خوب جارہا ہے۔ میں ذاتی طور پر امارت اسلامیہ کی نشریات: کئی زبانوں میں دستیاب ’’الامارہ ویب سائٹ‘‘، ’’الصمود‘‘، ’’سرک‘‘، ’’حقیقت‘‘، ’’شہامت‘‘، ’’شریعت‘‘ اور ’’مورچل‘‘ میگزینز کا قاری ہوں۔ جس میں بہترین مضامین اور جہاد کی تازہ بہ تازہ خبریں نشر ہوتی ہیں۔ میری تمام مجاہدین بھائیوں سے درخواست ہے کہ عالمِ اسلام خصوصا افغانستان کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے ’’طالبان میڈیا‘‘ کا مطالعہ کریں۔ میں اللہ سے ان تمام مجاہدین کے لیے پورے پورے اجر کا طالب ہوں، جو میڈیا کے شعبے میں مصروف خدمت ہیں اور اس راہ میں ہر طرح کی تکالیف اٹھانے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

سوال: آپ آخر میں اہل فاریاب یا عام مسلمانوں کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

جواب: میرا اہلیان فاریاب اور تمام مسلمانوں کے نام یہ پیغام ہے کہ الحمد للہ! اللہ کی نصرت اور مجاہدین کی قربانیوں کی برکت سے قافلۂ جہاد فتح کی منزل کے قریب پہنچ چکا ہے۔ میری ان سے درخواست ہے کہ مجاہدین کی حمایت اور مدد کے سلسلے کو جاری رکھیں۔ جن لوگوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی ہے، انہیں چاہیے مجاہدین کے ہم رکاب ہوجائیں۔ جو لوگ دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر دشمن کی صف میں کھڑے ہیں، انہیں چاہیےوطن فروشی اور خیانت سے تائب ہوجائیں۔ مجاہدین کا مقام پہچانیں۔ وہ اِسی قوم کے بیٹے ہیں۔ دشمن کے پروپیگنڈے کو تسلیم نہ کریں۔ انہیں چاہیے خود پر رحم کریں۔اپنی دنیا و آخرت کی نجات کے لیے جدوجہد کریں۔کفر کی چاکری چھوڑ دیں۔ مجاہدین انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ فاریاب کے لوگ گواہ ہیں کہ مجاہدین نے بارہا ان فوجی اہل کاروں کو، جو جنگ کے دوران گرفتار ہوگئے تھے، لازمی ہدایات کے بعد رہا کردیا۔اسی سے ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ مجاہدین جہاد، لوگوں کو قتل کرنے کے لیے نہیں کر رہے، بلکہ وہ معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں۔ عالمِ کفر کا شکنجہ توڑنا چاہتے ہیں۔ وہ لوگوں کی دنیا وآخرت کی سعادت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔