کابل

ثور انقلاب ملکی تباہی کا آغاز

ثور انقلاب ملکی تباہی کا آغاز

 

تحریر: سیف العادل احرار
آج سے 46 برس قبل 27 اپریل 1978 میں کمیونسٹ پارٹی کے رہنماوں نور محمد ترہ کئ، حفیظ اللہ امین، ببرک کارمل سمیت دیگر نے فوجی بغاوت کے ذریعے اس وقت کے افغان صدر سردار محمد داود خان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جسے ثور انقلاب کہا جاتا ہے، کمیونسٹ پارٹی کے اہم رہنما نور محمد ترہ کئ نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں اسلامی اقدار اور نظریات کے خلاف متعدد احکامات جاری کئے، علاوہ ازیں انہوں نے فوجی بغاوت کو انقلاب کا نام دیا اور جو انقلاب کے مخالف تھے ان کا قتل عام شروع کر دیا، صرف صوبہ ہرات میں 24 ہزار شہریوں کو ٹینکوں تلے روند ڈالا، علماء کرام، بااثر قومی شخصیات اور مخالف سیاسی رہنماوں کو پہلے مرحلے میں جیلوں میں ڈالا اور پھر انہیں سزائے موت دی۔

نور محمد ترہ کئ نے حفیظ اللہ امین اور ببرک کارمل کے ساتھ مل کر ثور انقلاب کے ذریعے افغانستان میں تباہی، خونریزی، خانہ جنگی اور طویل بحرانوں کی بنیاد رکھی، ڈیڑھ برس تک برسراقتدار رہنے کے بعد 14 ستمبر 1979 میں ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور حفیظ اللہ امین نے اقتدار سنھالا اور نور محمد ترہ کئ کی موت کا حکم دیا۔ چونکہ حفیظ اللہ امین نے روس اور امریکہ دونوں ممالک میں تعلیم حاصل کی تھی، پہلے مرحلے میں دونوں ممالک نے ان پر اعتماد کا اظہار کیا تاہم بہت جلد سوویت یونین نے ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا اور ان پر سی آئی اے کا ایجنٹ ہونے کے شبہ کا اظہار کیا، اسی دور میں سویت یونین نے افغانستان کے ساتھ 25 سالہ دوستی معاہدے کو توڑتے ہوئے براہ راست ملک میں فوجی جارحیت کی۔ حفیظ اللہ امین کو سویت یونین کی افواج نے کو 27 دسمبر 1979ء کو آپریشن طوفان 333 کے حصے کے طور پرقتل کر دیا اور ان کی مدت صدارت محض تین ماہ رہی۔ اس کے بعد 27 دسمبر 1979 میں ببرک کارمل کو ملک پر مسلط کیا گیا اور ان کی آشیرباد سے وطن عزیز میں سوویت افواج نے جارحیت کا ارتکاب کیا جن کے خلاف افغان عوام نے جہاد اور مزاحمت کا علم بلند کیا۔

27 دسمبر 1979 سے 1986 تک ببرک کارمل برسراقتدار رہے اور اس کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ 30 نومبر 1987 سے 16 اپریل 1992 تک برسراقتدار رہے۔ ان دونوں کے ادوار میں سوویت افواج کی جارحیت جاری رہی جس کے خلاف افغان عوام کی مزاحمت بھی جاری رہی، نورمحمد ترہ کئ سے لیکر ڈاکٹر نجیب تک سب کمیونسٹ سیاستدان تھے جنہوں نے ملک کو ہوس اقتدار کے نتیجے میں نہ صرف تباہ و برباد کر دیا بلکہ بیرونی جارحیت کے ذریعے 20 لاکھ سے زائد افغانوں کو شہید، 15 لاکھ زخمی اور لاکھوں عوام کو بے گھر کر دیا گیا، اس لئے انقلاب ثور کو افغانستان کی تاریخ میں سیاہ دور کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

جب نور محمد ترہ کئ نے سردار محمد داود خان کو فوجی بغاوت کے ذریعے شہید کر دیا تو اس کے بعد ملک میں حصول اقتدار کے لئے رسہ کشی شروع ہوئی، اس کے بعد حیفظ اللہ امین نے نور محمد ترہ کئ کو ہٹا کر اقتدار سنبھالا اور کچھ دن کے بعد ترہ کئی کو قتل کر دیا، البتہ ترہ کئی سوویت یونین کے ساتھ “دوستی و تعاون کا بیس سالہ معاہدہ” کر چکا تھا اور سوویت ایجنسی کے جی بی بگرام میں اپنا بڑا مرکز قائم کر چکی تھی۔ حفیظ اللہ امین کے بارے میں کے جی بی کو شبہ تھا کہ امین درپردہ طور پر سی آئی اے کا ایجنٹ ہے لہذا سوویت فوجی دستوں نے حفیظ کو قتل کر کے اقتدار کی کرسی پر ببرک کارمل کو بٹھا دیا۔

28 اپریل 1992 میں ایک معاہدے کے تحت ڈاکٹر نجیب اللہ حکومت کے خاتمے کے بعد جہادی لیڈروں پر مشتمل ایک نئی عارضی حکومت قائم کی گئی، پہلے مرحلے میں صبغت اللہ مجددی اور اس کے بعد برہان الدین ربانی صدر بن گئے تاہم چند ماہ کے بعد جہادی تنظیموں کے درمیان حصول اقتدار کے لئے رسہ کشی شروع ہوئی اور کابل میں مختلف اطراف سے جنگ چھیڑ گئی جس کے نتیجے میں کابل کھنڈرات میں تبدیل ہوا، ملک میں مرکزی حکومت کی رٹ ختم ہوئی، ہر صوبے الگ الگ حکومتیں قائم ہوئیں، ہر علاقے میں باثر شخصیات اور کمانڈروں نے اپنی نجی حکومتیں قائم کیں، ملک میں خانہ جنگی کا نیا دور شروع ہوا جس نے کمیونسٹ دور کو پیچھے چھوڑ دیا، یہ دور اتنا ظالمانہ اور تاریک رہا کہ عوام نے کمیونسٹ دور کو بھی بھول دیا۔

اس مایوس کن صورتحال میں 1994 میں قندہار میں ایک درویش صفت مجاہد ملا محمد عمر مجاہد نے چند طالبان کے ہمراہ جانہ جنگی، بدامنی اور ظلم و فتنہ کے خلاف جہاد شروع کیا اور بہت جلد ملک کے طول و عرض میں فتوحات حاصل کیں، انہوں نے صوبہ ہرات تک اور پھر ننگرہار تک تمام صوبوں کو فتح کرکے مثالی امن قائم کیا اور 1996 میں کابل کو فتح کرنے کے بعد اسلامی حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا اور اس کے بعد شمالی صوبوں کو بھی فتح کرکے ملک کے 95 فیصد رقبے پر کنٹرول حاصل کیا، ملک میں عادلانہ اسلامی نظام نافذ کرکے خانہ جنگی، فتنہ و فساد اور تمام بحرانوں کا خاتمہ کر دیا۔

نائن الیون واقعہ کے بعد امریکہ نے 7 اکتوبر 2001 میں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں افغانستان پر حملہ کرکے اسلامی حکومت کا خاتمہ کر دیا اور سابقہ کمیونسٹوں اور جہادی لیڈروں کو بن کانفرنس کے ذریعے ملک پر مسلط کر دیا جس کے خلاف ایک بار پھر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ نے علم جہاد بلند کیا اور دو دہائیوں کی مزاحمت کے بعد امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا گیا اور دوحہ معاہدے کے تحت 31 اگست 2021 میں امریکی فورسز افغانستان سے نکل گئیں اور وطن عزیز ایک بار پھر آزاد ہوا اور امارت اسلامیہ نے ملک بھر میں حکومتی رٹ قائم کر دی۔

آج کا دن تاریخی لحاظ سے افغان عوام کے لئے اہمیت کا حامل ہے، 27 اپریل 1978 سے 28 اپریل 1992 تک کمیونسٹوں کا سیاہ دور تاریخ کا سیاہ باب کہا جاتا ہے، 27 اپریل 1978 میں ثور انقلاب کا سیاہ دور شروع ہوا اور 28 اپریل 1992 میں اس تاریک دور کا خاتمہ ہوا، اس لحاظ سے افغان عوام اس دن کو خصوصی طور پر مناتے ہیں اور نئی نسل کو کمیونسٹوں کے مظالم سے روشناس کراتے ہیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ پھر افغانستان میں ایک ایسا تاریک دور پھر کبھی نہ آئے، اللہ تعالی موجودہ اسلامی نظام اور اسلامی حکومت قائم اور مستحکم رکھے اور اس راہ میں قربانی دینے والے تمام شہداء کی قربانیاں قبول فرمائے۔