کابل

کابل اور اشک آباد دہائیوں کے خواب حقیقت بنا رہے ہیں۔

کابل اور اشک آباد دہائیوں کے خواب حقیقت بنا رہے ہیں۔

تحریر: ذاکر جلالی
کابل کی فتح کے چند ماہ بعد ہی ترکمانستان کے وزیر خارجہ راشد مردوف کابل آئے۔ وزارت خارجہ میں دیگر کئی وزرا کے ساتھ ورکنگ میٹنگ ہوئی۔ حاجی ملا عیسیٰ اخوند اس وقت وزیر مائنز اینڈ پیٹرولیم تھے۔ انہوں نے ترکمانستان کے وزیر خارجہ سے کہا کہ: “میں جوان تھا، تاپی منصوبے کی باتیں ہو رہی تھیں، اب میری داڑھی سفید ہو گئی ہے، لیکن ہم آج بھی انہی بحثوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس پر عمل درآمد کب ہوگا؟”
ترکمانستان کے وزیر خارجہ نے جواب دیا کہ ’’یہ سچ ہے کہ ایک طویل عرصہ گزر گیا، اس دوران میں ایک طویل جنگ بھی ہوئی، بہت سی قوتیں ایسی تھیں جو افغانستان اور ترکمانستان کے عوام کو تاپی منصوبے کے ثمرات سے بہرہ ور نہیں ہونے دیتی تھیں، لیکن اب ایسی کوئی قوت نہیں ہے، ہم اور آپ ہی اس منصوبے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔”
تب سے کابل اور اشک آباد مختلف سطحوں پر تاپی منصوبے پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2023 میں امکان تھا کہ افغانستان کی سر زمین پر کام شروع ہو جائے گا، لیکن پھر بھی یہ شروع نہیں ہوا۔ اس کی وجہ دونوں اطراف کی جانب سے کچھ اندرونی کام باقی تھے جنہیں نمٹانا ضروری تھا اور کچھ رکاوٹیں تھیں جنہوں نے تاپی منصوبے کو شروع نہیں ہونے دیا۔ رواں سال امید ہے کہ افغانستان کی سرزمین میں تاپی منصوبے کا عملی کام شروع ہو جائے گا۔ گذشتہ دسمبر میں ترکمانستان کے وزیر خارجہ کا صوبہ ہرات کا دورہ اور اب افغان وزیر خارجہ کا اشک آباد کا دورہ افغانستان میں تاپی منصوبے پر عملا کام شروع کرنے کی تیاریوں کا حصہ ہے۔ افغانستان اور ترکمانستان کے وزرائے خارجہ نے اس جگہ کا بھی دورہ کیا جہاں سے تاپی افغانستان اور ترکمانستان کے زیرو پوائنٹ پر افغان سرزمین میں داخل ہورہا ہے۔ طویل تاخیر کے باعث تاپی پائپ لائن کے اس حصے کو زنگ لگ گیا۔ اس بار ترکمانستان کی جانب سے خاصی دل چسپی اور سنجیدگی دیکھی جا سکتی ہے اور خوش قسمتی سے دونوں ممالک نے اپنے اپنے حصے کے اندرونی کام بھی مکمل کر لیے ہیں۔ افغان وزیر خارجہ کے ساتھ تفصیلی ورکنگ میٹنگ کے بعد ترکمانستان کے قومی رہنما قربانقولی بردی محمدوف نے بھی وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ اس سے ظاہر ہے کہ ترکمانستان کا پہلا فیصلہ ساز بھی اس معاملے میں دلچسپی رکھتا ہے اور ذاتی طور پر معاملات کی نگرانی کرتا ہے۔ دونوں راہنماؤں کے درمیان بات چیت صرف تاپی منصوبے تک محدود نہیں تھی، دیگر کئی موضوعات پر بھی بات چیت ہوئی۔
ترکمانستان افغانستان کی ریلوے اور بجلی کی استعداد کار بڑھانے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ افغانستان ترکمانستان کو پانی کے ذریعے پاکستان سے ملانے کا سب سے قریبی اور سستا راستہ ہے۔ اس لیے ترکمانستان افغانستان میں ریلوے کی توسیع اور ترقی میں دل چسپی رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں ترکمانستان تورغنڈی ریلوے سٹیشن پر کام شروع کرے۔ ترکمانستان افغانستان کے ہرات اور شبرغان صوبوں کو بجلی فراہم کرتا ہے۔ صوبہ ہرات کی بجلی کو بڑھانے کے لیے اس وقت ہرات نور الجہاد سب اسٹیشن پر کام جاری ہے تاکہ اس کی استعداد کار میں اضافہ ہو اور ہرات کو درکار بجلی کی فراہمی ممکن ہو۔ اس کے علاوہ امارت اسلامیہ نے دشت الوان ارغندی کی 500 KV لائن کا ٹھیکہ نجی شعبے کو دیا۔ اس لائن کی توسیع سے کابل مستحکم اور سستی بجلی کا مالک بن جائے گا۔ ایک طرف ترکمانستان کی بجلی مستحکم ہے اور دوسری طرف تمام درآمدی بجلی سے سستی ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر تاپی منصوبے کا عملی کام آنے والے مہینوں میں شروع ہو جائے گا۔ اگر یہ منصوبہ مکمل ہوجائے گا تو یہ افغانستان اور ترکمانستان کا دہائیوں کے خواب پورے ہوں گے۔ یہ وہ خواب ہے جسے بہت سوں نے صرف پروپیگنڈے کے طور پر دیکھا۔ لیکن عملی کام کے آغاز کا ان میں جذبہ تھا نہ اجازت تھی۔ اب جذبہ بھی ہے اور فیصلہ سازی میں آزادی بھی۔ یہ دونوں قوتیں موجود ہوں تو کوئی منصوبہ تکمیل سے نہیں رہے گا اور امارت اسلامیہ یہ منصوبہ مکمل کرے گی ان شاءاللہ۔