موجودہ حالات کے حوالے سے امارت اسلامیہ کے ترجمان سے گفتگو

معاہدے کے بعد افغانستان میں امریکا کے قیام سے افغانستان طویل سیاسی غیر استحکام کا شکار ہوجائے گا۔ انتخابات کے باوجود امریکی سفیر کی مداخلت نے واضح کردیا غیروں کا مسلط کردہ سسٹم کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اشرف غنی کا انتخاب امریکی سفیر نے کیا ہے ۔ان کا سب سے غلط اقدام امریکی معاہدے پر دستخط […]

معاہدے کے بعد افغانستان میں امریکا کے قیام سے افغانستان طویل سیاسی غیر استحکام کا شکار ہوجائے گا۔

انتخابات کے باوجود امریکی سفیر کی مداخلت نے واضح کردیا غیروں کا مسلط کردہ سسٹم کامیاب نہیں ہوسکتا۔

اشرف غنی کا انتخاب امریکی سفیر نے کیا ہے ۔ان کا سب سے غلط اقدام امریکی معاہدے پر دستخط ہے ۔

محترم قارئین!

آپ جانتے ہیں کہ افغانستان میں اس سال اہم عسکری ، سیاسی اور دیگر تبدیلیاں آرہی ہیں ۔ اس حوالے سے زیر نظر شمارے کے لیے امارت اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب سے گفتگو کی ہے ۔ ان سے ہونے والی تفصیلی گفتگو آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔

ابوعابد:

مجاہد صاحب سب سے پہلے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ مہربانی فرماکر ملک کی موجودہ عسکری صورتحال کے حوالے سے معلومات فراہم کریں ۔ خیبر آپریشن جاری ہے ۔ آپ کے خیال میں اس سال افغانستان میں عسکری صورتحال کیسی رہی ۔ اور کونسا فریق کامیاب رہا ۔

ذبیح اللہ مجاہد:

الحمدلله وکفی والصلوة والسلام علی عباده الذين اصطفی امابعد:

سب سے پہلے آپ کی اور تمام قارئین کی خدمت میں سلام و احترام اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں ۔ خیبر آپریشن الحمد للہ سابقہ آپریشنوں کی طرح پوری طرح کامیابی سے جاری رہا ۔ یہ آپریشن اپنے فال کے مطابق دشمن کے لیے انتہائی تباہ کن رہا ۔ اس آپریشن میں مجاہدین کے حوصلے بہت بلند رہے ۔ اس آپریشن کا آغاز ایسے حالات میں ہوا کہ مجاہدین عددی لحاظ سے بھی سب سے زیادہ میدان جہاد میں اترے یہاں تک کہ سب کو اسلحہ پہنچانا بھی ناممکن ہوگیا تھا ۔

آپریشن کا دائرہ بہت سے ایسے علاقوں کی جانب وسیع ہوگیا جہاں مجاہدین کی تعداد بہت کم تھی ۔ مثلا ملک کے شمالی حصے، آپریشن کے آغاز میں بدخشان میں پورا ایک ضلع دشمن کے قبضے سے چھڑا یا گیا ۔ وہاں درجنوں کی تعداد میں دشمن ہلاک اور زندہ گرفتار کیے گئے ۔ بہت زیادہ اسلحہ اور دیگر وسائل غنیمت میں ملے ۔ اسی طرح رواں سال میں صوبہ قندوز میں خیبر آپریشن کے اثرات انتہائی واضح تھے ۔ بہت سے مجاہدین دشمن کے مقابلے کے لیے اترے ۔ دشت ارچی ، چہار درہ اور امام صاحب کے اضلاع کے بہت سارے حصے ، قندوز مرکز کا اکثرحصہ دشمن کے وجود سے پاک ہوگیا ۔ مجاہدین نے وہاں بڑے بڑے آپریشن کیے ۔

درجنوں چیک پوسٹیں فتح کیں ۔ دشمن سے بہت زیادہ اسلحہ اور اہم وسائل غنیمت میں ملے ۔ ٹینک مجاہدین کے قبضے میں آئے ۔ درجنوں اربکی ، پولیس ، فوج اور انٹیلی جنس اہلکار ہلاک ہونے کے ساتھ ساتھ زندہ گرفتار کیے گئے ۔ الحمد للہ پورے قندوز میں مجاہدین کے وجود کا احساس رہتا ہے ۔

اس کے ساتھ ساتھ آپریشنوں کی برکت سے فاریاب ، غور ، ہلمند، اروزگان ، قندہار ، لوگر ، غزنی ، ننگرہار ، نورستان ، دایکندی ، سرپل اور دیگر صوبوں میں دشمن پر بڑے بڑے گروپ حملے ہوئے ۔ جس نے دشمن کو شدید خطرات سے لاچار کردیا ہے ۔ سینکڑوں فوجی ، پولیس اور انٹیلی جنس کارکن اور اربکی ہلاک ہوگئے ۔ زندہ گرفتار کیے گئے ، اسلحہ اور دیگر جنگی وسائل اور دیگر مواد مجاہدین کے قبضے میں آگیا ۔

رواں سال کے آغاز ہی سے مجاہدین کی جانب سے خیبر آپریشن کا آغاز پورے منظم طریقے سے کیا گیا ۔ جس میں دشمن کے اہم اہداف مجاہدین کے حملوں کا نشانہ بنے ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں دشمن کی جانب سے نام نہاد انتخابات کے دو مرحلے طے ہوئے ۔ دونوں مراحل میں پورے ملک میں دو دو دنوں تک دشمن پرمنظم طریقے سے تقریبا 2000 حملے ہوئے جس سے مجاہدین کی بھرپور قوت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دشمن نے انتخابات کو کامیاب دکھانے کے لیے ہماری تمام کارروائیوں پر آنکھیں بند رکھیں ۔

اس کے علاوہ دعوت وارشاد کے شعبے میں مجاہدین کی کارروائی کے پیش نظر سینکڑوں افراد دشمن کی صف سے نکل کر اپنی معمول کی زندگی گزارنے لگے ہیں ۔ رقبے کے لحاظ سے ملک کا بہت بڑا حصہ مجاہدین کے کنٹرول میں آگیا ۔ بہت سے ہم وطن عوام اسلامی نظام کے سائے تلے زندگی گزار رہے ہیں ۔

اسی لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس سال فتوحات اور کامیابیاں مجاہدین کے ہاتھ میں رہیں ۔ ملک کا اکثر حصہ مجاہدین کی کارروائیوں کی زد میں ہے ۔ یہاں تک کہ کابل جو سیکیورٹی کے اعتبار سے انتہائی اہم علاقہ شمار کیا جاتا ہے ، دشمن نے یہاں اپنی بہت زیادہ قوت صرف کی ہے اس کے باوجود یہاں فدائی حملے ہوتے رہتے ہیں ۔ دشمن کی بڑی بڑی کانوائے حملوں کی زد میں رہتے ہیں ۔ خارجی جارحیت پسندوں کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں کو بھی کابل میں بہت زیادہ نقصانات اٹھانے پڑے ۔ بڑی بڑی گاڑیاں مختلف طریقوں سے تباہ کی جارہی ہیں ۔ دشمن کے اہم افراد مجاہدین کی جانب سے گوریلا حملوں میں ہلاک ہوگئے ۔ پہلے بھی الحمد للہ کابل سمیت پورے ملک میں دشمن کے صفائے کا سلسلہ جاری ہے ۔

اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ تعداد کے لحاظ سے نسبتا کم مجاہدین وسائل کے اعتبارسے پوری طرح لیس جارحیت پسندوں ، اور اس کے ساتھ ساتھ تقریبا 5 لاکھ اندرونی دشمنوں جن میں پولیس ، انٹیلی جنس اور فوج شامل ہیں ان کے خلاف بہت بہادری سے لڑے ۔ اور ہر مرحلے پر دشمن کو انتہائی گھبراہٹ کا شکار کردیا۔

ابوعابد:

افغانستان میں اس سال بڑی تبدیلیاں آئیں ۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے انتخابات اور بقول ان کے پر امن انتقال اقتدار کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا ۔ آپ کے خیال میں یہ سلسلہ کیسا رہا ۔ یہ مغرب کی کامیابی تھی یا مزید پسپائی؟

مجاہد :

جیسا کہ آپ نے اس جانب اشارہ کیا کہ افغانستان میں سیاسی تبدیلی کے نام پر جو تبدیلی آئی ہے یا جس کا پروپیگنڈا کیا گیا یا اس حوالے سے جو خوش فہمی پائی جاتی تھی ان سب کا برعکس نتیجہ نکلا۔

بے انتہا مصارف اور جانی نقصانات اٹھانے کے بعد مغربی قوتیں دنیا کو یہ باور کرانا چاہتی تھیں کہ ہم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ ایک منتخب جمہوری نظام کامیابی سے قائم ہے ۔ جمہوریت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے ۔ اب اگر اس ملک سے وہ اپنی فوجیں نکال بھی لیں اور جنگ کا ایک فریق جنگ کے خاتمے کا اعلان کردے تو بھی وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔

مگر عملی طورپر تمام افغانوں اور دنیا بھر کے لوگوں نے دیکھ لیا کہ ایسا نہ ہوسکا ۔ انہوں نے سابقہ نظام کی بنسبت انتہائی کمزور اور لین دین پر قائم نظام قائم کیا ۔ انتخابات کا سلسلہ لوگوں کی عدم دلچسپی کے باعث ناکام رہا ۔ مگر مغربی ذرائع ابلاغ نے پروپیگنڈے کے ذریعے کوشش کی کہ اس ڈرامے کو کامیاب ظاہر کرے ۔ بات وہاں ظاہر ہوگئی اور پروپیگنڈے کا طلسم اس وقت ٹوٹا جب انتخابات کےدوسرے مرحلے میں شرمناک صورتحال سامنے آگئی اور امیدواروں نے خود اعتراف کیا کہ انتخابات میں شرکت کرنے والے لوگوں کی تعداد غلطی سے بہت زیادہ بتائی گئی تھی ۔ سینکڑوں جھوٹ اور راز کھل رہے ہیں جس سے دشمن خود بخود اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے لگا ہے ۔

انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ کرزئی انتظامیہ ، عدالتی نظام اور مستقل کمیشنز اور اداروں کے ہوتے ہوئے پھر بھی آخری فیصلہ مکمل طورپر غیر جمہوری طریقے سے امریکی سفارت خانے میں ہوا ۔ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جلدی جلدی دورے کیے ۔ امریکا کے خصوصی نمائندے اور کابل میں امریکی سفیر اسی بھاگ دوڑ میں تھک ہار گئے ۔ آخر کار ان کے کھیل کا منصوبہ رسوا ہوگیا اور واضح ہوگیا کہ یہ انتخابات کا نتیجہ نہیں بلکہ امریکی سفارت خانے کا سلیکشن تھا۔ جنہیں نام اور چہرے بدل کر کچھ نئے نعروں کے ساتھ کابل پر ایک بارپھر مسلط کیا گیا ۔

انتخابات کے ناکام نتائج نے یہ بات واضح کردی کہ افغانستان میں غیروں کا مسلط کردہ نظام اور سسٹم کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ اور نہ ہی اس سے بڑھ کر کوئی نتیجہ دے سکتے ہیں ۔

افغانستان کے مسلمان عوام نے موجودہ انتظامیہ کی غلامانہ کیفیت اور غیروں سے وفاداری دیکھ لی ہے ۔ اب ان کے لیے واضح ہوگیا ہے کہ اشرف غنی انتظامیہ نے بلاکسی لیت ولعل کے جلد از جلد امریکا سے ہونے والے معاہدے پر دستخط کردیے اور اپنے زعم میں افغانستان کو ایک طویل دورانیے کے لیے امریکا کو فروخت کردیا ۔

اس سے واضح ہوگیا کہ اشرف غنی انتظامیہ سابقہ کرزئی حکومت سے بھی دوچار ہاتھ آگے امریکی مفادات کے لیے کام کررہا ہے ۔ امریکا کی جانب سے اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو آمنے سامنے بٹھانا اور آپس میں ملادینا امریکا کے بل بوتے پر تھا ۔ اور یہی مستقبل میں افغانستان کے لیے ایک ناکام اور غیر مستحکم انتظامیہ کے قیام کا سبب بنے گا۔

اشرف غنی انتظامیہ کی ابتداء ہی میں اس قدر بے عزتی کی گئی ۔ آپ جانتے ہوں گے کہ یہ معاہدہ امریکی صدر اور کابل انتظامیہ کے درمیان ہونا چاہیے تھا ۔ مگر امریکی جانتے ہیں کہ اشرف غنی انتظامیہ ان کی ہی کٹھ پتلی ہے اور انہیں کی منتخب کردہ ہے ۔ بس اسی لیے اشرف غنی کے ساتھ معاہدے پر دستخط امریکی صدر یا کم از کم کابینہ کے کسی رکن نے نہیں بلکہ کابل میں امریکی سفیر نے کیے ۔ حالانکہ سفارتی اعتبار سے اس طرح کے معاہدے جو واقعتا دو حکومتوں کے درمیان ہوں اس پر دستخط سفیر کے ہاتھوں نہیں ہوا کرتے ۔

افغانستان پر امریکی جارحیت کے بعد کرزئی نےاقتدار منتقلی کے بعد جو اپنا پہلا امریکی دورہ کیا وہاں امریکی سینیٹ میں کرزئی کو بڑی بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا ۔ کیوں کہ وہاں امریکا کے سینئیر سینیٹرز کی مجلس میں کرزئی کے لیے ایسی کرسی رکھی گئی تھی جو تمام سینیٹرز کی کرسیوں سے چھوٹی تھی ۔ اس سے مقصد کرزئی کو یہ باور کرانا تھا کہ وہ امریکا کا محض ایک کم رتبہ ملازم ہے ۔

ان حالات کو دیکھتے ہوئے امریکی افغانستان میں پوری طرح ناکام ہوچکے ہیں ۔ نہ اپنے جمہوری اصولوں کے مطابق نظام بنایا نہ عسکری میدان میں کوئی قابل توجہ تبدیلی لائی گئی ۔ اور نہ ہی افغان عوام کی نفرت اور بیزاری میں کوئی تبدیلی لائی جاسکی ۔ ایسے حالات میں امریکا کی جانب سے جنگ کے خاتمے کا اعلان محض امریکی عوام کو لولی پاپ دینے کے مترادف ہے ۔ جس کے نتائج مستقبل میں خود امریکی عوام دیکھ لیں گے ۔

ابوعابد:

اشرف غنی احمد زئی کے نام سے کابل انتظامیہ کے لیے نئے صدر کا سلیکشن کیا گیا ۔ آپ ان کی شخصیت ، کردار اور قانونی حیثیت کے حوالے سے کیا کہتے ہیں ۔ ان کے کردار اور حکومت کے حوالے سے قارئین کو اپنی رائے سے آگاہ کریں ؟

مجاہد:

اشرف غنی احمد زئی چوں کہ لبنان میں ایک ایسے امریکی ادارے کے تربیت یافتہ ہیں جہاں ایسے ہی امریکی عمال کی تربیت کی جاتی تھی۔ اشرف غنی بھی ایسے ہی ایک ادارے کے پڑے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اشرف غنی کو مفکر اور سیاست دان کے جھوٹے القابات دیے ۔ وہ ملک سے باہر ایسے حالات میں رہے کہ انہیں ملکی حالات کی کوئی خبر رہی نہ انہیں اس حوالے سے پریشانی اور فکر لاحق رہی ۔ بلکہ کچھ عرصے کے لیے وہ کمیونسٹوں کی خدمت کرتے ہوئے بھی رہ چکے ہیں ۔اشرف غنی عقیدے کے لحاظ سے تحفظات کے شکار ہیں ۔ سیکولر افکار میں تربیت پانے والا یہ شخص اکثر دینی احکام اور اقدار کو تسلیم کرنے پر بھی راضی نہیں ۔

ان کی قانونی حیثیت کے بارے میں یہ کافی ہے کہ اشرف غنی امریکی سفیر کی جانب سے متعین کیے گئے ہیں ۔ انہیں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں اور ان کی جانب سے اس کے ساتھ وہی کیا جائے گا جو امریکی مفاد میں ہو ۔

اشرف غنی کا کردار شروع ہی سے مشکوک رہا ہے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ انتخابی کیمپین کے آخر میں عمرے کے بہانے بیت اللہ شریف گئے ۔ ایسے حال میں جب ان کی عمر 60 سال تک پہنچ گئی ہے ۔ حج کی ادائیگی ان پر اس وقت فرض ہوگئی تھی جب ان کے پاس حج پر جانے کی استطاعت پیدا ہوگئی تھی ۔ اشرف غنی نے ساری زندگی وسائل اوردولت کی فراوانی کے ساتھ ساتھ ڈالری معاش اور لبنان اور امریکا کو آنے جانے میں گزار دی ۔ مگر حج نہیں کیا اور پھر انتخابی کیمپین کے آخر میں عمرے پر چلے گئے جو فرض کے قائم مقام ہر گز نہیں ہوسکتا ۔ اس سے یہ خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ سیکولر لوگوں کو حج یا دوسرے عبادات کی کوئی اہمیت نہیں عمرے کا یہ سفر بھی محض انتخابی کیمپین کا حصہ تھا ۔ جو لوگوں کو دکھلانے کے لیے کیا گیا ۔

اس کے علاوہ اشرف غنی کی دیگر کارکردگیاں بھی صرف نمائشی ہیں ۔ محض عوام کو دھوکہ دینے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا ۔ اس طرح کی نمائشی حرکتیں افغانوں کی اصل مشکلات کا مدوا ہر گز نہیں ہوسکتیں ۔ سب سے پہلے دوستم اور اشرف غنی کا اتحاد اور دوستم کو اپنے سیکرٹری اعلی کے طورپر چن لینا ان اقدامات سے خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ اس ملک کے کلیدی عہدوں پر آگے اور کتنے درندے اور بھیڑیے براجمان ہونے والے ہیں جنہوں نے اس سے قبل بھی باربار یہاں کے عوام کا خون چوسا ہے ۔

عبداللہ عبداللہ کے ساتھ مشترکہ حکومت سازی کا مطلب یہ ہے کہ کرزئی حکومت میں جو چور ، ڈاکو ، قاتل اور منشیات کے اسمگلر صاحب اقتدار رہے ، جنہوں نے ملک کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ وہ موجودہ انتظامیہ میں بھی برسر اقتدار رہیں گے ۔ اور صرف نام اور چہرے کی تبدیلی کے ساتھ اپنا کام جاری رکھیں گے ۔

اشرف غنی کے یہ عزائم کے وہ کرپشن اور رشوت کے خاتمے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کریں گے ان اقدامات کو عملی شکل دینے کے کچھ بھی امکانات نظر نہیں آتے کیوں کہ جہاں تک بات کم درجہ عہدیداروں کی ہے وہاں تو رشوت اور کرپشن کا خاتمہ کردیا جائے گا مگر جہاں یہ مسئلہ دوستم ، عبداللہ اور دیگر بڑے رشوت خوروں تک پہنچ جائے گی اور ان لوگوں کی اصلاح کی بات ہو جو گذشتہ حکومت میں بھی فساد کے اصلی جڑ رہے ہیں تو یاتو یہ انتظامیہ ختم کردی جائے گی یا اشرف غنی کو اس کام سے روک دیا جائے گا ۔ اس مرحلے پر جاکر اشرف غنی کی اصلاحات بھی ایسی ہی ناکامی سے دوچار ہوں گی جس طرح “شفاف اور آزادانہ وعادلانہ انتخابات” کا سلسلہ ناکامی سے دوچار ہوا تھا ۔

اس طرح کے حالات میں اشرف غنی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ جس طرح اس نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے اسی طرح ملک کا نظام ٹھیک کردے ۔ دوسری طرف امریکا بھی نہیں چاہتا کہ افغانستان میں نظام حکومت کرپشن اور رشوت سے پاک ہوجائے ۔ کیوں کہ ان کے مفادات اسی خراب اور تباہ شدہ نظام سے وابستہ ہیں ۔ آپ جانتے ہیں کرزئی کے نظام حکومت میں کتنا کرپشن ہوا تھا ۔ اس کرپشن میں بھی زیادہ حصہ امریکی فوجی عہدیداروں اور ان کے اتحادیوں کا تھا یہ وہ لوگ تھے جو امریکا میں سیاسی حلقوں سے تعلقات رکھتے تھے اور ان کے غیرقانونی اور مافیائی مفادات کا تحفظ کرتے تھے ۔ اشرف غنی کو اپنے اسی اصلاحاتی پروگرام میں ناکام کرنے کے لیے امریکا نے عبداللہ عبداللہ جیسے معروف کرپٹ بندے کو اس کا اتحادی بنادیا ۔ جب اشرف غنی امریکیوں کے کچھ غیر آئینی اقدامات اور مطالبات کے آگے رکاوٹ بننے کی کوشش کرے گا تو حکومت کے اندر اس کے لیے مشکلات پیدا کی جائیں گی ۔ اور ان کے قریبی حریف عبداللہ کے ذریعے انہیں امریکی مطالبات تسلیم کرنے پر راضی کیا جائے گا ۔ اس طرح اشرف غنی اپنے اختیارات اور اقتدار کی نمائش کے لیے وہ برائے نام اقدامات بھی نہیں کرسکے گا جو کرزئی حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری دنوں میں کیے تھے ۔

ابوعابد:

اشرف غنی کی قیادت میں حکومت نے امریکا سے امن معاہدے پر دستخط کردیے ہیں اور افغانستان میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کا دورانیہ مزید دس سال تک طویل کردیا ۔ اس معاہدے کی شرعی حیثیت پر آپ کچھ روشنی ڈالیں ، اس کے نقصانات سے ہمیں کچھ آگاہی دیں اور یہ بتائیں اس معاہدے سے امریکا اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائے گا؟

مجاہد:

اشرف غنی کے پورے کردار میں ان کا سب سے غلط اقدام یہی تھا کہ انہوں نے امریکا سے معاہدپر دستخط کردیے ۔ اس طرح کے معاہدے افغان عوام کے لیے جو 99 فیصد سے زیادہ مسلمانوں پر مشتمل ہیں قابل قبول نہیں ہے ۔ اور تاریخی اعتبار سے اشرف غنی اور پوری ٹیم کے لیے یہ بدنامی کا باعث بنا ہے ۔ یہ معاہدہ گندمک کے بدنام زمانہ معاہدے یا سوویت یونین کے ساتھ ببرک کارمل کی سودے بازی جیسی حیثیت رکھتا ہے ۔ جنہیں اس وقت اور انہیں حکومتوں کے دورمیں ملک کی مجبوری اور ملکی مفاد میں قرار دیاگیا ۔ مگر آج افغانستان کا ایک بچہ بھی فیصلہ کرسکتا ہے کہ انہوں نے کتنی بڑی تاریخی غلطی اور خیانت کا ارتکاب کیا ۔

شرعا اس طرح کا معاہدہ جس میں غیر مسلم افواج کو ایک مسلمان ملک میں رہنے کی اجازت دی جائے مردود ہے ۔ قرآن کریم کی صریح نص سے یہ معاہدہ مسترد ہے ۔ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو کفار کی دوستی سے منع کیا ہے ۔ شریعت میں ایسی کوئی قانونی صورت نہیں جس کی رو سے مسلح کفار کو مسلم ممالک میں رہنے دیا جائے ۔ کفر مطلقا قبیح مردود ہے ۔ کفار فوجیوں کو اسلامی سرزمین پر رہنے کی اجازت کسی صورت نہیں ۔ مسلمان ایک فرد کی حیثیت سے کافر کی غلامی میں نہیں آسکتا ۔ تو ایک مکمل مسلمان ، مجاہد اور سربلند قوم کیسے کافروں کی غلامی قبول کرسکتی ہے ۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ افغانستان میں امریکی جارحیت پسندوں کے ہوتے ہوئے اسلامی نظام کے قیام ، شرعی احکام کے نفاذ ، مسلمان عوام کی دینی ، اصلاحی اور اسلامی عدالت کا قیام ناممکن ہے ۔ جو معاہدہ اس طرح کے مفاسد اور خرابیوں کا باعث ہو کبھی بھی شرعی اور قانونی نہیں ہوسکتا ۔ اور چونکہ یہ مفاسد کا سبب بنے گا اس لیے یہ خود بھی فاسد سمجھاجائے گا۔

اس معاہدے پر دستخط سے سیاسی اعتبار سے بھی افغانستان کو بڑے نقصانات ہوں گے ۔ سیاسی اعتبار سے افغانستان ایک غیر مستحکم اور پیچیدہ صورتحال کا شکار ہوجائے گا ۔ اس طرح کے معاہدے افغانستان جیسے دو متضاد قطبوں کے درمیان واقع ملک کو بڑے پیمانے پر اور طویل مدت کے لیے اقتصادی اور سیکیورٹی مشکلات سے دوچار کردیں گے ۔

افغانستان میں امریکیوں کی عسکری موجودگی اسے امریکا اور علاقائی جارح قوتوں جیسے روس ، چین اور ایران اور ایک پڑوسی کی حیثیت سے پاکستان کے درمیان میدان جنگ بن جائے گا جو طویل عرصے تک رہے گا ۔ مختلف توجیہات کی بنیاد پر افغانستان کوتمام محرکات کے مرکز کے طورپر استعمال کیا جارہا ہے ۔ اگر ہم تاریخی لحاظ سے دیکھیں ۔ افغانستان میں ظاہر شاہ کے دور حکومت میں جب یہ ایک آزاد وخود مختار ملک تھا ،یہاں سیاسی استحکام تھا اور لڑائی جھگڑے اور شرفساد کا وجود نہیں تھا ۔ اگرچہ اقتصادی مشکلات تھیں مگر وہ داخلی غفلت اور اندرونی عوامل کی بنیاد پر تھیں ، بیرونی عوامل اور دباو اس کا باعث نہیں تھے ۔ مگر جب افغانستان میں کمیونسٹوں کے دور میں افغانستان پر ایک مخصوص طبقے کا قبضہ ہوگیا تو فطری طورپر دوسری جہت کے لیے مداخلت کا راستہ ہموار ہوگیا ۔ اور یہاں ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوگیا جو آج تک کوئی بھی نہ جیت سکا ۔

اب ایک بارپھربھرپور علانیہ طریقے سے ہمارا ملک بیرونی ممالک بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ علاقائی متضاد قطبوں کے درمیان میدان جنگ بننے جارہا ہے ۔ ایسی ناپختہ سیاست افغانستان کو طویل مدت کے لیے ایک انتہائی غیر مستحکم صورتحال کی جانب دھکیل دے گی ۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ افغانی ذہنیت اس بات کو قبول کرنےپر آمادہ نہیں کہ دینی احکامات اور الہی ارشادات سے رو گردانی کریں اور کفری قوتوں کو اپنے ملک میں رہنے دیں ۔ دنیا کی کسی دوسری قوم کے متعلق تو شاید ایسا سوچا جاسکے مگر چند افغانوں کے متعلق جن کو دینی حوالے سے بہت مرتبہ آزما جاچکا ہے ایسا سوچنا بھی غلط ہے ۔ چند افراد کے دستخط کرنے کے بعد پوری قوم سے اس کے پورے کرنے کی امید رکھنا یہ افغانوں کی تاریخ سے بے خبری اور تجاہل کی دلیل ہے ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر ہماری موجودہ نسل اس معاہدے پر راضی ہوبھی جائے تو آئندہ نسلوں میں ضرور ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو حالات کو بدل دیں گے ۔ اور امریکا کی غلامی برداشت نہیں کریں گے ۔ اشرف غنی نے اس صورتحال سے صرف نظر کیا ۔

یہ بات ایک واضح حقیقت ہے کہ افغان عوام جیسے دینی روایات اور اقدار پر مرمٹنے والی قوم کو عسکری قوت اور دباو کے ذریعے نہیں جھکایا جاسکتا ۔ کسی وقت یہاں امریکیوں کی بہت بڑی قوت موجود تھی ، جدید ترین ٹیکنالوجی ان کے پاس تھی ، دنیا بھر کے 49 ممالک کا اقتصادی اور عسکری تعاون انہیں حاصل تھا ۔ ان تمام کے باوجود وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ اب ان کے عسکری جنرلز آئے روز اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے رہتے ہیں ۔ تو اب دس ہزار افواج کی موجودگی میں وہ کیا کرسکیں گے ۔

جی ہاں! اپنے خلاف اور اپنے کٹھ پتلیوں کے خلاف عوام کے احساسات بیدار کرتے رہیں گے ۔ افغان عوام اور بھی جہاد اور مزاحمت کے لیے نکلیں گے ۔ جنگ کو جاری رکھنے کے عوامل اور بھی زیادہ ہوجائیں گے ۔ مگر آخر میں وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ساتھ میدان سے بھاگ جائیں گے ۔ سوبار بھی اگر اپنے مزدوروں سے معاہدوں پر دستخط کروائیں ان کے ساتھ ہی افغانوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے ۔ اور یہ زمین بالآخر اپنی آزادی اور استقلال لے کر رہے گی ۔ ان شاء اللہ

ابوعابد: آپ کے خیال میں امریکہ سے ہونے والے معاہدے کے قابل اعتبار منفی نتائج افغان عوام اور افغانستان کیلیے کیا ہونگے؟

مجاہد: امریکہ سے ہونے والے سیکیورٹی معاہدے اورافغانستان میں امریکی فوجی اڈوں کا قیام بہت سے منفی نتائج رکھتا ہے۔امریکا ان اڈوں کو اسلامی تحریکوں،مجاہدین اور اسلامی نظام کے خواہشمندوں کی بیخ کنی کیلئے استعمال کرے گا۔افغانستان اور خطے میں اسلامی بیداری اور اسلامی فکر کی تقویت کی روک تھام کرے گا،اور اس کیلئے عسکری، سیاسی، اعصابی اور جاسوسی جنگ سے کام لے گا۔ مومن افغان عوام کو گمراہ کرنے اور مغرب کی بے دینی میں رنگنے کیلئے ہر قسم کے اقدامات کرے گا۔ان اڈوں سے مغربی عریانی،بے دینی، ارتداد، مرد وزن کے اختلاط اور دوسری گمراہیوں کی ترویج وسیع پیمانے پر کرے گا جس کے نتیجے میں ہماری مسلمان نسل کوگمراہی اور بے دینی کے چیلنج کا سامنا ہوگا ۔مغرب معاہدے میں دئے گئے خصوصیات اور اختیارات کے ذریعے افغانستان کے قومی ذخائر،ثقافتی ورثے،نایاب کیمیایِی مواد اور دیگرقیمتی وسائل کے استخراج اور وسیع پیمانے پر لوٹ مار کا آغاز کرے گا، معاہدے کی روسے حاصل ہونے والے وسیع پیمانے پر اختیارات کا استعمال کرکے افغانستان کی زمین اور فضا پر حاکم بن جائے گا۔ افغانستان کی سیاست ، اقتصادیات ، خارجہ پالیسی ، میڈیا ، تعلیم اور دیگر بنیادی اداروں پر ان کا قبضہ ہوگا ۔ اور جیسا بھی وہ چاہیں گے اپنے مفادات کے لیے انہیں استعمال کریں گے ۔ واضح سی بات ہے کہ افغان اور امریکی عوام کے مفادات ایک دوسرے کے تضاد ہوں گے ۔ افغان عوام مومن اور امریکی عوام بے دین اور کفار ہیں ۔ یہ لوگ ثقافتی ، تاریخی ، جغرافیائی اور ہر لحاظ سے غیر ہیں اس لیے جب امریکی اپنے مفادات کے لیے ہر طرح کی قربانی دے سکتے ہیں تو وہ ضرور بضرور افغان عوام کے نقصان میں ہوگا ۔

ان کے اڈے جاسوسوں کی تربیت اور تشکیل کے مراکز ہوں گے ۔ یہیں سے وہ اپنی جاسوس طیارے اڑائیں گے ۔ ڈرون حملے یہیں سے ہوں گے ۔ نہ صرف افغانستان بلکہ جنوبی ایشیا ، وسطی ایشیا اور ایران کے حدود میں اپنے مخالفین کو نشانہ بنائیں گے ۔ جس سے علاقے میں جہادی اور اسلامی تحریکوں کو بڑا خطرہ لاحق ہوجائے گا ۔ امریکا ان اڈوں کو پروپیگنڈے ، جاسوسی ، رسدفراہمی اور دیگر بہت سے مقاصد کے لیے استعمال کرے گا ۔

ابوعابد:

اشرف غنی حکومت کے آتے ہی کچھ اور نئے واقعات پیش آئے ہیں ۔ ایکسپریس افغانستان کے نام سے کابل سے چھپنے والے انگریزی روزنامے نے ارتداد اور انحراف سے بھرپور ایک تحریر شائع کی ۔ جس نے افغان عوام کو مشتعل کردیا ۔ دوسری طرف صدارتی محل کے مشیر برائے سیکیورٹی امور حنیف اتمر نے ڈیلی پالیسی گروپ کی جانب سے بلائے گئے ایک سیمینار میں کہا کہ افغانستان اورخطے بھر میں قائم تمام دینی مدارس کو بند کردیا جائے ۔ اس طرح واقعات کس بات کی علامت ہیں اور اس میں مسلمانوں کی ذمہ داری کیا ہے؟

مجاہد :

اشرف غنی کے جیسے ایک سیکولر شخص کو صدارتی محل میں بٹھانا جس کی فیملی پر عیسائی ہونے کا الزام ہے ۔ ان سب کا یہی مطلب ہے کہ ہمیں اب اور بھی اس طرح کے واقعات کا سامنا ہوگا ۔ دین اسلام سے واضح ارتداد کا آغاز ہوجائے گا اور اشرف غنی کے آنے سے عیسائی دنیا کے لیے افغانستان میں مداخلت کی راہ ہموار ہوجائے گی ۔ چونکہ اشرف غنی اور ان کی پوری ٹیم یہی چاہے گی کہ افغانستان میں خالص اسلامی افکار کی جگہ سیکولر ازم کو ترویج دی جائے اس لیے فطری طورپر اسلامی اقدار اور شعائر کی آئے روز توہین کی جائے گی ۔ علی الاعلان اسلامی احکامات کا انکار کیا جائے گا اور مغرب کی سب سے پہلی اور آخری خواہش کہ افغان عوام کو کفر اور اتداد میں مبتلا کیا جائے اس کی عملی کوششیں کی جائیں گی ۔ عوامی ردعمل یا جذبات کے خوف سےشاید اس حوالے اشرف غنی بہت آہستہ قدم اٹھائیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی بڑی بڑی گستاخیوں کا ارتکاب ہوتا ہم دیکھیں گے ۔

اس حالت سے بچنے کے لیے راستہ صرف عوام کی بیداری ہے ۔ عوام کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمیں امریکی جارحیت کا یہ طویل منصوبہ ناکام بنادیناہے۔ ہمیں یہ واضح کردینا چاہیے کہ یہ مسلمان قوم ہے ۔ یہاں مرتدین کو کام کرنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اشرف غنی انتظامیہ کو اسی مقصد کی خاطر وجود میں لایا گیا ہے ۔ اشرف غنی کے ساتھ ساتھ دیگر مغربی سیکولرسٹ اور سابقہ وموجودہ کمیونسٹ اتمر وغیرہ کو بھی ایسے ہی پروگراموں کو آگے بڑھانے اور عوام کو گمراہ کرنے کے لیے بروئے کار لایا گیا ہے ۔ مگر ان تمام حالات کے ساتھ ساتھ ہمیں امید ہے افغان عوام ایسے اقدام کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے ۔ اور میرے خیال میں عوام کے پاس ایسے حالات کی روک تھام کے لیے مجاہدین سے ہر قسم کا تعاون اور ان کی مدد واحد راستہ ہے ۔

سوال : آخر میں امارت اسلامیہ کے ترجمان کی حیثیت سے آپ اپنے ہمارے قارئین سے کیا کہنا چاہیں گے؟

مجاہد: مجھے یقین ہے جارحیت کے خلاف ہماری مزاحمت اپنے آخری منزل تک پہنچ رہی ہے ۔ جہاد موجودہ مشکلات کا واحد حل ہے ۔ اپنے ملک اور مذہب کے تحفظ ، اسلامی اقدار اور شعائر کی حرمت اور عوام کو کفر اور ارتداد سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ اپنے مجاہدین بھائیوں کی مضبوطی سے حمایت کی جائے ۔ جہادی تحریک کو مزید مضبوط کیا جائے اور ہر ہر فرد مجاہدین تعاون کرے ۔

مجاہدین بھائی اپنے اہداف اور مقاصد کی جانب متوجہ رہیں ۔ اپنی مزاحمتی تحریک پر توجہ دیں ۔ جہاد کی راہ میں اور بھی اپنی سنجیدگی اور پامردی دکھائیں ۔ اور دشمن کے خلاف وہ تمام ذرائع استعمال کریں جو جہادی قوت اور اہداف کے حصول کا سبب بنتے ہیں ۔

ہمارے قائدین کو بھی مجاہدین کی رہنمائی کی جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے ۔ مجاہدین کی فکری تربیت اور اصلاح کی جانب بہت زیادہ توجہ دی جائے ۔ تاکہ اللہ تعالی کی جلد از جلد نصرت کا سبب بنے اور مجاہدین کی کامیابیوں کے لیے راہ ہموار ہو ۔ ان شاء اللہ