قاري سیف الله فاتح شہید کی زندگی اور کارناموں پر ایک نظر

تحریر: قاري عبدالستار سعید 5 فروری 2014 کو امریکا نے امارتِ اسلامیہ کے تین رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ میں داخل کیے- ان میں سے ایک نام قاری سیف اللہ صاحب کاتھا-اس وقت جب میڈیا میں ان ناموں کا کثرت سے تذکرہ ہورہا تھا یہ نام بہت سے لوگوں کے لیے انجان تھا- بسااوقات لوگ […]

تحریر: قاري عبدالستار سعید

5 فروری 2014 کو امریکا نے امارتِ اسلامیہ کے تین رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ میں داخل کیے- ان میں سے ایک نام قاری سیف اللہ صاحب کاتھا-اس وقت جب میڈیا میں ان ناموں کا کثرت سے تذکرہ ہورہا تھا یہ نام بہت سے لوگوں کے لیے انجان تھا- بسااوقات لوگ یہ سوال بھی کرتے تھے کہ اتنی اہمیت کا حامل یہ مجاہد ہے کون؟ جس کو امریکا جیسا سپر پاور بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتاہے مگر اپنے ہی وطن کے لوگ ان کے نام تک سے ناواقف ہیں-
حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں استعماری طاقتوں کو ٹھکانے ان گمنام مجاہدین نے لگایا اور کاری ضربیں لگائیں جن کی قومی اور عالمی سطح پر کوئی شہرت ہے اور نہ ہی انہیں مشہور ہونے کاکوئی شوق ہے۔ وہ لوگ جو بڑے شوق اوراخلاص سے قوم کے درمیان سےکفر کی جارحیت کے خلاف میدان میں نکلے – مسجد، مدرسہ اور حجرے کی زندگی کو الوداع کہا- خاص اللہ کی رضا اور دین کی سربلندی کے لیے ہتھیار اٹھائے- خاموشی اور گمنامی سے عالمی فرعونی قوتوں کو ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ بالاخر انہیں پسپائی اور فرار پر مجبور کردیا-
اس طرح کے گمنام مجاہدین میں سے ایک شہید سیف اللہ فاتح بھی تھے،جنھوں نے اپنے مخلصانہ کردار اور کارناموں سے اللہ کے دشمنوں میں خود کو ایک خطرناک اور موثر مجاہد کے طور پر منوایا تھا جس کی وجہ سے انہیں بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا۔
شهید قاری سیف الله صاحب کامختصرتعارف:
شهید قاری سیف الله اغامحمد آکا کے بیٹے ہیں-1397ہجری قمری سال میں صوبہ زابل کے مرکز قلات کے علاقے ’’دراز‘‘ میں ایک دیندار گھرانہ میں پیدا ہوئے تھے- ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پیش امام سے حاصل کی- پھر صوبہ زابل کے جلدک کے علاقہ میں خلیفہ ملامحمد گلاب صاحب جو جلدک آغا صاحب کے نام سے بھی شہرت رکھتے ہیں، کے مدرسہ میں حفظ قران کیا اور پھر اسی میں مدرس مقرر ہوگئے۔ مدرس ہونے کے ساتھ موصوف شہید اپناتعلیمی سلسلہ بھی آگے بڑھاتے رہے-
جلدک آغا صاحب جو علم وفضل اور روحانیت ومعنویت سے معمور گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں- قاری صاحب ان کی مجلس اور صحبت سے بھرپور استفادہ کرتے رہے- انہیں کے فیضانِ صحبت سے اپنے آپ کو تقوی، اخلاص اور صفاتِ حسنہ سے آراستہ کرتے رہے- یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ قاری صاحب زابل کے دیگر مدارس میں بھی حفظ کے مدرس کی حیثیت سے زندگی گذار چکے تھے اور قرآن کریم کے بہت سے حفاظ تیار کرچکے تھے۔
جہادی زندگی:
روس کے خلاف جہاد کی کامیابی کے بعد جب انتشار اور فساد کی فضا سی بن گئی اس وقت مشہور جہادی قائدین میں سے ایک غلام نبی جہاد یار شہید بھی تھے- قاری سیف اللہ ان کے سرکردہ افراد میں سے تھے، جنھوں نے ملک کے مختلف شہروں اور علاقوں میں جہادی خدمات سرانجام دیں-موصوف افغانستان کے شمال میں مختلف علاقوں میں جہادی سرگرمیوں میں حصہ دار رہے ہیں جن میں اندراب، نہرین اور دیگر بہت سے مقامات شامل ہیں – بعد میں جب جہاد یار صاحب نے زابل میں مدرسہ بنایا تو قاری صاحب نے مدرسہ میں استاد اور ناظم کی حیثیت سے کام شروع کیا- اس کے ساتھ جہاد کے لیے اسفار بھی کرتے رہتے-جہادی خدمات کے دوران ایک دفعہ صوبہ تخار میں سخت زخمی ہوگئے اور ایک پاؤں کی قربانی دی- مگر پاؤں کے جانے اور اس قدر معذور ہونے کے باوجود بھی ان کے ارادے کسی تزلزل کے شکار نہیں ہوئے، بدستور پوری اولوالعزمی سے زندگی کے آخری سانس تک اعلائے کلمةاللہ کے لیے جد وجہد جاری رکھی-
افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد جب قندہار میں ملاغلام نبی جہادیار ایک جنگ کے موقع پر شہادت سے سرفراز ہوئے تو اس وقت قاری صاحب ان کے جانشین بن گئے- قاری صاحب نے یہیں سے جہادی امور کو منظم کرنے کے لیے کمربستہ ہوکر مستقل کام شروع کیا اور عظیم خدمات سرانجام دیں- مختلف شہروں اور متعدد علاقوں میں نمایاں رہے-
امریکاکے خلاف جہاد میں کردار:
قاری سیف اللہ شہید نے سب سے پہلے امریکا کے خلاف اپنے صوبہ زابل میں گوریلا جنگیں شروع کیں-ان کے گروپ کے مجاہدین بھی زابل شہر میں ہی دشمن کے مراکز کو نشانہ بناتے رہے بعد میں یہ سلسلہ دیگر شہروں کی طرف بھی بڑھادیا-ان جہادی خدمات کے ساتھ موصوف امارتِ اسلامیہ کے کئی اہم عہدوں کو بھی سنبھالتے رہے- شروع میں زابل صوبائی عسکری کمیشن کے رکن رہے- پھر صوبہ زابل کے گورنر کے معاون مقرر کئے گئے اور تین سال یہ ذمہ داری نبھاتے رہے-یہ وہ زمانہ تھا جب پورے افغانستان میں استعمار کے خلاف جہادی تحریک عروج پر پہنچ چکی تھی-ان شہروں میں سے ایک زابل شہر بھی تھاجہاں کے اکثر اضلاع میں بالخصوص مرکز میں اور کابل قندہار کے مین شاہراہ پر دشمن کو سخت سے سخت ضربیں پڑتی تھیں-
صوبہ زابل کے گورنر کے معاون کی حیثیت سے کئی سال گزارنے کے بعد 2011میں عسکری کمیشن کے بارودی مواد کی ترسیل کے ذمہ دار تعینات ہوگئے -اسی ذمہ داری پر مکمل نوسال رہے اور قابل.قدر اور قابل فخر خدمات سرانجام دیں-
وہ ہتھیار جس نے استعمار کو شکست دی:
امریکا جیسی فرعونی طاقت کو شکست سے دوچار کرنا مددالہی اور نصرتِ خداوندی کے بغیر ممکن ہی نہ تھا- مگر اللہ نے نصرتِ خداوندی کے ذریعہ مجاہدین کو الہامی طور پر کچھ ایسی ٹیکنالوجی اور تدابیر بتلائیں جن کے سدباب کے لیے امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک اور ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کے مالک کے لیے کوئی تدبیر نہ تھی- نہ ان کے پاس اس کی کچھ تیاری تھی-امریکا کو شکست دینے والے دیگر تمام آلات، وسائل اور تدبیروں کے ساتھ دو اہم چیزیں ایسی تھیں جن کی وجہ سے دشمن ہمیشہ بھاری نقصانات اٹھاتارہا- ان دو میں سے ایک تو فدائی اور استشہادی حملہ تھاجو دشمن کے غرور کو خاک میں ملادیتاتھا- دوسرا زمینی خودساختہ بم تھا جو گھی کے ڈبہ میں بنایاجاتاتھااور روزانہ کے حساب سے دشمن کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتاتھا-
امریکا کے خلاف ہونے والے جہاد میں ہمارا ایک قابل فخرکارنامہ اور لائق تحسین کامیابی یہ ہے کہ یہ جہاد بیرونی طاقتوں کی امداد کے بغیر ہواہے-کسی بھی ملک نے مالی امداد دی ہے اور نہ ہی اسلحہ اور بارود مہیا کیے ہیں-یہ مجاہدین کی اپنی ذہانت اور خداداد صلاحیت تھی جو رب کی مہربانی سے بہت ہی معمولی چیزوں سے بارود بناتے اور پھر انہیں گھی کے ڈبوں میں جمع کرتے تھےاور پھر اسی ڈبہ سے امریکا کے فولادی ٹینکوں کو پارہ پارہ کرکے ہوا میں اڑایاکرتے تھے-
شہید قاری سیف اللہ، مولوی احمد مصطفی اور اس میدان کے دیگر شہسواروں نے گزشتہ دس سالوں میں مجاہدین کو ایسے کفر شکن اسباب اور وسائل پہنچانے میں بہت بڑاکارنامہ سرانجام دیاہے، جسے جہاد کی تاریخ میں زریں حروف سے لکھاجاناچاہیے-
انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں دستیاب وسائل، خداداد ذہانت اور خود ساختہ فارمولوں سے جہادی صف کو ہتھیار اور اسلحہ کے حوالے سے بے نیاز کردیااور اس لائق بنادیا کہ اسی بنیاد پر امریکی ٹیکنالوجی کاغرور خاک میں ملادیں- جہادی کارواں کا یہ قافلہ اور اس کی داستاں بھی دیگر تمام شعبوں کی طرح دلچسپ ہے، جس میں اخلاص، ایثار اور فداکاری کی انتہا ہے۔ اس کو تاریخ میں زیر بحث لانے کی ضرورت ہے- تاکہ آئندہ آنے والی نسل کو عزم وحوصلہ، تحقیق وجستجو اور سختیوں کے زمانہ میں کم وسائل سے زیادہ کام لینے کاہنرآجائے-
قاری صاحب کے ان جرات آموز ولولوں سے بھرپور داستانوں کو اگر تاریخ میں جگہ ملی تو یہ تاریخ کے اوراق میں قربانیوں اور جراتوں کے عظیم باب کا اضافہ ہوگا۔ انھوں پورے نوسال دن رات ایک کرکےاپنی کٹی ہوئی ٹانگ اور معذورجسم کے باوجودملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کیا- جہادی افراد اور جماعتوں کو ہر کونے تک بارودی مواد پہنچاتے-اور پھر انہیں بھی منظم طریقے سے ترتیب کے مطابق تقسیم کرتے- وہ باوجود یہ کہ امریکا کے بلیک لسٹ اور اس کے انتہائی مطلوبہ افراد میں سے تھے، پھر بھی انہیں خوف اور ڈر کاحساس تک نہیں تھا- شہادت کے وقت تک اپنی خطرناک،حساس اور باریک ذمہ داری پوری جانفشانی اور اولوالعزمی سے نبھاتے رہے-
بلیک لسٹ میں آنے کی وجہ:
ایک مشہور مقولہ ہے کہ حق کی پہچان کرنے کے لیے باطل کے واروں کو دیکھا جائے کہ اس کارخ کس سمت ہے؟ جس کو باطل کے تیر لگیں گے وہی حق ہے-اس وقت امریکا عالمی طاغوتی قوتوں کاحکمراں شمار ہوتاہے- اب طاغوت کایہ سرغنہ جب کسی کواپنے بلیک لسٹ میں شامل کرتاہے اور اسے گرفتار کرنے اور ختم کرنے کی کوشش کرتاہےتو یہی مطلوب ہونا اسی شخص کی دیانت اور سچی مسلمانی کی دلیل بنے گی-
امریکا نے2014  میں دیگر متعددمجاہدین اور امارتِ اسلامیہ کے اہم افراد کے ساتھ قاری سیف اللہ فاتح کانام بھی بلیک لسٹ میں شامل کردیا-
اس حوالہ سے 8جنوری 2014 کو بی بی سی ویب سائٹ نے اپنی رپورت میں لکھا ہے:  امریکا کی وزارتِ خارجہ نے طالبان کے ایک کمانڈر قاری سیف اللہ کو خطرناک افراد کی لسٹ میں شامل کیاہے- امریکی فوج ایک فرمان کی رو سے اب یہ جواز رکھتی ہے کہ ان افراد کو گرفتار کرنے اور قتل کرنے کے لیے امریکا یاکسی بھی ملک میں آپریشن کرے- اسی فرمان کی رو سے امریکی فوج قاری سیف اللہ کے ساتھ کسی ڈیل کاجواز نہیں رکھتی- کہاجاتا ہے کہ قاری سیف اللہ صوبہ زابل میں گورنر کے معاون کی حیثیت سے اپناکام کرتاتھا- وہ اسی صوبہ میں بعض عسکری عملیات کی سربراہی کے ذمہ دار بھی ہے- وزارت خارجہ کے فرمان کے مطابق قاری سیف اللہ کے اکاونٹ بلاک کردینے چاہییں اور امریکا کے سفر پر پابندی لگالینی چاہیے- ویب سائٹ کے مطابق وزارتِ خارجہ نے یہ اقدام وزارتِ خزانہ اور وزارت قانون کے مشورہ اور تعاون سے اٹھایاہے- امریکا کا دعوی ہے کہ قاری سیف اللہ کو اس لیے بلیک لسٹ میں شامل کیا ہے کہ وہ خطرناک کاموں اور حملوں میں ملوث رہاہے- وزارت کہتی ہے کہ ملزم صوبہ زابل میں افغان اور بیرونی افواج پر حملوں کی کمانڈ کرتاتھا اور اپنے ماتحتوں کو حکم دیاتھا کہ ریاستی اور حکومتی اداروں کو اپنے حملوں کانشانہ بنائیں-
جنوری 2012 میں اس شخص نے اپنی سربراہی میں افغانستان کے اندر رومانی فوج پر حملہ کیا- ستمبر2011کو قاری سیف اللہ نے ایک فرد کو صوبہ زابل کے شاجوی میں واقع تعمیر وترقی کے مرکز(PRT) پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیاتھا- نومبر 2010 میں سیف اللہ نے اپنے ایک کمانڈر کو زابل مرکز اسلحہ بھیجنے کا حکم دیاتھا تاکہ قلات شہر کے استعماری مرکز کو حملوں کانشانہ بنادے-امریکا کی وزارتِ خارجہ کےبلیک لسٹ کے ساتھ اقوامِ متحدہ کے بلیک لسٹ میں شامل افغانوں کی تعداد 137 تک پہنچتی ہے-
شہید قاری سیف اللہ کے بارے میں بی بی سی کی رپورٹ اورامریکا کی وزارتِ خارجہ نے اپنے اعلامیہ میں یہ بات تو درج کی ہے کہ ہم قاری صاحب کے تمام اکاونٹ بلاک اور تمام مالیتیں ضبط کریں گے- مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ قاری صاحب شہید مادیات سے بے پرواہ وہ درویش صفت مؤمن تھے جن کا کوئی اکاونٹ تھا اور نہ ہی کوئی دنیوی جائیداد- کبھی انہوں نے دنیوی عیش وعشرت کے لیے کوئی تگ ودو نہیں کی- انہوں نے اپنامال اورتن صرف اللہ کے دین کے لیے وقف کررکھا تھا-
شهادت:
شہید قاری سیف اللہ فاتح شروع میں ملک کے جنوبی مغرب کے چودہ صوبوں کے بارودی مواد کے تیار کرنے،منتقل کرنے اور تقسیم کے ذمہ دار تھے- جس میں انہوں نے زندگی کاایک ایک گوشہ اور ایک ایک لمحہ صرف کیا- تاکہ مجاہدین اپنے موٹر بموں اور بارود سے دشمن کے خلاف جہادی کارروائیوں میں ہردم پیش پیش رہیں-
چونکہ قاری صاحب اپنی ذمہ داری پورے اخلاص وایثار کے ساتھ نبھاتے رہے اس لیے امارتِ اسلامیہ کی قیادت نے ان کے آخری ایام میں پورے افغانستان کے تمام صوبوں میں انہیں یہ ذمہ داری سونپی-قاری صاحب پورے ملک کے لیے اسفار کرتے، تاکہ مجاہدین کو بروقت بارودی مواد پہنچنے میں کوئی مشکل نہ ہو-گذشتہ برس قاری صاحب نے عیدالفطر کے بعد زابل سے اپنا سفر شروع کیا اور صوبہ ننگرہار تک گئے جس میں دومہینے لگے-اسی سفر کے بعد عید الاضحی گزرنے کے ساتھ ہی قاری صاحب نے شمالی صوبوں کے اسفار شروع کیے-ہلمند،فراہ، ہرات،غور،بادغیس، فاریاب، جوزجان اور بلخ تک پہنچ گئے-
آخر میں قندز اور بغلان کاسفر شروع کیا،ارادہ یہ تھا کہ بدخشان تک کے تمام علاقے خود قریب سے دیکھ لیں۔ وہ سمنگان کے درہ یوسف سے گزرنے والے تھے کہ دشمن نے ڈرون حملہ سے انہیں نشانہ بنایا اور یوں قاری صاحب سولہ محرم الحرام ۱۴۴۱ ھ کو صبح نو بجے اپنے تین ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے- انا لله اناالیه راجعون
موصوف جو اس سے پہلے اپنے دوبھائیوں کی قربانی دے چکے تھے، نے یہ ایک ایسانذرانہ پیش کیا کہ پورا جسم ڈرون حملہ میں لہولہان نہیں بلکہ جل کر خاکستر ہوگیا تھا- صرف ایک مصنوعی ٹانگ تھی جو اپنے آہنی سلاخوں کی وجہ سلامت رہی تھی-اور اسی سے ان کی شناخت کی گئی- .  تقبله الله تعالی و اسکن روحہ في أعلی علیین۔
شخصیت کی خصوصیات:
گزشتہ چند سال سے میں جن برگزیدہ مجاہدین کی سوانح لکھ رہاہوں ان میں ایک خاص نکتہ یہ ہے کہ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے دین کے لیے منتخب کیاہے۔ یہ آپس میں یکساں نوعیت کی صفات رکھتے ہیں- ان خصائل میں سے ایک قیام اللیل اور تہجد کی نماز اور اللہ کے حضور خفیہ طور پر گریہ وزاری ہے- میں نے جب بھی امریکا کے خلاف عظیم کارنامے سرانجام دینے والے مجاہدین کی داستانِ حیات کی کرید کی ہے تو معلوم ہواہے  کہ یہ سب تہجد اور رات کے اندھیروں میں اللہ کے سامنے اپنی عاجزی اور دعا کے عادی ہیں- دن کو اگر یہ لوگ عزم واستقامت کے پیکر،جہاد کے علمبردار،میدان کارزار کے شہسوارہیں تو رات کی تاریکیوں میں اپنی پیشانی خاک پر گرنے والے، شب زندہ داری کرنے والے،اپنے خدا کے آگے ندامت کے آنسو بہانے والے لوگ ہیں-انہیں لمحات میں وہ رب سے ناز ونیاز کرنے والے ہیں-یہی وہ مقدس طاقت ہے جو ان کی زندگی اور مشن میں برکت ڈالتاہے اور ان کے دماغ وبازو کو  قوت بخشتاہے-ان کی تلواروں کے لیے صیقل کاکام دیتاہے اور اسی کی بدولت اللہ پاک ان کے ہاتھ پر ایسے فتوحات ظاہر کرتاہے جس سے ظاہر بین عقل عاجز آجاتی ہے-
شہید قاری سیف اللہ فاتح رات کے آخری پہر، تہجد اور اندھیری فضاء میں رب کے سامنے عجز اور دعا کے عادی تھے-موصوف کے ساتھیوں کاکہناہے کہ حالات کچھ بھی ہوں مجال ہے کہ قاری صاحب کی تہجد کی نماز چھوٹ جائے-
ان کے ایک ساتھی مولناجمیل صاحب کہتے ہیں: ایک دن ہم ہلمند سے روانہ ہوگئے- روزگان گئے – پھر وہاں سے چنار توگئے-وہاں سے زابل کی طرف روانہ ہوئے، راستہ بہت زیادہ خراب تھا بمشکل رات گئے وہاں پہنچے اور عشاء کی نماز پڑھ کر تھکے ہارےسوگئے- تھوڑی دیر بعد آنکھ کھلی تو کیادیکھتاہوں کہ قاری سیف اللہ کب سے بیدار ہوچکے ہیں، وضو بھی کرچکے ہیں اور کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں- تھکاوٹ سے چور اس حالت میں جب ان کی تہجد کی نماز نہیں چھوٹی تو میں وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ عام حالات میں پھر کبھی نہیں چھوڑی ہوگی-
ایک اور ساتھی ملاعبداللہ اسی طرح کا واقعہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں:ایک دفعہ ایک جہادی سفر سے تھکے ہارے واپس آگئے -رات میرے ہاں گزاری- سونے سے پہلے مجھ سے کہا کہ ایک لوٹا پانی یہاں رکھ کر جاو- ہوسکتاہے وضو کی ضرورت پڑجائے- گرمی کاموسم تھا لوگ باہر سہن میں سوتے تھے، میں قاری صاحب کی کھانسی کی آواز پر جاگ گیا- میں اپنی جگہ سے اٹھا اور دروازے میں جھانکا تو دیکھتاہوں کی قاری صاحب نیند سے بیدار ہوچکے ہیں اور اپنی مصنوعی ٹانگ کی سیٹینگ میں مصروف ہیں- دیر تک مصروف رہنے کے بعد اسے سیٹ کرنے میں کامیاب ہوئے- پھر وضوء بنایا اور اپنی چادر مٹی پر بچھادی- اس پر بڑے خشوع اور خضوع سے کھڑے ہوئے- نماز پڑھنی شروع کی- میں نے جب ان کی تھاوٹ کو دیکھا-پھر آدھی رات کایہ جاگنا-صرف اس کی ٹانگ کو سیٹ کرنے میں کتناوقت لگتاتھا؟تو اپنے آپ پر افسوس ہوا کہ صحت اور تندرستی کے باوجود بھی ہم اس وقت کی عبادت اور اس کی لذت سے کیوں محروم ہیں؟
اللہ تعالی شہید قاری صاحب کے تمام اعمال صالحہ قبول فرمالے اور ان کی برکتیں ہمیں بھی نصیب فرمادے آمین یا رب العلمین-