کابل انٹیلی جنس حملے کے ماسٹر مائنڈ سے گفتگو

  19 اپریل 2016 کو کابل میں انٹیلی جنس آفس پر امارت اسلامیہ کے فدائی مجاہدین کی جانب سے ایک زبردست حملہ کیا گیا، جس میں درجنوں انٹیلی جنس کارکن ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ بعض میڈیا ذرائع کے مطابق یہ حملہ گزشتہ چند سالوں میں کسی  حساس مرکز پر مجاہدین کا سب سے بڑا […]

 

19 اپریل 2016 کو کابل میں انٹیلی جنس آفس پر امارت اسلامیہ کے فدائی مجاہدین کی جانب سے ایک زبردست حملہ کیا گیا، جس میں درجنوں انٹیلی جنس کارکن ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ بعض میڈیا ذرائع کے مطابق یہ حملہ گزشتہ چند سالوں میں کسی  حساس مرکز پر مجاہدین کا سب سے بڑا حملہ تھا۔ یہاں اس حملے کے ترتیب کاروں میں سے ایک شخص ملاعبدالمجید سے گفتگو ہوئی، جو آپ کی نذر کی جا رہی ہے:

سوال: کابل میں ہونے والے بڑے فدائی حملے کے حوالے سے یہ واضح کر دیں کہ اس کا ہدف کون تھا اور اپنے ہدف کے حصول تک آپ کتنے مطمئن ہیں؟

جواب: کابل انتظامیہ کا انٹیلی جنس انتہائی اہم مرکز تھا۔ سکیورٹی اداروں کے اہل کاروں کا تقرر یہیں سے ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ یہیں پر مخصوص افراد کو خصوصی تربیت دی جاتی تھی۔ یہ سابق کمیونسٹ حکومت اور شقی القلب لوگوں کا گڑھ تھا۔یہاں پر جرم کا اعتراف کرانے کے لیے مظلوم افغانوں پر بھیانک تشدد کیا جاتا تھا۔ یہاں دشمن کا انتہائی اہم ریکارڈ محفوظ تھا۔ پورے افغانستان سے رپورٹیں یہاں لائی جاتی تھیں۔

سوال: حملے کے بعددو چیزیں واضح کریں۔ ایک یہ کہ عوامی نقصانات کے حوالے سے کہی جانے والی بات کے تناظر میں اس جگہ کی لوکیشن کیا ہے؟ دوسری بات یہ کہ دشمن کو کتنا نقصان ہوا ہے؟

جواب: اس جگہ کہ لوکیشن ایسی تھی کہ مشرق میں ’پل محمود خان‘ کی جانب سے جنوب کی طرف جانے والی سڑک واقع ہے۔ پھر ’چمن حضوری‘ کا ایک حصہ ہے۔ جنوب میں عیدگاہ ہے، جہاں صرف عید کے دن لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں۔ شمال کی جانب پہلے ایک ذیلی سڑک پھر دریائے کابل اور اس کے بعد بڑی شاہراہ ہے، جو مشرقی جانب سے کابل شہر میں داخل ہوتی ہے۔ مغرب کی جانب بڑی وسیع و عریض چاردیواری کا مکان ہے۔ جسے ’نعیم کوچی‘ کا مکان کہا جاتا ہے، مگر اس وقت حکومت نے کرائے پر لیا ہے اور اسے انٹیلی جنس دفتر اور دیگر حکومتی اداروں کی گاڑیوں کے لیے پارکنگ ایریا بنا دیا گیا ہے۔ جہاں گاڑیوں کے ساتھ سرکاری ڈرائیور بھی رہتے تھے۔

سوال: حملے کے آغاز کے متعلق بتائیں کہ کس طرح آغاز ہوا اور منصوبہ کیسے مکمل ہوا؟

جواب: ہمارا حملہ اسی سرکاری پارکنگ کی جانب سے شروع ہوا۔ اس مکان اور انٹیلی جنس آفس کے درمیان ایک چار انچ کی دیوار تھی، جو دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی کی مدد سے گرا دی گئی۔ قریب ہی انٹیلی جنس آفس کا تربیتی میدان تھا، حملے کے وقت بھی درجنوں افراد یہاں تربیت میں مشغول تھے۔ اس کے قریب پہلا، دوسرا، تیسرا اور چوتھا بلاک تھا، جس میں انٹیلی جنس کے دفاتر، رہائشی جگہیں اور دیگر متعلقہ ادارے تھے۔ پہلے دھماکے کے ساتھ تربیتی میدان، پہلے دو بلاک اور دیگر بہت سا حصہ مٹ گیا ہے۔ پارکنگ ایریا (مکان) میں کھڑی گاڑیاں تباہ ہوگئیں اور ان کے ڈرائیور، جو انٹیلی جنس ملازمین ہی تھے، سب ہلاک ہوگئے۔انٹیلی جنس آفس کی جانب میدان میں تربیت میں مصروف تیس سے زیادہ انٹیلی جنس اہل کار ہلاک ہوگئے۔ دو ٹاوروں میں موجود پہرے دار بھی ہلاک ہوگئے۔ دو قریبی بلاکوں کا اکثر حصہ گر کر تباہ ہوگیا۔ وہاں موجود انٹیلی جنس اہل کار، ملازمین، اعلی افسران ہلاک ہوگئے۔ بعدازاں منصوبے کے مطابق دو مزید فدائی مجاہدین جو ہلکے اور بھارے اسلحہ سے لیس تھے، پارکنگ کی جانب سے انٹیلی جنس آفس میں داخل ہوئے اور بقیہ انٹیلی جنس اہل کاروں پر، جو زخمی یا زندہ تھے، حملے شروع کردیے۔ دونوں فدائی الگ الگ بلاک میں داخل ہو گئے۔ وہاں موجود افراد میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا۔ مرکز کا پورا عملہ ختم کر دیا۔ دوگھنٹے بعد باہر سے آئی ہوئی فوج کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی۔ اس لڑائی میں تین گھنٹے بعد ایک مجاہد بھی شہید ہوگیا اور ایک مجاہد جس کا اسلحہ سارا ختم ہوگیا تھا، چاقوؤں اور خنجر سے فوجیوں پر حملے کیے اور لڑتا ہوا باہر آگیا۔ وہ فدائی باہر متعین جگہ پہنچ گیا اور اپنے ساتھیوں سمیت اسی وقت کابل شہر سے باہر آگئے۔

سوال: دشمن کی کل کتنی تعداد ہلاک ہوئی ؟

جواب: دفتر کے تنخواہ کے رجسٹر سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اس انٹیلی جنس آفس میں روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں لوگ رہتے تھے۔ ان کی ڈیوٹیاں لگتی تھیں اور روزانہ آتے تھے۔ اس دفتر میں کام کرنے والے اور روز یہاں آنے والے لوگوں کا اندازہ لگانے کے لیے ہم نے دس روز صبح سے شام تک اس کی ریکی کی تھی۔ ایک گھنٹے میں یہاں 170 افراد داخل ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کاسٹر گاڑیوں میں بھی بڑی تعداد میں لوگ آتے تھے۔ ان معلومات کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حملے کے دن 400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں، جنہیں حکومت نے چھپا دیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس جگہ میں بیرونی انسٹرکٹر بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کا تذکرہ دشمن نے کیا ہی نہیں ہے۔ ان کی صحیح تعداد کیا ہے، اس حوالے سے معلومات نہیں ہیں۔

سوال: آپ کے خیال میں یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے  کس قدر اہم تھا اور اس کی سکیورٹی کا کتنا خیال رکھا جاتا تھا؟

جواب: اصل بات اللہ تعالی کی نصرت ہے۔ انسانی عقل کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہاں دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی پہنچانا اور پھر دھماکہ کرنا، اس کے ساتھ ساتھ مسلح افراد کا داخل ہونا ناممکن لگتا ہے، لیکن یہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ممکن ہوگیا۔ مَیں تو سو فیصد اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ یہ اللہ تعالی کی خاص نصرت اور مدد تھی۔ اسی ایریا میں کابل کا صدارتی محل بھی تھوڑے فاصلے پر ہے۔ وزارت دفاع بھی تھوڑے سے فاصلے پر ہے۔ انٹیلی جنس کا سارا عملہ بھی مقامی ہے اور ان کی حفاظت کے لیے حکومت نے مقامی ایریا کے تحفظ کے لیے بھی بہت سے انتظامات کر رکھے ہیں۔ ہم کیسے کامیاب ہوئے تو یہ اللہ تعالی کی نصرت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالی ان ظالموں کو ہمارے ہاتھوں سے عذاب دلوانا چاہتے تھے اور یہ سب اللہ تعالی کی  کاری گری ہے۔

سوال: آپ نے بتایا کہ ایک فدائی مجاہد واپس زندہ آگیا ہے۔ یہ واپسی کیسے ممکن ہوئی۔ اور انہوں نے اندر کیا دیکھا؟

جواب: جی ہاں، الحمدللہ! ایک فدائی مجاہد کامیابی سے باہر آگیا۔ ہمیں خوشی ہے کہ انہوں نے اگلے حملے کے لیے زبردست تجربہ حاصل کر لیا ہے۔ انہیں ایک بارپھر جہاد کی فرصت مل گئی، مگر وہ مجاہد بہت ناراض تھا اور رو رہاتھا۔ کیوں کہ اس کی خواہش شہادت کی تھی اور وہ انہیں نہ مل سکی۔ بہر حال! جب انہیں گولیاں، بم اور تمام اسلحہ ختم ہوگیا تو انہوں نے دو فوجیوں پر خنجر سے بھی وار کیے۔ چوں کہ وہ دشمن کے دھماکوں اور فائرنگ سے شدید خوف زدہ ہوگئے تھے، اس لیے وہ واپس باہر آگئے۔ ہم نے بھی واپسی کے لیے انتظار کی جگہ متعین کی تھی۔ کیوں کہ اس طرح کے حملوں میں امکان ہوتا ہے کہ حملہ نہ ہوسکے۔ کوئی مشکل پیدا ہوجائے اور ساتھی واپس باہر آ جائیں، تب وہ متعین مقام پر آ جاتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا۔ پانچ گھنٹے بعد حیران کن طورپر یہ مجاہد ہم تک پہنچ گیا۔ مَیں تو اس کو بھی اللہ تعالی کی نصرت قرار دیتا ہوں کہ اس قدر محفوط جگہ سے اتنے بڑے حملے میں بھی ایک مجاہد صحیح سالم واپس نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔

دشمن کو ہونے والے نقصانات کے حوالے سے اس مجاہد نے بتایا کہ ’’دھماکے میں بہت سے افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور ہرجگہ ان کی لاشیں بکھری ہیں۔ تیسرے اور چوتھے بلاک میں جو زندہ بچ گئے تھے، وہ انتہائی گھبراہٹ کا شکار تھے۔ کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نے ایک ایک کو نشانہ بنایا۔ کچھ افراد زخمی بھی تھے، جنہیں ہم نے مار دیا۔ مَیں نے اپنے ہاتھوں سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد گنی تو وہ 58 افراد تھے۔ وہ جو دوسرا ساتھی تھا، وہ مجھ سے زیادہ اچھے مقام پر کھڑا تھا، اس نے مجھ سے بھی زیادہ افراد مارے ہوں گے۔ دھماکے میں تو آپ سمجھتے ہوں گے کہ دفتر کے اندر موجود اکثر اسی میں ہلا ک ہوگئے تھے۔

سوال:      مذکورہ تینوں فدائی مجاہدین کا تعارف کیا ہے؟

جواب:     یہ غزوہ لڑنے والے تین مجاہد تھے۔

  1. جمال الدین۔ یہ ’عبداللہ‘ کے نام سے مشہور تھا۔ میدان شہر کا رہائشی اور ایک مجاہد خاندان کا ہونہار فرزند تھا۔ کچھ عرصہ قبل ان کے دوبھائی دشمن کے ساتھ دست بدست لڑائی میں شہید ہوگئے تھے۔ خود بھی راہ جہاد میں قیدی رہے تھے۔جہاد میں ایک مرتبہ زخمی بھی ہوئے تھے۔ انہوں نے تین سال شہادت کے انتظار میں گزارے۔
  2. سید عبدالولی آغا۔ یہ فدائی میدان میں ’فرید آغا‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔ یہ بھی ایک جہادی خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ خود بھی کچھ مصروفیات کے باعث پڑھائی کی فرصت نہ پا سکے تھے، مگر ایمان کے میدان میں خوب ترقی یافتہ تھے۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں جیل کی سختیاں برداشت کی تھیں۔ جیل ہی میں غیروں کے زرخرید غلاموں کے ہاتھوں اسلامی شعائر کی توہین دیکھ کر ان میں جو انتقام کا جذبہ ابھرا تھا، اسی کے لیے انہوں نے اس حملے میں حصہ لیا۔ شہادت کے اس مقام کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے بھی 4 سال انتظار کیا تھا۔
  3. تیسرا ساتھی سکیورٹی کی وجہ سے ان کا نام لینا نہیں چاہتا، کیوں کہ وہ زندہ ہے۔ ان کا تعلق بھی ایک جہادی اور بہادر خاندان سے ہے۔ اب بھی وہ جہادی منصوبوں میں مصروف عمل ہے۔ انہوں نے دوبارہ حملے کے لیے بھرپور تجربہ حاصل کرلیا ہے۔ اچھی آزمائش سے کامیاب نکلا ہے۔ شہادت ان کی آرزو تھی۔ دوبارہ جب بھی انہیں حکم ہوگا، وہ پھر سے میدان میں کود پڑیں گے۔

سوال: حملے کی منصوبہ بندی کے حوالے سے تفصیلات کیا ہیں؟

جواب: ہم نے طویل عرصے سے ہمہ پہلو جستجو اور نگرانی کے بعد منصوبہ نظم و ضبط والے مجاہدین کے سامنے پیش کیا۔ ان کی جانب سے منظوری کے بعد اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے منظوری دی گئی۔ ہدف مغربی جانب سے گاڑیوں کی پارکنگ کی جگہ تھی، جو دفتر کی مرکزی عمارت سے دس میٹر کے فاصلے پر ہے۔ درمیان میں صرف ایک سنگل دیوار تھی۔ یہاں تک پہنچنا دیگر مقامات کی نسبت آسان اور محفوظ تھا۔ دھماکہ خیز مواد کی گاڑی مناسب حجم کے ساتھ رکاوٹیں ہٹانے اور دفتر کے چار میں سے پہلے دو بلاکوں کی تباہی کے لیے مقرر تھی۔ اسے اتنے ہی بارودی مواد سے بھرا گیا تھا۔ دو فدائی کلاشنکوف، راکٹ، دستی بموں، 11 میگزین، دفاعی جیکٹ اور اسلحہ سے لیس تھے، ان کو بقیہ دو عمارتوں میں موجود اہل کاروں کے خاتمے کے لیے مقرر کیا گیا۔ہدف رات کے وقت اور بھی زیادہ آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا تھا، مگر رات کو عملے کے افراد کم اور دن کو تقریبا سب موجود رہتے تھے۔ اس لیے ہم نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے شدید سکیورٹی تدابیر کے ساتھ منصوبہ کو آگے بڑھایا، جو اللہ تعالی کی مدد سے  بلاکسی رکاوٹ کامیابی سے ہم کنار ہوگیا۔

سوال: حملے کے حوالے سے دشمن کا دعوی یہ تھا کہ یہاں اکثر عام لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ آپ کا جواب کیا ہے؟

جواب: دشمنوں نے گزشتہ 15 سالوں سے ہمارے ہر حملے کو عوام کے خلاف اقدام قرار دیا ہے۔ اپنی ناکامی اور شرمندگی چھپانے کی کوشش کی ہے۔ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ کچھ ذرائع ابلاغ نے دشمن کے انہیں دعووں کو دُہرایا ہے۔ یہی میڈیا ادارے ہیں، جنہیں دشمن اسی دن کے لیے پالتا ہے۔ کابل کا حالیہ حملہ اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہم مقامات میں تھا۔ گاڑیوں کا پارکنگ ایریا اس وقت حکومتی استعمال میں تھا۔ کمپاونڈ کا اندرونی ایریا حملے کی زد میں تھا۔ باہر اس حملے میں کوئی ایک گولی یا بم کا کوئی پرزہ بھی نہیں گیا۔ سو میٹر کے قریب کسی سول آدمی کو آنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ ایک بات ہم تسلیم کرتے ہیں کہ دھماکے سے دور کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے ہیں۔ شیشے ٹوٹنے سے لوگوں کو چوٹیں آئی ہیں، جو بہت معمولی ہیں، لیکن ہر حملے کا کچھ سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوتے ہیں۔ جس سے کلی طورپر بچنا ناممکن ہوتا ہے۔

کابل حملے میں کوئی بھی عام فرد جس کا انٹیلی جنس ادارے سے کوئی تعلق نہیں تھا، ہلاک نہیں ہوا۔ نہ کسی اور کو اس حملے میں نشانہ بنانے کا منصوبہ تھا۔ گزشتہ چند دنوں میں آپ نے خود دشمن ذرائع سے یہ بات سنی ہوگی کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 400 تھی اور یہ سب اسی دفتر سے متعلق لوگ تھے۔ اہل کار، ملازمین، ڈرائیور اور بڑے افسران تھے۔ عام لوگوں کے نہ ہونے کی ایک دلیل میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ اگر واقعتا عام لوگ مارے گئے ہوتے تو دشمن کے میڈیا ذرائع سابقہ واقعات یا عراق اور شام میں مارے جانے والے لوگوں کی تصویریں اٹھا کر اسے کابل حملہ نہ بتاتے، بلکہ کابل حملے کی اصل تصاویر لوگوں کو دکھاتے، جس سے واضح ہوتا کہ عام لوگ مارے گئے ہیں۔ عام لوگوں کو اذیت دینا اور نقصان پہنچانا انتہائی افسوس کی بات ہے، ہمارے مجاہدین اپنی حد تک بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ عام لوگ، عوامی تنصیبات اور عام لوگوں کے گھر حملے کے زد میں نہ آئیں۔

سوال: دشمن ہمیشہ کی طرح آپ کے اس منصوبے کو بھی کسی بیرونی قوت کا پلان کہتا ہے۔ حتی کہ اسے پڑوسی ملک سے وابستہ کرتا ہے۔ آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

جواب: یہاں دوباتیں ہیں۔پہلی، پلان اور منصوبہ بندی۔ دوسری، دشمن کے مقاصد اور پروپیگنڈا۔

مَیں تاکید سے کہہ سکتا ہوں کہ کابل حملے کا منصوبہ ہم نے کابل ہی میں مرتب کیا اور اسے عملی طورپر یقینی بنایا۔ ہماری وہ ٹیم، جس کے ذمے کابل میں اہم اہداف کی تشخیص تھی ہے، انہوں نے یہاں کے تمام اہداف اور رکاوٹوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ اس کے لیے منصوبہ بنایااور اسے عملی طورپر ممکن بنایا۔ یہ ایسا کوئی حملہ نہیں تھا، جس کے لیے ہمیں غیر معمولی وسائل، اسلحہ اور غیر معمولی پلان کا استعمال کرنا پڑتا یا ماضی میں اس طرح کے حملے نہ کیے ہوتے اور اب کر لیتے ہیں تو سوالات اٹھائے جاتے۔ہم نے کابل سمیت افغانستان بھر میں اس طرح کے ہزاروں حملے کیے ہیں۔ ہم نے بیرونی قوتوں کے انتہائی محفوظ مقامات پر اس سے زیادہ شدید حملے کیے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی انٹیلی جنس مرکز پر بھی اس طرح کے حملے ہوچکے ہیں۔ اسی طرح ہمارا یہ حملہ بھی ہمارے اپنے بس میں تھا اور ہم نے ہی اس کا منصوبہ تشکیل دیا تھا۔ دشمن نے اس طرح کے حملوں کی کڑیاں باہر سے کیوں ملائی ہیں تو اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ دشمن چاہتا ہے امارت اسلامیہ کے مجاہدین کی قوت اور طاقت کم دکھائے۔ اپنی شرمندگی اور خجالت چھپائے۔ اپنی کمزوری چھپائے۔ مجاہدین کو بدنام کرے اور لوگوں کے خیالات کو اسی جانب مبذول کرا دے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ دشمن کے تمام حلقے، دشمن سے تعلق رکھنے والے کچھ منافق تجزیہ کار اور کچھ بے خبر لوگ ایمان کی کمزوری کا شکار ہیں۔ یہ لوگ حیران ہیں کہ یہ ممکن ہو سکتا ہے اتنا زیادہ اسلحہ اور خطرناک وسائل ایسی جگہ پہنچایا گیا۔ اگر آپ کہیں گے کہ یہ اللہ تعالی کی نصرت تھی۔ اللہ تعالی نے تم لوگوں کو اندھا کیا اور مجاہدین کو توفیق دی تو یہ بات اس لیے تسلیم نہیں کریں گے کہ انہیں اس پر ایمان نہیں ہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ لوگ سب کچھ اپنی عقل کے ترازو سے تولتے ہیں۔ یہ لوگ قران مجید میں مجاہدین کے ساتھ اللہ تعالی کی نصرت کے وعدوں سے واقف نہیں ہیں یا انہیں اس پر ایمان نہیں ہے۔ ایسے حالات میں بھی یہ لوگ گھسے پٹے دلائل کا سہارا لیتے ہیں۔ انہیں اس طرح کا جھوٹ بولتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔ ہم اس طرح کی باتوں سے کبھی متاثر نہیں ہوئے۔ کیوں کہ ماضی میں سوویت یونین کے کاندھوں پر سوار کمیونسٹ بھی یہی باتیں کرتے تھے۔ آج امریکی کاندھے پر سوار غلام بھی یہی کچھ کر رہے ہیں۔ ان کی یہ باتیں ماضی کی طرح بے فائدہ ہی جائیں گی اور یہ لوگ حقائق کو بدل نہیں سکتے۔

سوال: دشمن نے کہاتھا کہ عمری آپریشن پروپیگنڈا  ہے۔کیا آپ نے  یہ بات غلط ثابت کر دی ہے؟

جواب: کاش یہ سوال اب کوئی دشمن سے کرتا کہ ان کا اب کیا خیال ہے۔ عمری آپریشن نے اپنے پہلے ہفتے ہی ثابت کر دیا کہ یہ آپریشن کامیاب، بلکہ دشمن کی بیخ کنی کرنے والا ہے۔ یہ آپریشن دشمن کا دل نکال باہر کرے گا۔ اس آپریشن میں دشمن کو مکمل شکست ہوگی۔ یہ آپریشن دشمن اور اس کی کٹھ پتلیوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ ہمارے پاس اس طرح کے اور بھی بہت سے منصوبے ہیں۔ امید ہے اللہ تعالی ہماری مدد فرمائےگا  اور یہ کارروائیاں کامیابی سے ہم کنار ہوں گی ۔ انٹیلی جنس مرکز کی تباہی کی طرح دیگر مقامات پر بھی دشمن کی تنصیبات کا خاتمہ کر سکیں اور اس مسلمانوں کو نجات دلانے کے لیے بڑا ادا کریں  گے۔ ان شاءاللہ۔