امارت اسلامیہ کے جہادی تربیتی مرکز کے ذمہ دار سے گفتگو

مجاہدین کی عسکری تربیت کے ساتھ علمی وفکری تربیت بھی کی جاتی ہے جہادی تحریک میں ٹریننگ ایک بنیادی شرط ہے۔ امارت اسلامیہ کی جانب سے دیگر جہادی پروگرامز کے ساتھ جہادی تربیت کے حوالے سے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ جہاں عام مجاہدین خصوصا فدائی مجاہدین کو کارروائی کے لیے مخصوص عسکری تربیت فراہم کی […]

مجاہدین کی عسکری تربیت کے ساتھ علمی وفکری تربیت بھی کی جاتی ہے

جہادی تحریک میں ٹریننگ ایک بنیادی شرط ہے۔ امارت اسلامیہ کی جانب سے دیگر جہادی پروگرامز کے ساتھ جہادی تربیت کے حوالے سے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔

جہاں عام مجاہدین خصوصا فدائی مجاہدین کو کارروائی کے لیے مخصوص عسکری تربیت فراہم کی جاتی ہے۔ تربیت کیا ہے اور اس کی کتنی ضرورت ہے؟ اس حوالے سے معسکر کے ذمہ دار اور فدائی مجاہدین کے رہنماء جناب عبدالواجد جوہر سے کی گئی گفتگو نذر قارئین کی جاتی ہے۔

سوال: ہم آپ کو شریعت فورم میں خوش آمدید کہتے ہیں،قارئین شریعت سے اپناتعارف کروائیں توکرم نوازی ہوگی ۔

جواب: الحمدللہ الذی ہدانا سبیل ارہاب اعداہ الطغات والصلوۃ والسلام علی نبی الملاحم الذی ربی فوارس واباۃ وبواسل وکماۃ وعلی آلہ واصحابہ الذین اعدوا العدۃ وقارعوا اعداء الأمۃ وعلی من حذا بحذوہم فی الاستقامۃ والثبات۔

وبعد: قال اللہ تعالی ’’واعدوا لہم ماستطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترہبون بہ عدواللہ وعدوکم واخرین من دونہم لاتعلمونہم اللہ یعلمہم ‘‘وعن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو علی المنبر یقول: الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی الا ان القوۃ الرمی۔

میں سب سے پہلے مجلے کی انتظامیہ، مدیر، کارکنوں اوردیگر محبت کرنے والوں کو دل کی گہرائیوں سے سلام کرتا ہوں۔ پھر مجلہ کے ذمہ داران کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے مسلمانوں کے ایک اہم فریضے کے حوالے سے گفتگو کرنے کا موقع فراہم کیا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے، مجھے ٹھیک طریقے سے آپ کے سوالات کے جوابات دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ میرا نام ’’عبدالواجد جوہر‘‘ ہے۔ میرا کام کابل میں فدائی حملوں کا انتظام ہے۔ اسی سلسلے میں مجھے ’’الحمزہ معسکر‘‘ کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔

سوال: آپ مجاہدین کی تربیت کے حوالے سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ جہادی تربیتی پروگراموں کے حوالے سے کیا مراحل ہیں اور فکری اور علمی تیاری کے حوالے سے کیا نصاب ہے؟

جواب: عام طورپر ہمارے معسکر میں مجاہدین کو تین سیٹ اپز میں تیاری کروائی جاتی ہے۔ ان کے نام ’’دورۂ تاسیسیہ، دورۂ متوسطہ اور دورۂ خاصہ‘‘ ہیں۔ ان تمام دوروں میں شرعی حوالے سے لازمی اسباق پڑھائے جاتے ہیں، جن میں مختصر ضروری عقائد، ضروری اسلامی احکام… خصوصا جہاد کے احکام، آداب و فضائل، اسلامی تاریخ، سیرت نبوی، قرآن کریم، ترجمہ و تفسیر اور حدیث کا درس شامل ہے۔ عسکری شعبے میں عمومی تیکنیک، جسمانی ورزش، ہر طرح کے ہلکے و بھاری اسلحے اور دھماکہ خیز مواد کی تیکنیک اور اس کا استعمال سکھایا جاتا ہے۔ سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے حوالے سے تھیوری کے ساتھ پریکٹیکل کا بھی انتظام ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم ’’امارت اسلامیہ کے مجاہدین‘‘ کو فقط امریکا اور جارحیت پسندوں کے انخلا کے لیے ہی نہیں تیار کر رہے، بلکہ ایک مکمل فوج کا ڈھانچہ مقصود ہے، جو اپنے ملک کی حفاظت میں ماہر اور جب بھی دشمن سے جنگ کا موقع آئے تو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری ادا کر سکے۔اس کے علاوہ سیاسی اور فکری تعلیم کے حوالے سے بھی اہم معلومات دی جاتی ہیں۔ کارروائیوں کی عکس بندی کے لیے کیمرے، دیگر تیکنیکی وسائل اور وائرلیس کا استعمال بھی سکھایا جاتا ہے۔

سوال: آپ کے خیال میں جہادی تربیت کی اہم بنیادیں کیا ہیں۔ یعنی جو مجاہد کفر کے خلاف لڑتا ہے یا جنگ کے دیگر شعبوں میں خدمت انجام دیتا ہے، اسے کہاں تک اور کتنا تیار ہونا چاہیے؟

جواب: فکری اور سیاسی تربیت، انتظامی اور اقتصادی تربیت، عسکری سیکورٹی اور انٹیلی جنس تربیت اور علمی و ثقافتی تربیت۔ یہ جہادی تربیت کی اہم بنیادیں ہیں۔ ایک مجاہد جب محاذ پر جاتا ہے تو اس کی فکری تربیت ہونی چاہیے۔ یعنی اسے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ جہاد کیوں کررہا ہے؟ کس مقصد کے لیے لڑ رہا ہے؟ اسلام کی رُو سے جہاد میں کیا جائز اور کیا ناجائز ہے؟ اللہ تعالی کی نصرت حاصل کرنے کے لیے خود میں کون سی صفات پیدا کرنا ضروری ہیں۔ شکست کے اسباب سے بچنا ضروری ہے؟ اُنہیں امارت اسلامیہ کا مرتب کردہ آئین پڑھایا جاتا ہے اور شریعت میں اپنے شرعی امیر کی اطاعت اور مرتبے کا مفہوم سمجھا یا جاتا ہے۔ محاذ کی تمام تر تھکاوٹیں اور تکالیف برداشت کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار اور جسمانی اعتبار سے اس کی بھر پور تربیت کردی جاتی ہے۔ دشمن کی انٹیلی جنس سے بچنے کے لیے لازمی حفاظتی امور سے آگاہی دی جاتی ہے۔ خصوصا موبائل اور دیگر الیکٹرک آلات کے استعمال کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے مجاہدین کو اللہ نہ کرے… قید و بند کی صورت میں زبان بندی کی عملی تربیت دی جاتی ہے۔ راستوں میں سفر کے دوران روپوشی اختیار کرنے کے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ضروری تیکنیکی درس دیے جاتے ہیں۔ یہ سمجھایا جاتا ہے کہ پہرہ اور گشت کیسے کرنا ہے؟ دفاع، مورچہ بندی اور حملے کے وقت مختلف ذمہ داریاں کس طرح نبھانی ہیں؟ زخمی کو ابتدائی طبی امداد کس طرح فراہم کرنی ہے؟ زخمی اور شہید کو کس طریقے سے منتقل کرنا چاہیے؟ اس طرح اور بہت کچھ ہے، جو وقت اور حالات کو دیکھتے ہوئے سکھایا جاتا ہے۔

سوال: جہادی تربیت کے اہم دنیاوی اور اخروی فائدے آپ کی نظر میں کیا کیا ہیں؟

جواب: جہادی تربیت کے اخروی فائدے کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ جہادی تربیت ایک فریضہ ہے، جس کے حوالے سے شریعت کے واضح احکامات وارد ہوئے ہیں۔ تمام مسلمان اس کے مکلف ہیں اور مجاہدین کے لیے اس کا سیکھنا فرض عین ہے۔ اگر کوئی اسے ادا کرے گا تو اُخروی سزا سے محفوظ رہے گا۔ جہادی تربیت کے ذریعے ایک مسلمان خود کو نفاق کی ایک شاخ پر مرنے سے بچا سکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طاقت ور مؤمن کو ایک کمزور مؤمن پر برتری دی ہے۔ طاقت ور اور تربیت یافتہ مسلمان کفار کے خلاف مسلح جہاد کا ثواب حاصل کرسکتا ہے۔ البتہ ضعیف مسلمان اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔ جس مسلمان نے تربیت لے رکھی ہو، وہ اسلام دشمنوں کو زیادہ نقصان پہنچاسکتا ہے اور شریعت میں دین دشمنوں کی خونریزی کرنا ایک مطلوب عمل ہے۔ اسی طرح ایک تربیت یافتہ مسلمان ہدف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بناتا ہے۔ اس کا نشانہ خطا نہیں جاتا۔ احادیث کی رُو سے خطا نہ جانے والا وار، نشانے پر نہ لگنے والی گولی سے فضیلت رکھتا ہے۔

تربیت یافتہ مجاہد کی وجہ سے دیگر فوائد کے ساتھ یہ فائدہ بھی ہے کہ بڑی حد تک بیت المال کا مال ضایع ہونے سے بچ جاتا ہے۔ جو مسلمان اپنے کمزور بھائیوں کی مدد اور اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہے، کفار سے اپنے مقدس مقامات کی توہین کا بدلہ لینا چاہتاہے تو اس پر لازم ہے کہ جہادی تربیت حاصل کرے۔ جہادی تربیت کے دنیوی فوائد بہت زیادہ ہیں۔ امت مسلمہ جہادی تربیت سے دوسرے نقصانات سے خود کو بچا سکتی ہے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت پھر سے حاصل کر سکتی ہے۔ جہادی تربیت سے ہم اپنے عقیدے، جان، مال اور عزت کا دفاع کرسکتے ہیں۔ اس سے ہم میں دفاع کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہمیں دنیا میں آزاد زندگی کی نعمت مل جاتی ہے۔ امارت اسلامیہ افغانستان کو جہادی میدان کے علاوہ ہر میدان میں خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ سیاسی، عسکری، علمی، اقتصادی اور دیگر میدانوں میں تربیت کی برکت سے گذشتہ تیرہ سالہ فتوحات کی حفاظت اور جارحیت و نفاق کے خلاف مکمل فتح حاصل کی جا سکتی ہے۔ ہم اسلامی انقلاب کا قیام اور اس کی حفاظت اسی وقت کرسکتے ہیں، جب مقابلے کے ہر میدان میں قوت اپنی اور ہم فکر ہو۔ سیاست دان، سفارت کار، جنرل، پائلٹ، ڈاکٹر، انجینئر، وکیل، سائنس دان اور اقتصادی ماہرین…… سب اپنے ہوں۔ اپنے عقیدے کے لوگ ہوں اور اپنے تیار کیے لوگ ہوں۔ امارت اسلامیہ پر صلیبی حملے کے وقت مجھے یاد ہے چہار میلہ کے ماہرین، فضائی میزائل کے دفاعی سسٹم پیچر کے ماہرین، پائلٹ اور دیگر افراد، جو سابقہ انتظامیہ سے ہمیں منتقل ہوئے تھے، وہ ہمیں اکیلا چھوڑ کرفرار ہوگئے تھے۔

سوال: جو مسلمان جہادی تربیت اور تیاری نہ رکھتا ہو، جنگ کے میدان میں اسے کون سی مشکلات پیش آسکتی ہیں؟

جواب: جو مجاہدین شرعی حوالے سے جہاد کے متعلق معلومات نہ رکھتے ہوں، ان سے ایسے اعمال صادر ہوتے ہیں جس سے وہ جہاد کے اُخروی ثواب سے محروم ہوجاتے ہیں۔ کبھی کبھی دنیا میں بھی گرفت کا باعث بن جاتا ہے۔ دشمن کے خلاف کوئی مؤثر عمل انجام نہیں دے سکتا۔ دشمن کو باریکی سے نشانہ نہیں بنا سکتا۔ کبھی کبھی اپنے اسلحے سے خود کو یا اپنے ساتھیوں کو زخمی کر بیٹھتا ہے۔ بسا اوقات اپنی بارودی سرنگ ان پرہی پھٹ جاتی ہے۔

سوال: آپ موجودہ حالات میں امارت اسلامیہ کے تربیتی پروگراموں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ تمام مجاہدین یا اکثر کو فکری اور عسکری حوالے سے تربیت دینے کے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟

جواب: الحمد للہ! امارت اسلامیہ افغانستان نے جہادی تربیت کے حوالے سے بہت پیش رفت کی ہے۔ جو عسکری تربیت امارت اسلامیہ اپنے مجاہدین کو موجودہ حالات میں دے رہی ہے، مختصر عرصے اور کشیدہ حالات میں یہ تربیت دنیا کی دیگر حکومتیں اپنی افواج کو بھاری اخراجات اور تعلیمی منصوبوں کے ذریعے دیتی ہیں۔ مگر مَیں پھربھی موجودہ کوششیں ناکافی سمجھتاہوں۔ انہیں کئی گنا زیادہ ہونا چاہیے۔ ہم بہت وقت ضایع کرچکے ہیں۔ ہم نے بہت سے نادر مواقع گنوا دیے ہیں۔ جب کہ ہمارا مقابلہ ترقی یافتہ، تربیت یافتہ اور مسلح دشمن سےہے۔

سوال: روس کے خلاف جہاد کے دوران کچھ گروپوں نے اپنے مجاہدین کو اسلحہ چلانے کا طریقہ تو سکھایا، مگر ان کی ذہنی اور فکری تربیت پر توجہ نہ دی۔ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ نے ان کے متعلق کہا تھا کہ یہ مجاہدین آخر میں آپس میں لڑ پڑیں گےکیوں کہ انہیں اسلحہ چلانا تو آتا ہے، مگر اسلحے کے شرعی اور غیر شرعی استعمال کا علم نہیں ہے۔ کمیونزم کی شکست کے بعد ان کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ موجودہ حالات میں مجاہدین کی طویل مدتی جسمانی تربیت اور ذہن سازی کے لیے آپ کون سے اقدامات ضروری سمجھتے ہیں؟

جواب: صلیبی جارحیت پسندوں اور کابل انتظامیہ کے خلاف ہماری جنگ واضح طورپر ایک جہاد ہے۔ دشمن کے خلاف شدید اور طویل جنگ صرف اور صرف مضبوط عقیدے اور پختہ نظریے کے ذریعے ہی لڑی جاسکتی ہے۔ لازوال عقیدے اور بے لچک نظریے کا وجود صرف اور صرف مجاہدین کی فکری تربیت اور ذہن سازی کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔ مجاہدین کی فکری تربیت نہ ہو تو ہماری منزل دور سے دورتر ہوتی جائے گی۔ انحراف اور مایوسی کے ریشے پیدا ہوں گے۔ہمیں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ میرے خیال میں مجاہدین کی فکری تربیت کے لیے امارت اسلامیہ کو یہ اقدامات کرنا ہوں گے:

الف: تمام ذمہ داروں اور مجاہدین پر تربیت لازمی قرار دی جائے۔

ب: ان کے لیے طریقۂ کار اور نصاب مرتب کیا جائے۔ مجاہدین کی فکری تربیت کے لیے ایک طریقہ کار اور نصاب تشکیل دیا جائے۔

ج: یہ نصاب درس کی شکل میں پڑھایا جائے۔

د: ہر صوبے کے علمائے کرام کو مکلف کیا جائے کہ مقررہ طریقۂ کار کے مطابق مجاہدین کی فکری تربیت کی جائے۔

ہ: مجاہدین کی فکری تربیت کے لیے کوئی ایسا طرز عمل اپنایا جائے، جس کی برکت سے فکری تربیت ذمہ داروں اور مجاہدین کا ایک لازمی فریضہ اور پختہ معمول بن جائے۔

و: امارت اسلامیہ ثقافتی کمیشن اپنے پرنٹ، صوتی، فلمی اور تصویری اشاعتوں میں تربیت پر خصوصی توجہ دے اور ایک منظم منصوبہ بندی کے ذریعے مجاہدین کی فکری تربیت کے لیے مزید نشر و اشاعت کا اہتمام کیا جائے۔

سوال: موجودہ حالات میں عسکری شعبے میں ہماری تربیت صرف اُس اسلحے کے استعمال تک محدود ہے، جو ہمارادشمن بناتا ہے۔ افسوس ہے، مسلمان اس حوالے سے خود کفیل نہیں ہیں۔ جنگی ٹیکنالوجی سیکھنے کے لیے عصری علوم کا سیکھنا بنیادی شرط ہے۔ اس حوالے سے خصوصا تعلیم کے حوالے سے کیا کیا جانا چاہیے؟

جواب: ہمارے خیال میں مدارس کے نصاب میں اتنی عصری تعلیم لازمی شامل کی جانی چاہیے، جو جہادی اور تربیتی امور کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ عصری علوم کے لیے اور مجاہدین کی تربیت کے لیے لازمی جدید ترین اور ترقی یافتہ عصری ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنے کے لیے خصوصی تعلیمی اداروں کا قیام لازمی ہے۔ اگر حالات مناسب نہ ہوں تو ایک منظم طریقۂ کار کے تحت ملک اور خطے میں موجود تعلیمی اداروں سے کام لیاجائے۔ عسکری اور انٹیلی جنس کے شعبہ جات کی تشکیلات میں علم، ٹیکنالوجی، سائنسی تحقیقات اور ایجادات کا خصوصی شعبہ قائم کرنا چاہیے۔ جو اس حوالے سے تمام بااستعداد قوتوں کو جمع کرے اور انہیں اپنے سرکل میں کام پر لگا دیں۔ جنگی ضروریات خود پوری کرنے کی کوشش کریں اور ملک میں موجود نایاب شخصیات کی خدمات حاصل کرنے پر خصوصی توجہ دیں۔

سوال: آپ جانتے ہیں کہ اس دور کی جہادی مزاحمتیں انتہائی شدید، طویل اور حوصلہ آزما ہوتی ہیں۔ جو بسااوقات مجاہدین کے حوصلے اور عزم کو توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے مجاہدین کا عزم اور حوصلہ بلند اور برقرار رکھنے کے لیے آپ کی رائے کیا ہے؟

جواب: حوصلہ اور مورال بلند رکھنے کے لیے صلیب کے خلاف حالیہ جہاد پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ کیوں کہ دشمن ہمارے خلاف وسیع پیمانے پر نفسیاتی جنگ لڑرہا ہے۔ دشمن نے نفسیاتی جنگ کے لیے وسیع پیمانے پر وسائل اختیار کیے ہوئے ہیں، جب کہ دوسری جانب مجاہدین انتہائی پابندیوں کا شکار ہیں۔ مجاہدین کا حوصلہ جنگ کی سختیوں کی وجہ سے نہیں گرتا۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے، جب جنگ کی شدت سے کوئی حوصلہ ہار جاتا ہے۔ کیوں کہ موجودہ دور کے مجاہدین پروانے ہیں، جو اللہ کی راہ میں جان کی قربانی کو تیار ہیں۔ مگر کچھ عوام ایسے ہوتے ہیں، جن سے مجاہدین کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جیسا کہ ’(۱)’دشمن کی نفسیاتی جنگ اور پروپیگنڈہ‘‘۔ (۲) ’’اپنی صف میں کچھ غیر شرعی اعمال‘‘۔ (۳) ’’آپس کی رقابتیں اور ذمہ داران کی غفلت‘‘۔

ہمارے خیال میں امارت اسلامیہ کے متعلقہ حکام مجاہدین کا حوصلہ بلند رکھنے اور مایوسی سے بچانے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں:

اول: مجاہدین کے سامنے شریعت اسلامیہ کی رُو سے صلیبی جارحیت پسندوں، ان کے دوستوں اور معاونین کے خلاف جہاد کا حکم واضح طورپر بیان کیا جائے، تاکہ اس میں کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔

دوم: مجاہدین کے سامنے ہمیشہ یہ بات واضح رکھی جائے کہ ہم نیشنل آرمی، پولیس، بیرونی افواج، اربکیوں اور کٹھ پتلیوں کو کیوں مارتے ہیں کیوں کہ دشمن ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہے کہ ایسی ذہنیت عام کی جائے کہ بیرونی افواج کے انخلا کے بعد جنگ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ نیشنل آرمی، پولیس اور انٹیلی جنس اہل کار ’’اپنے‘‘ ہیں، انہیں مارنا جائز نہیں۔ مجاہدین کو شریعت کی رُو سے یہ سمجھایا جائے کہ ہمارا جہاد جارحیت اور نفاق سے آزاد، ظلم وفساد کے خاتمے اور سچے اسلامی نظام کے قیام کے لیے ہے۔ جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، ان کا قتل واجب ہے۔

سوم: اپنی صفوں کی ’’صفائی‘‘ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ کرپٹ اور بدنام افراد کو اپنی صفوں میں جگہ نہ دی جائے۔ کیوں کہ انہیں دیکھ کر نیک مجاہدین کے حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ان کی جنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

چہارم: مفتوحہ علاقوں میں جرائم کی روک تھام اور عوامی مسائل کے حل کے لیے جو ذمہ دار متعین کیے جاتے ہیں، وہ تقوی دار ہونے چاہییں کیوں کہ خیانت اور رشوت حوصلے پست کرنے کا ایک اہم سبب ہے۔

پنجم: جنگی گروپوں کے درمیان ہم آہنگی اور شراکتِ کار کو مزید فروغ دیا جائے۔ اس حوالے سے بہت زیادہ کام ہونا چاہیے۔ کیوں کہ گروپوں کے درمیان رقابتیں انسانوں کا ایک فطری معاملہ ہے۔ لیکن اس سے مجاہدین میں مایوسی پھیلتی ہے۔ شریف لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ رقابتیں پالنے سے بہتر ہے، آرام سے گھر بیٹھ جائیں۔

ششم: دشمن کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی براہ راست تصاویر اور ویڈیو فلمیں بنا کر جلدی نشر کی جائیں۔ اس سے مجاہدین کا حوصلہ بلند رہتا ہے۔ دشمن کے اس پروپیگنڈے کی روک تھام کی جاسکتی ہے، جو 24 گھنٹے مجاہدین کی کامیابیاں چُھپانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس سے مجاہدین کے حوصلوں پر برا اثر پڑتا ہے۔

ہفتم: مجاہدین کے لیے زیادہ سے زیادہ شرعی کیمپس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ جو مختصر عرصے پر مشتمل ہوں۔ تمام گروپوں پر یہ لازم کردیا جائے کہ اپنے ٹھکانوں اور مورچوں میں روزانہ کی بنیاد پر اصلاحی بیانات کا اہتمام کیا جائے۔

ہشتم: ثقافتی کمیشن مجاہدین کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے خصوصی پرنٹ، صوتی اور فلمی نشریات تیار کرے۔

نہم: مجاہدین ذمہ دار بروقت اپنی استطاعت کے مطابق اقتصادی مشکلات کے حل تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ قیدیوں، یتیموں، معذوروں، زخمیوں اور شہداء کے ورثاء کی فکر کی جائے۔ کیوں کہ جب ایک ذمہ دار اُن کی پروا نہیں کرتا اور ان کے مسائل پر توجہ نہیں دیتا تو اس سے مجاہدین میں مایوسی پھیلتی ہے۔ اور مجاہد یہ سوچنے لگتا ہے کہ اگر مجھ پر ایسی کوئی آزمائش آجائے تو میرا بھی یہی حال ہوگا۔

ایک بارپھر آپ کو نیک تمنائیں اور سلام پیش کرتا ہوں والسلام